خبرنامہ

وزیر خزانہ کے دفتر سے۔۔۔اسداللہ غالب۔۔۔انداز جہاں

بسم اللہ…ایئر فورس ون کی ڈیٹ لائن استعمال کی جائے تو اس کا مطلب ہوا کہ امریکی صدر کے جہاز سے اسٹوری فائل کی جا رہی ہے، کبھی یہ بھی لکھا نظر آتا ہے کہ وزیر اعظم کے طیارے سے، تو اس کا مطلب ہو اکہ وزیر اعظم کے خصوصی طیارے سے اسٹوری ارسال کی گئی ہے، امریکی صدر کے جہاز میں تو فیکس، انٹرنیٹ ، وڈیووغیرہ کی تمام سہولیات موجود ہیں مگر میںیقین سے یہ نہیں کہہ سکتا کہ ہمارے وزیر اعظم کا طیارہ بھی ان سہولتوں سے لیس ہے یا نہیں۔ میں کسی و زیر اعظم کے ہیلی کاپٹر گروپ میں شامل نہیں رہا مگر میرا خیال ہے کہ ہمارے وزیر اعظم کے زیر استعمال طیارہ ان خصوصیات سے بہرہ مند نہیں تو اس صورت میں ہمارے صحافی دوست جہاز میں کی گئی وزیر اعظم کی میڈیا بریفنگ کو اپنے دفتر پہنچ کر ہی احاطہ تحریر میں لا سکتے ہیں ۔
اب میں کیا بتاؤں کہ میری جو ملاقات وزیر خزانہ اسحق ڈار سے ان کے دفتر میں ہوئی، اس کی روداد کہاں بیٹھ کر لکھ رہا ہوں مگر یہ ضرور ہے کہ جو کچھ لکھ رہا ہوں وہ میں نے انہی کے دفتر میں سنا یا وہیں محسوس کیا ۔
یہاںیہ اقرار کرتا چلوں کہ ایک با رمجھے وزیر اعظم نواز شریف اور وزئر اعظم بے نظیر کے ساتھ بیرونی سفر کا موقع ضرور ملا، نواز شریف صاحب اپنے ساتھ ڈھاکہ لے گئے، واپسی کے سفر میں طوفانی موسم کا سامنا ہوا، خیریت یہ رہی کہ جہاز کے پرخچے نہیں اڑے ورنہ سونامی جیسی کفیت ضرور تھی، وزیر اعظم نے ا س قدر خراب موسم کے ناجود اڑان بھرنے کا حکم دیا تو میں ان کے حوصلے پر ششدر رہ گیااور واپس دفتر پہنچ کر ۔۔طوفانوں کا مسافر کے۔۔ عنوان سے کالم لکھ کر ان کی حوصلہ مندی کی داد دی۔محترمہ بے بے نظیر کے ساتھ جہاز میں میرا تلخ مکالمہ ہوا، اس کی تصفیل دو تین اقساط میں تحریر کی، یہ سب کچھ نوائے وقت کے ادارتی صفحات میں محفوظ ہے۔
آپ یقین نہیں کریں گے کہ وزیر خزانہ سے میں نے سیاست اور حکومت کاری پر کوئی بات نہیں کی،خزانے ا ور معیشت پر بھی نہیں کی، بس ہم نے ماضی کو کریدا۔پرانی یادیں تازہ کیں،گورنمنٹ کالج لاہورکے زمانے کو یاد کیا جہاں اسٹیٹ بنک کے موجودہ ڈپٹی گورنر سعید احمدبھی ہمارے جتھے میں شامل تھے۔ اسحق ڈار سے منسوب ایک بیان میں انہی سعید احمد کا نام بھی سننے کو ملتا ہے جن کے توسط سے مبینہ طور پر نواز شریف نے منی لانڈرنگ کی مگر میں نے اپنے کالموں میں ہمیشہ لکھا ہے کہ میں ان دونوں کی بے گناہی کی قسم خانہ کعبہ کی چوکھٹ پکڑ کر کھا سکتا ہوں۔عدالتیں بھی کئی بار انہیں بری کر چکی ہیں اور جنرل مشرف کے عقوبت خانوں کے انچارج بھی ان پر فرد جرم عائد نہیں کر سکے تھے۔موجودہ ملاقات میں ڈار صاحب نے مجھ سے یہ پوچھا کہ آپ کس بنیاد پر ہمارے حق میں بات کرتے ہیں ،میں نے کہا کہ ایک تو آئین میں باسٹھ تریسٹھ کے تقاضوں پر آپ پورا اترتے ہیں اور دوسرے میں آپ دونوں کی پارسائی،شرافت، نجابت اور دیانت کا پچاس برس سے عینی شاہد ہوں۔
وزیر خزانہ کی ٹیم سے بھی میرا تعارف ہوا، سیکرٹری خزانہ طارق باجوہ اسمارٹ شخصیت کے مالک ہیں، پنجاب میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منو اچکے ہیں۔طارق محمود پاشا اعلی گریڈ میں ترقی پانے کے بعد نیا منصب سنبھال چکے مگر وہ ساتھ ہی وزیر خزانہ کے اسپیشل ا سسٹنت کے فرائض بھی اد اکر رہے ہیں، ان سے اکثر ٹلی فون پر بات ہوتی رہی ہے اور وہ خوشگوار طبیعت کے مالک ہیں،مھے ایک نوجوان فضل دا د کبھی نہ بھولیں گے جو سراپا عجزو انکسار نظر آئے ، اقتدار کی راہداریوں میں تو گردنیں تن جاتی ہیں مگر فضل داد کوداد دینے کو جی چاہتا ہے کہ وہ ایک ہنس مکھ انسان ہیں اور ان سے بات کرتے ہوئے شبہہ بھی نہیں ہو نے پاتا کہ وہ اس ملک کے ایک طاقتور اور مؤثتر تریں وزیر کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔خوش نصیب ہے وہ وزیر جسے اس طرح کی ایک با صلاحیت اور فرض کے ساتھ مکمل لگن کی مالک ٹیم میسر آ جائے۔
اس روزدارالحکومت میں کوئی تناؤنہیں تھا۔وزیر اعظم کا ہیلی کاپٹر بلوچستان میں لینڈ ہوا،پھر وہ ایک گاڑی میں سوار ہوئے ا ور اڑھائی سو کلو میٹرکی ٹیسٹ ڈرائیو پر نکل کھڑے ہوئے۔وزیر اعظم کا سارا فوکس اس وقت پاک چین اقتصادی راہداری پر ہے، وہ بلا تکان ملک کے اندر اور باہر گھوم پھر رہے ہیں، ان کی حکومت بے حد پر سکون چل رہی ہے۔، ہلکی سی خراش بھی کہیں نظر نہیں آتی۔ اگر کوئی نیااشو جنم لیتا بھی ہے تو آْل راؤنڈر کے طور پر اسحق ڈار حرکت میں آ جاتے ہیں۔اس ملک کا کوئی وزیر خزانہ سیاست کاری کے جوہر نہیں دکھا سکا، بس ہندسوں کی شعبدہ بازی تک محدود رہتا ہے۔مگر اسحق ڈار وفاقی حکومت کے معاملات پر مکمل طور پر حاوی ہیں۔ان دنوں وہ فوجی عدالتوں کا مسئلہ طے کروانے میں سرگرم ہیں، کہاں وزیر خزانہ ، کہاں فوجی عدالتیں، یہ دفاع کا شعبہ ہو سکتا ہے،قانون کی درد سری ہے، اور داخلہ امور کی وزارت کا اشو بھی مگر ایک و زیر خزانہ نے اس حساس اور نازک معاملے کو حل کرنے کی ٹھان رکھی ہے، میں نے ا س موضوع پر ان سے کوئی سوال نہیں کیا مگر ماحول کی آسودگی چغلی کھا رہی تھی کہ بس یہ معاملہ حل ہوا ہی چاہتا ہے، میری ملاقات کے دوران وزیر قانون بھی ان سے ملنے چلے آئے مگر ہماری بات چیت جاری رہی، ہم برسوں بعد آپس میں ملے تھے، آخری مرتبہ میں ان سے تب ملا جب وہ مشرف کے گوانتا نامو کے شکنجے سے باہر نکلے ا ور ایم ایم عالم روڈ پر کوئی کاروبار کھڑا کرنے میں مصروف تھے۔ ایک بزنس مین کاروبار نہیں کرے گا تو کیا ہل چلائے گا۔ انہوں نے اپنی لٹی پٹی ایمپائر پھر کھڑی کی ا ور اسے بلندیوں تک پہنچایا اور آج ان کی اگلی نسل کاروباری دنیا کے لئے رول ماڈل ہے ور مجھے اپنے اس بھتیجے علی مصطفی ڈار پر دلی فخر ہے۔فخر تو مجھے اپنے بھتیجے خالد سعید اختر پر بھی ہے جو ایک سیلف میڈ انسان ہے۔ جس کے پرائمری اسکول ٹیچر والدنے بائیس برس تک ٹوٹی ہوئی کمر کے ساتھ بستر سے چپک کر زندگی گزاری، خالد آج اپنی صلاحیتیوں اور پیشہ ورانہ مہارت کی بنا پر لیسکو کا اعلی تریں افسر وں میں سے ایک ہے۔
مجھے اسحق ڈار کے ساتھ دوستی پر بھی فخر ہے۔انہیں چار ٹرڈ اکاؤنٹنٹ کہہ کرآپ ان کی تحقیر نہیں کر سکتے۔وہ ملکی سیاست اور معیشت کے فلک پر ایک درخشندہ ستارے کی طرح آب وتاب دکھاتے رہیں گے، ڈپٹی چیئر مین پلاننگ کمیشن کے منصب سے انہوں نے ملک کی خدمت کا بیڑہ اٹھایا، تیسری مرتبہ وزیر خزانہ ہیں اور سینیٹر مشاہد حسین اپنی جو آپ بیتی لکھ رہے ہیں ، اس کے مطابق امریکی صدر بل کلنٹن کے ساتھ وزیر اعظم نواز شریف کی قیادت میں پاکستانی وفد کی ایک ملاقات کے بعد میڈیا بریفنگ میں انہوں نے یہ دلچسپ فقرہ کسا تھا کہ اسحق ڈار جلد ہی بل کلنٹن کو اپنا سی وی پیش کر رہے ہیں۔
اسحق ڈار نے مشاہد حسین کی یہ پیش گوئی پوری نہیں ہونے دی ،ا سلئے کہ وہ اپنی زندگی اپنے مادر وطن کے لئے وقف کر چکے ہیں۔
اس ملاقات کی وجہ تسمیہ اقبال چیمہ ہیں جو پانی کے ذخائر پر عوامی شعور بیدار کرنے کے لئے برطانیہ سے پاکستان آئے ا ور مجھے یہ مشورہ دے گئے کہ میں پنڈی کے الشفا آئی ٹرسٹ میں ضرور معائنہ کرواؤں۔اس معائنے کے دوران مجھے وزارت خزانہ سے طلبی کا فون آ گیا۔ میری آنکھوں میں کئی قسم کے دارو ڈال دئے گئے تھے اور مجھے زمین و آسمان پر دھند ہی دھند نظر آ رہی تھی مگر میرے اندر کی آنکھیں ایک پر سکون اور صاف شفاف سیاسی منظر دیکھ رہی تھیں، شاید یہ قبل از دوپہر سب سے زیادہ مدت گزارنے والے پی آئی اوراؤ تحسین علی خان سے ملاقات کا نتیجہ تھا جو ایک خوش قسمت ،پر امید اور باغ بہار شخص ہیں۔
اب میں ایک بار پھر اسلام آباد جانے کا منتظر ہوں اور ، اگلی بار میں اپنے بھائیوں جیسے محترم دوست عرفان صدیقی سے ملاقات چاہتا ہوں ، یہ بھی سیاست یا حکومت سے متعلق نہیں ہو گی بلکہ بانی پاکستان حضرت قائد اعظم کی ذات گرامی کے کردار کی تشہیر اور تفہیم کے سلسلے میں ہو گی۔
رخصتی کے وقت اسحق ڈار نے پوچھا کہ کوئی خدمت، میں نے کہا کہ آپ کے بارے میں مشہور ہے کہ آپ کسی سفارش کو نہیں مانتے ، نہ کسی محکمے میں دخل دیتے ہیں ، نہ کسی کو اپنے محکمے میں دخل دینے دیتے ہیں، اس لئے الٹا ،میں آپ کو اپنی حقیر خدمات پیش کرتا ہوں، میں نے سن رکھا ہے کہ آپ لاہور میں یتیموں کے لئے ایک فلاحی ا دارہ چلا رہے ہیں، اس سلسلے میں میرا مکمل تعاون آپ کے ساتھ ہے، اس لئے کہ یہ کیفیت میں نے خود بھگتی ہے اور کسی کے اس دکھ کو برداشت کرنا میری برداشت سے باہر ہے۔ اسحق ڈار کو ملنے کے لئے وزیر قانون تشریف لے آئے تھے ، اور مسلسل انتظار کر رہے تھے، ہم دو پرانے دوست اپنی دنیا میں کھوئے بیٹھے تھے۔وقت گزرنے کا احساس ہی نہ ہوا۔ ڈار صاحب مجھے لفٹ تک چھوڑنے آئے۔یہ ایک اعزاز تھا جس کے لئے میں ان کا ممنون ہوں۔مجھے محسوس ہوا کہ اس دنیا میں کوئی تو واقعی سے مجھے اپنابھائی سمجھتا ہے۔ورنہ میری کیا اوقات کہ میں اسلام آباد کے اقتدار کے طلسم کدے میں قدم رکھنے کی ہمت بھی کرتا۔