خبرنامہ

وکٹری تقریر میں مسئلہ کشمیر کا ذکر اوراس کے حل کا فارمولہ

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

وکٹری تقریر میں مسئلہ کشمیر کا ذکر اوراس کے حل کا فارمولہ

عمران خان نے وکٹری تقریر میں مسئلہ کشمیر کا ذکر کیا،جس پر اخباری رپورٹوں کے مطابق کشمیری لیڈروں نے خوشی کا اظہار کیا ہے کہ کسی پاکستانی متوقع حکمران نے اس مسئلے کو اقتدار میں آنے سے قبل ہی اپنے ایجنڈے کا حصہ بنایا ہے، اور کشمیریوں کے انسانی حقوق کی پامالی پر احتجاج کیا ہے، کشمیر کو پاک بھارت کے درمیان کوایشو قرار دیا ہے ا ورا سے حل کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے بھارت کو پیش کش کی ہے کہ وہ ایک قدم آگے بڑھائے گا توہم دو قدم آگے بڑھائیں گے۔
عمران خان نے اپنی تقریر میں خارجہ پالیسی کی جہت کو درست کرنے کا عندیہ دیا ہے۔اس سلسلے میں بھارت سے تعلقات کو بہتر بنانا ان کی اولین ترجیح ہو گی تاکہ دونوں ملک باہمی تجارت میں اضافہ کر سکیں۔ اور اپنے عوام کو غربت سے نکال سکیں۔
عمران خان کے ذہن میں مسئلہ کشمیر کے حل کا کیا فارمولا ہے، اس ضمن میں ان کی طرف سے کوئی سوچ سامنے نہیں آئی۔ عمران خان کی پارٹی کے ایک بڑے لیڈر خورشید قصوری جنرل پرویز مشرف کے دور میں وزیر خارجہ رہے ہیں اور انہوں نے بھارتی راہنماؤں کے ساتھ مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے کئی بار مذاکرات کئے اور آخر کار دونوں ملک معاہدے کے ایک مسودے پر اتفاق رائے کے قریب قریب پہنچ گئے، بس شین قاف درست کرنا باقی تھا کہ پاکستان میں عدلیہ کا بحران کھڑا ہو گیا، پرویزمشرف حکومت ڈانواں ڈول ہو گئی اور کشمیر معاہدہ ساری چوکڑی بھول گیا۔
کیا عمران خان کشمیر پر معاہدے کے عمل کو وہیں سے شروع کر سکتا ہے جہاں پرویزمشرف نے اسے چھوڑا تھا، مگر یہ معاہدہ تھا کیا، خورشید قصوری کی کتاب کوئی نصف درجن ملکوں سے شائع کی گئی، ا سکی کئی تقاریب منعقد ہوئیں جن میں بھارت کی تقریب ا س لحاظ سے قابل ذکر ہے کہ خورشید قصوری کے میزبان جناب کلکرنی کا بھارتی انتہا پسندوں نے منہ کالا کر دیا۔ یہ کتاب اس قدر موٹی ہے کہ کسی کے سر پہ دے ماری جائے تو سر پھٹ جائے مگر ضخیم ترین کتاب میں اگر کچھ نہیں ہے تو وہ معاہدہ نہیں ہے جس کا خورشید قصوری ہر سانس کے ساتھ فخریہ اظہار کرتے ہیں۔
بھارت کہہ مکرنیوں میں مہارت رکھتا ہے۔ اس نے ریڈ کلف کوگانٹھا اور پنجاب کے اس طرح دو ٹکڑے کئے کہ اسے کشمیر تک سڑک کے ذریعے رسائی بھی مل گئی اور مادھو پورا ور ستلج ہیڈورکس کاکنٹرول بھی مل گیا۔ دوسرے مرحلے میں اس نے کشمیر پر فوجی یلغار کی ا ور اس کے نوے فیصد حصے پر قبضہ جما لیا۔ اس قبضے کو مستحکم کرنے کے لئے وقت کے ساتھ ساتھ ا س نے فوج میں اضافہ شروع کیا، اب کو ئی ا ٓٹھ لاکھ کے لگ بھگ بھارتی فوج صرف وادی کشمیر میں موجود ہے جو پاکستان کی کل فوج سے بھی زیادہ ہے۔اس قدر بڑی فوج کے بل پر اس نے کشمیریوں کے سر پہ سنگینیں تان رکھی ہیں اور جو کوئی سرا ٹھاتا ہے، اسے تہہ تیغ کر دیا جاتا ہے، حریت کانفرنس کی قیا دت ہمہ وقت قید و بند کا شکار ہے اور سڑکوں پر پاکستان زندہ بادکے نعرے لگانے اور آزادی آزادی کا مطالبہ دہرانے والوں کو پیلٹ گنوں سے نشانہ بنایا جاتا ہے جن سے کشمیری مرد، خواتین حتیٰ کہ بچے بھی بینائی سے محروم ہو رہے ہیں، سری نگر کے قبرستان میں ایک لاکھ سے زائد نئی قبروں کا اضافہ ہو گیا ہے، یہ کشمیریوں کی نسل کشی کے مترادف ہے۔ کشمیر کا مسئلہ یہ ہے کہ اسے ایک ملحقہ مسلم اکثریتی ریاست ہونے کے ناطے پاکستان کا حصہ بننا تھا، قا ئد اعظم نے اسے پاکستان کی شہ رگ قرار دیا تھا مگر بھارت نے ا پنے ا ٓئین میں ترمیم کر کے اسے اپنا اٹوٹ انگ بنا لیا، اب کشمیر کو بھارت کے چنگل سے چھڑانا اتنا ہی مشکل ہے جتنا واہگہ کی سرحد پر ایک چپہ آگے کی طرف پیش قدمی اورا مرتسر، گوردا سپورا ور فیروز پور کی واپسی کا تو تصور بھی نہیں کیا جاسکتا،اس پس منظر میں عمران کو مسئلہ کشمیر کی سنگینی کو محسوس کرنا چاہئے۔عمران کو شاید شاہ محمود قریشی پورا سچ بتا سکیں کہ بھارت سے جب بھی مذاکرات شروع ہوئے تو وہ کسی نہ کسی بہانے مذاکرات سے بھاگ گیا۔ اس نے جامع مذاکرات کا سلسلہ بھی نہیں چلنے دیا۔ایک بار جامع مذاکرات کے لیے خود شاہ محمود قریشی بھارت میں تھے کہ ممبئی سانحے کی آڑ میں انہیں واپس بھجوا دیا گیا۔
عمران خان شاید کرکٹ ڈپلومیسی شروع کر سکتے ہیں۔ ضرور کریں،انہیں جلد پتہ چل جائے گا کہ بھارتی انتہا پسند کس طرح کرکٹ اسٹیڈیم کو شعلوں کی نذر کر دیتے ہیں، یہ شعلے کشمیریوں کی روح آزادی کو بھسم کر کے رکھ دیتے ہیں۔
کشمیر کے سارے دریاؤں کا پانی بھارت نے ہتھیا لیا ہے۔ یہ سندھ طاس معاہدے کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ مگر بھارت کسی کی نہیں سنتا، وہ علی الاعلان کہہ رہا ہے کہ بوند بوند کو ترسے گا پاکستان، قبرستان بنے گا پاکستان، نعوذ بااللہ۔ نہ جانے اس قبرستان کا گورکن کون ہو گا۔ ایک بارپاکستان اکہتر میں قبرستان بنا تھا، اس میں آدھے ملک کو دفنا دیا گیا تھا۔
کشمیر کا ذکر کر کے عمران خان نے واہ واہ کروا لی مگر کیا وہ کشمیر کاز کے علم بردار حافظ سعید پر یو این ا و کی پابندیوں کو ٹھوکر مار سکے گا۔ بھارت نے یواین کی قراردادوں پر عمل نہیں کیا تو اس کا کسی نے کیا بگاڑ لیا، ایران پر امریکہ نے پابندیاں لگائیں تو کیا ایرانی قوم بھوک سے مر گئی، عمران قوم پرست بنتا ہے تو یو این اور امریکہ کی ناروا پابندیوں کو ٹھکرا دے ا ور حافظ سعید کو قومی سیاست اور فلاحی کاموں میں حصہ لینے کی اجازت دے،خود عمران نے بھی طالبان کی حمائت کی، اس کا اب پھر اعادہ کیا مگر امریکہ نے اس پر کوئی پابندی نہیں لگائی۔عمران تھوڑی سی اپنے اندر ہمت پیدا کرے۔
بھارتی وزیر اعظم مودی نے عمران خان کو فون کر کے مبارکباد پیش کی ہے۔ نواز شریف اور مودی کے درمیان اس طرح کے پیغامات کے تبادلے پر قوم نے نواز شریف پر تنقید کے تیر برسائے تھے۔بے نظیر بھٹو نے اسلام آباد کی سارک کانفرنس میں راجیو کی طرف ذرا مسکراہٹ بھری نظروں سے دیکھ لیا تو ہم لوگوں نے اس کی کردار کشی شروع کر دی تھی۔ مگر مودی کے فون پر ہر کوئی بینڈ باجے بجا رہاہے۔ ضرور بجائے جائیں مگر کشمیر کا مسئلہ تو حل ہو جس کی کوئی توقع نظر نہیں آتی۔مگر یہ کیس عمران خان کے لئے امتحان ہے کہ اس نے خود اسے چھیڑا۔