خبرنامہ

ٹرمپ کسی کا کیا بگاڑ لے گا،۔۔۔اسداللہ غالب۔۔انداز جہاں

ٹرمپ نے جو بھی بگاڑنا ہے، اپنا ہی بگاڑنا ہے اوراس کا آغاز گھر ہی سے کرنا ہے، پہلا اعلان یہ آگیا ہے کہ وہ بیس تیس لاکھ غیر قانونی باشندوں کو نکال باہر کرے گا۔ٹرمپ کو ووٹ ہی اسی وعدے پر پڑا ہے کہ وہ تارکین وطن سے آلودہ امریکہ کو خالص امریکہ بنا دے گا۔
وعدے اس نے کئی کئے ہیں ، دھمکیاں بھی بہت دی ہیں مگر کہا جا رہا ہے کہ ٹرمپ کے لئے ان سب پر عمل کرنا مشکل ہو جائے گا۔ عمل کرے گا تو دنیا بھی تباہ ہو جائے گی ا ور امریکہ بھی تباہ ہو جائے گا۔ ایک یورپی پیشین گوئی ہے کہ اوبامہ امریکہ کاآخری صدر ہے، اگر یہ پیش گوئی درست ہے تو ٹرمپ کہاں کا صدر بنے گا،اسے تو امریکہ کا صدر چنا گیا ہے،ا س نوع کی پیش گوئیاں صرف دل بہلاوے کے لئے یا اپنے آپ کودھوکہ دینے کے لئے ہیں۔
دیکھا جائے تو بگڑنے کے لئے رہ ہی کیا گیا ہے، کس امریکی صدر نے تباہی و بربادی کے کھیل میں ہاتھ ہو لا رکھا ہے، بش سے لے کر اوبامہ تک ایسی مارا ماری ہورہی ہے کہ روئے ارض خون سے تر بتر ہے، ہر قسم کاا سلحہ بھی استعمال ہوچکا ہے، ڈرون، بی باون،بیلسٹک، کروز میزائل، کیمیای اور حیاتیاتی اسلحہ، صرف ایٹم بم باقی بچا ہے جو ہیرو شیماا ور ناگا ساکی کے بعد نہیں چلا، یہ لاڈلا بم ٹرمپ نے چلانے کی کوشش کی تو ساری دنیا سے ایٹمی اسلحے کی بوچھاڑ شروع ہوجائے گی ا ور یہ قیامت کا سماں ہو گا، مگر ٹرمپ تو ٹرمپ ہے، دجال تونہیں۔
مگر ابھی تو ٹرمپ نے ان سے بھی بنٹنا ہے جو ڈمپ ٹرمپ کے نعرے لگاتے ہوئے ٹرمپ ٹاور کی طرف ہر روز مارچ کرتے ہیں،امریکہ میں ایک درجن کاجلوس عزت والے کے لئے کافی سمجھا جاتا ہے، ٹرمپ کے خلاف تو ہزاروں کی تعداد میں لوگ سڑکوں پر ہیں، پانچ روز سے مسلسل ہنگامے جاری ہیں، تیسری دنیا کی طرح وہی آنسو گیس ، ربڑ کی گولیاں اور واٹر کینن کے شرارے۔ اور جواب میں ہجوم کی طرف سے ناٹ مائی پریذیڈنٹ کے نعرے۔ اگر جواب میں ٹرمپ نے بھی اپنے چاہنے والوں کا رسہ کھول دیا تو امریکی خانہ جنگی کا تماشہ دیکھنے والا ہو گا،اسی خطرے کو بھاپنتے ہوئے ٹرمپ نے اپنے حامیوں سے کہا ہے کہ وہ اقلیتوں کو تنگ کرنا بند کر دیں۔
گمان غالب یہ ہے کہ ٹرمپ زیادہ تر داخلی محاذ پر الجھا رہے گا اور خدشہ ہے کہ داخلی انتشار سے توجہ ہٹانے کے لئے وہ بیرونی محاذ گرم نہ کر دے۔ اس کے ارادے تو نیک نہیں ہیں،وہ ایسی ایسی دھمکیاں دے چکا ہے جو کسی اسکندر اعظم نے بھی نہ دی ہوں گی۔
ٹر مپ کی جیت پر سب سے زیادہ خوش روسی صدر پوٹن ہے جس کے بارے میں افواہ اڑا دی گئی ہے کہ وہ بیمار پڑ گیا ہے، پوٹن نے امریکہ سے تاریخی بدلہ چکایا ہے، اس کا خون کھول رہا تھا کہ کس طرح امریکہ نے گورباچوف کے ہاتھوں سووئت امپائر کو ریزہ ریزہ کر دیا تھا، آج اس نے امریکی صفوں سے ایک گوربا چوف تلاش کیا ہے اور ، اوپر سے یہ انتظام بھی کر دیا کہ امریکہ میں ہنگامے پھوٹ پڑیں، یہ ہنگامے اسوقت مزید تیز ہو جائیں گے جب ٹرمپ اپنے تازہ تریں اعلان کو عملی جامہ پہناتے ہوئے بیس تیس لاکھ لوگوں کو دیس نکالا دے گا، تب لوگ اس سے پوچھیں گے کہ آپ خود تو جرمن نسل سے ہو، آپ کی والدہ اسکاٹش تھیں ا ور بیگم صاحبہ جو خاتوں ا ول بن بیٹھی ہیں،سلوویکین ہیں، جس صدر کا پورا خاندان غیر ملکی ہو، وہ غیر ملکیوں پر ہاتھ ڈالے گا تو ا سکے نتائج بھی بھگتے گا۔اور سفید فام امریکی بھی کیسے دعوی کر سکیں گے کہ وہ اصلی امریکی ہیں ، ا سلئے کہ کولمبس نے جب امریکہ دریافت کیا تھا تو ا سنے امریکیوں کو ریڈ انڈین کہا تھا، یہ ریڈ انڈین آج اقلیت میں بدل دیئے گئے ہیں اور ان کی تنظیمیں سفید فام امریکیوں کے بھی خون کی پیاسی ہیں، وہ انہیں غاصب سمجھتی ہیں، گھس بیٹھیا قرار دیتی ہیں۔اس لئے ٹرمپ نے جو فتنہ کھڑا کر دیا ہے ، وہ امریکی معاشرے کے تاروپودہلا کر رکھ دے گا،آج نہ سہی، تو کل سہی ! امریکیوں کو مکافات عمل کا شکار ہونا پڑے گا۔
امریکہ کے۷ طول عرض میں لگنے والے نعروں پر نگاہ رکھنے کی ضرورت ہے، احتجاجی مظاہرین آوازہ کس رہے ہیں کہ دیوار نہ کھڑی کرو، دلوں کوملانے والے پل تعمیر کرو۔ امریکہ میں مسلمان اکیلے بیرونی باشندے نہیں، ہسپانوی ان سے کہیں زیادہ ہیں اور ان کی تعداد بڑھتی چلی جا رہی ہے، کینیڈاا ور میکسیکو کی ڈیورنڈ لائن ہر وقت ان کے لئے کھلی ہے، ٹرمپ یہیں کہیں دیوار کھڑی کرنا چاہتا ہے، ڈیورنڈ لائن پر دیوار کھڑی کرنے کی اجازت پاکستان کو نہیں ملتی، امریکہ کو کیسے ملے گی۔بھارت نے تو سرحدوں پر دیوار تعمیر کر لی کہ اسے عالمی پشت پناہی حاصل تھی ، امریکہ کودیوار کی تعمیر کے لئے کسی کی حمائت نہیں ملے گی۔
ٹرمپ کے ساتھ ایک مصیبت یہ ہے کہ یہ اندازہ کرنا بے حد مشکل ہے کہ وہ کونسی بات سنجیدگی سے کہہ رہا ہے اور کہاں غیر سنجیدہ ہے۔اسی فیکٹر نے الیکشن کا نتیجہ حیران کن بنا ڈالا ہے، لوگوں نے ایک غیر سنجیدہ ٹرمپ کو سنجیدگی سے لیا ہی نہیں، سبھی کا خیال تھا کہ یہ سب الیکشن مہم کی نعرے بازی ہے۔ ووٹنگ ہو گئی تو رات گئی بات گئی والا معاملہ ہو گا، اول توکسی کو اس کی جیت کا سرے سے یقین ہی نہ تھاا ور جب وہ جیت چکاہے تو ا سکی ساری الل ٹپ باتیں سنجیدہ اور حقیقت کا روپ دھارتی نظر آ رہی ہیں اور امریکہ ہی نہیں، ساری دنیا سٹپٹا اٹھی ہے کہ اس شخص کو سنبھالیں گے کیسے۔
کبھی آپ نے سوچا کہ صدر اوبامہ ذاتی طور پر اس الیکشن مہم میں کیوں کودا۔ رواج کے مطابق رخصت ہونے والا صدر الیکشن پر اثرانداز ہونے کی کوشش نہیں کرتا مگر اوبامہ تو ایک فریق بن کر ، لنگر لنگوٹ کس کر انتخابی اکھاڑے میں اترا ہوا تھا، کیوں ،ا سلئے کہ وہ بھی ایک غیر امریکی تھا، اوپر سے ا سکا باپ مسلمان بھی تھا، اوبامہ نے سارا زور لگا لیا کہ ٹرمپ نہ جیت سکے مگر اے بساآرزو کہ خاک شدہ ! الیکشن میں پہلی شکست اوبامہ کے حصے میں آئی۔
لے دے کے ایک آس باقی ہے اور دل کو سمجھا نے کو غالب یہ خیال اچھا ہے کہ امریکہ میں شخصیات نہیں، ادارے فیصلہ کن حیثیت رکھتے ہیں اور یہ کہ امریکی ادارے بے حد مضبوط ہیں، اب اس نظریئے کا بھی امتحان ہو جائے گا کہ امریکی ا دارے کس قدر مضبوط ہیں۔اداروں سے مراد اسٹیبلشمنٹ لی جاتی ہے، امریکی اسٹیبلشمنٹ نے بھی ٹرمپ کی مخالفت زور شور سے کی، اب وہ کس منہ سے ٹرمپ کا حکم مانیں گے ا ور نہیں مانیں گی تو نتیجہ کیا ہو گا، امریکی اسٹیبلشمنٹ ترک فوج کی طرح بھاڑے کے ٹٹووں پر مشتمل نہیں کہ جس کے ٹینکوں کے سامنے لیٹ کر آپ فوجی بغاوت کو ناکام بناڈالیں۔ پاکستان کی فوجی اسٹیبلشمنٹ کی مضبوطی کا بھی ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے مگر اکیلا ا چکزئی اسے بار بار چیلنج کر رہا ہے، پتہ نہیں زرداری بے چارہ کیوں بھاگ نکلا۔بہر حال امریکی اسٹیبلشمنٹ تو ٹرمپ کے شکنجے میں آنے والی ہے،ا س کامیابی کے بعد ہی پاکستان میں اس مثال کی پیروی کی جا سکے گی۔مگرتیاری اس سے پہلے کی نظر آتی ہے۔