خبرنامہ

وزیر اعظم کے بیرونی سفر کے حقائق…… اسد اللہ غالب.

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

وزیر اعظم کے بیرونی سفر کے حقائق…… اسد اللہ غالب.
اپنا منصب سنبھالنے کے بعد وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نیویارک کے اہم سفر پر روانہ ہو چکے ہیں،انہوںنے اس دوران اہم باتیں کی ہیں اور چشم کشا حقائق بیان کئے ہیں مگر لاہور کے ضمنی الیکشن اور نیب کی طرف سے شریف فیملی کے خلاف مقدموں کی بھر مار نے وزیر اعظم کی باتوں کو پس منظر میں دھکیل دیا۔ یہ قومی تاریخ کا سنگین المیہ ہے کہ پاکستان کو بنانا ری پبلک بنا دیا گیا ہے اور ان دیکھی، ان جانی قوتیں حکومت کو نشانے پر رکھے ہوئے ہیں جس سے سوائے سیاسی، قومی ، ملکی ا ور حکومتی عدم استحکام کے کچھ حاصل نہیں ہو گا، پاکستان میں یہ کھیل پہلی بار نہیں کھیلا جا رہا، بابائے قوم کی ایمبولینس کوکراچی کے ایک ریلوے سگنل پر روک کر انہیں تڑپ تڑپ کر مرنے دینے سے یہ سلسلہ شروع ہوا، پھر کسی بھی سیاسی، عوامی ا ور جمہوری حکومت کو سال چھ ماہ سے زیادہ نہیں چلنے دیا گیا جبکہ فوجی ڈکٹیٹروں کے ساتھ کسی نے تعرض نہ کیا، عدالتوںنے انہیں کلین چٹ دی اور ایک بد بخت فوجی ڈکٹیٹر نے پاکستان کو بلا روک ٹو ک دو لخت کردیا، اب چار سال قبل کے الیکشن کے بعد ایک سول جمہوری منتخب حکومت کو لرزہ بر اندام کر دیا گیا ہے۔

بہر حال اس وقت جیسی بھی حکومت ہے، اس پر قناعت کرنا مجبوری ہے، شاہد خاقان عباسی اس حکومت کے کپتان ہیں۔وہ جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لئے عازم سفر ہو چکے، انہوںنے کچھ باتیں اسلام ا ٓباد ایئر پورٹ پر کیں کچھ لندن پہنچ کر اور ایک دو انٹریو فنانشل ٹائمز اور بلوم برگ کے ساتھ بھی، آج کے اخبارات میںبھی ان کی میڈیاٹاک رپورٹ ہوئی ہے۔میری قومی میڈیا سے درخواست ہے کہ وہ اپنے وزیر اعظم کی منا سب کوریج کرے اس لئے کہ وہ قومی افتخار کا نشان ہیں۔ نیب کی پھرتیاں اپنی جگہ ، مگر یہ قصہ ا ب لایعنی ہے، بے مغز ہے اور بچے بچے کو علم ہے کہ لکھا ہوا فیصلہ جائے گا، جیسا نواز شریف کے ساتھ پہلے ہو ا کہ سوال گندم جواب چنا، کھودا پہاڑ، نکلا چوہا کے مصداق کرپشن اور لوٹ مار کے کھربوں کے الزامات دھرے کے دھرے رہ گئے اور کسی بہانے نواز شریف کو نکالنے کا جو فیصلہ فرشتوںنے لکھ رکھا تھا، اس کے لئے کوئی بہانہ تلاش کر لیا گیا۔ کہ آٹا گوندھتی عورت ہلتی کیوں ہے۔مگر یہ فیصلہ تو کسی نے نہیںمانا اور نہ کوئی مانے گا،اسی طرح امریکی صدر کے الزامات کو بھی کوئی نہیںمانے گا۔ وزیر اعظم عباسی سے معتبر اور کون ہے اس ملک میں ، وہ تین بار کہہ چکے کہ صدر ٹرمپ نے اپنی دھمکیوں پر عمل کیا تو دنیا میں دہشت گردی کے خلاف جنگ پر شدید منفی اثرات مرتب ہوں گے، امریکہ پاکستان کی سرگرم حمایت سے محروم ہو کر تنہا رہ جائے گا، افغانستان کے اندر پہلے ہی اس کا برا حال ہے، افغان طالبان ملک کے چالیس فیصد رقبے پر قبضے کا دعویٰ کرتے ہیں اور باقی ساٹھ فیصد میں امریکی اور اتحادی افواج ہمہ وقت ان کے نشانے پر رہتی ہیں ، یہ امریکہ کی کھلی ناکامی ہے جسے چھپانا ا ور اپنے عوام کی آنکھوںمیں دھول جھونکنے کے لئے وہ پاکستان کو حقانی گروپ کی سرپرستی کا الزام دیتا ہے۔
وزیر اعظم نے کھلی پیش کش کی ہے کہ پاک افغان بارڈر کو سیل کرنے کے لئے پاکستان ہر وقت تیار ہے، اس بارڈر پر مشترکہ گشت کے لئے بھی تیار ہے اور دونوں طرف در اندازی کی نگرانی کیلئے مشترکہ مورچے بھی تعمیر کرنے کو تیار ہے، وزیر اعظم نے یہ بھی کہا ہے کہ پاکستان امن مذاکرات کے لئے اپنی خدمات پیش کرتا ہے۔
وزیر اعظم عباسی نے امریکہ سے کہا ہے کہ ہم نے دہشت گردی کے خاتمے کے لئے قربانیاں دی ہیں، یہ قربانیاں امریکی ا ور اتحادی افواج سے کئی گنا زیادہ ہیں، امریکہ میں اتنے تابوت نہیں گئے، جتنے ہم نے اپنے شہیدوں کے تابوت وصول کئے ہیں۔ دس ہزار فوجی افسروں اور جوانوں کی قربانی تو ہم نے پاک بھارت جنگوں میں نہیں دی، ایک لاکھ کے قریب ہمارے بے گناہ عوام کو خود کش حملوں میں نشانہ بنایا گیا ہے۔ اور دیکھئے کہ صدر ٹرمپ نے ہمیں کس مذاق کا نشانہ بنایا ہے، اپنے پالیسی بیان میں کہتے ہیں کہ خطے کی سیکورٹی کو فول پروف بنانے کے لے بھارت کی ڈیوٹی لگائی جائے گی۔دوسری دھمکی یہ تھی کہ پاکستان سے تعلقات کم کر دیئے جائیں گے۔ اس کی مالی اور فوجی امداد روک لی جائے گی،پاکستان میں دہشت گردی کے مبینہ اڈوں پر بلااطلاع حملے کئے جائیں گے ۔ یہ دھمکیاں گننے لگیں تو سانس پھول جائے گا۔ وزیر اعظم عباسی نے صدر ٹرمپ سے چبھتا ہوا سوال کیا ہے کہ کیا ایسا ہی سلوک ایک اتحادی ملک سے روا رکھا جاتا ہے۔ وزیر اعظم نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ صدر ٹرمپ کی پالیسی سے پاکستان کو باضابطہ طور پر مطلع نہیں کیا گیا، ہمیں تمام ا طلاعات اخبارات سے مل رہی ہیں مگر ہم صدر ٹرمپ کی طرف سے براہ راست مکالمہ چاہتے ہیں جس میں ان پر زور دیں گے کہ وہ ا فغان مسئلہ حل کرنا چاہتا ہے تو ا سکے لئے نہ تو کابل میںامریکی افواج میںاضافہ کوئی مدد کر سکے گا ، نہ پاکستان کے ساتھ تعلقات کی خرابی سے یہ مسئلہ حل ہو گا بلکہ اصل حل صرف اور صرف مذاکرات کے ذریعے نکل سکتا ہے اور امریکہ کو جلد یا بدیر افغان عوام کے حقیقی نمائندوں سے بات کرناہو گی ا ور ان لوگوں کو اعتماد میں لینا ہو گا جو افغانستان کے چالیس فی صد حصے کو کنٹرول کر رہے ہیں، انہیں اورپا کستان کو باہر رکھ کر نہ افغانستان میں امن آ سکتا ہے۔نہ دنیا میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کامیاب ہو سکتی ہے۔
بلوم برگ نیوز ایجنسی نیویارک کے ساتھ بات کرتے ہوئے وزیر اعظم عباسی نے کہا ہے کہ ہم اس موقف پر قائم ہیں کہ طاقت سے مسائل حل نہیں ہوتے، امریکہ کو سیاسی راستہ اختیار کرنا ہو گا اور دھمکیوں سے باز رہنا ہو گا۔ پاکستان سمجھتا ہے کہ دہشت گردی امن عالم کے لئے خطرہ ہے اور ہم اس کے خلاف اپنے طور پر لڑتے رہیں گے مگر ہمارا بیشتر اسلحہ امریکہ ساختہ ہے، اس لئے امریکہ اگر دفاعی امداد روکتا ہے تو پاکستان دہشت گردی کے فتنے کی سرکوبی کے قابل نہیں رہے گا۔
بلومبرگ نیوز ایجنسی نے وزیر اعظم عباسی کے موقف کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ امریکی صدر ٹرمپ اگر فوجی طاقت بڑھا کر بھی امن قائم نہ کر سکے تو یہ ان کی بڑی ناکامی ہو گی اور امریکہ افغان دلدل میںمزید دھنس کر رہ جائے گا۔
عقل مند کے لئے اشارہ کافی ہونا چاہئے۔اور اگر ٹرمپ صاحب ضد کریں گے تو وہ دنیامیں خرمن امن کی تباہی کا باعث بنیں گے۔امریکہ اب تک وار آن ٹیرر میں 714 ارب ڈالر جھونک چکا ہے جس سے اس کی معیشت متاثر ہو رہی ہے، امریکی عوام کے لئے روزگار کے مواقع ختم ہوتے جا رہے ہیں،امریکہ کو سوویت روس کے انجام سے سبق سیکھنا چاہئے۔