خبرنامہ

ٹرمپ کی آمد اور سندھ میں تبدیلی۔۔اسداللہ غالب۔۔انداز جہاں

بسم اللہ
ہو سکتا ہے یہ محض مذاق ہو مگر حقیقت بھی ہو سکتی ہے، ٹرمپ نے جو زلزلہ برپا کیا ہے،ا سکے آفٹر شاکس دیر تک اور دور تک محسوس کئے جاتے رہیں گے۔
سندھ کے گورنر کو تبدیل کرنے کے لئے بہت سیاپا کرنا پڑا، رینجرز بھی جھونک دی گئی،اور ایم کیو ایم میں کئی پنکچر کرنے کے بعد ہی عشرت العباد سے خلاصی حاصل کی جاسکی۔گورنر عشرت اس قدر مضبوط اور طاقتور تھے کہ الطاف حسین قصہ پارینہ بن گئے مگر عشرت صاحب گورنر ہاؤس کے مہمان بنے رہے، مہمان اس لئے کہ اصل گھر ان کا کہیں باہر ہے، وہ جب چاہے چھٹی پر چلے جاتے یا ناراض ہو کر باہر بیٹھ جاتے، ان کاکوئی بال تک بیکا نہ کر سکتا تھا، شمالی وزیرستان کو صاف کر لیا گیا مگر عشرت العباد کے سائے میں کراچی کی حالت مکمل طور پر نہ سدھاری جا سکی۔عشرت صاحب کے پیچھے کونسی طاقت تھی ، میں ساری عمر ا سکا کھوج نہیں لگا سکتا، وہ پرویز مشرف کے دور میں بھی گورنر تھے، زرداری کے دور میں ئھی وہ گورنر تھے اور نواز شریف کے دور کا زیادہ حصہ بھی انہوں نے بطور گورنر گزارا، انہیں نہ تو مشرف کی باقیات کہہ کر نکالا جا سکا، نہ زرداری کے ساتھ ان کی رخصتی عمل میں آئی اور نہ الطاف حسین کی تقریریں بند کرنے سے ان کے عہد کا خاتمہ ہوا۔اب یہ کٹھن مہم کیسے سر ہوئی، اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ویسے آخری ہلہ کمال کا تھا اور اس کا جواب بھی کمال کا تھا، ہر کمال کو زوال لازمی ہے، اب رہے نام اللہ کا۔
سندھ میں گورنر کی تبدیلی سے نواز شریف کو پورے ملک پر انتظامی کنٹرول حاصل ہو گیا ہے، پنجاب تو پہلے ہی ان کے پاس تھا مگر ان کی گورنر سرور سے نہ بن سکی ا ور ان کی جگہ ایک اور پسند کا گورنر لگا دیا گیا، بلوچستان میں گورنر توایم این اے اچکزئی کا بھائی ہے، اس لئے اسے بدلنے کی ضرورت نہ تھی، وزیر اعلی کو ایک سیاسی معاہدے کے نتیجے میں بدل دیا گیا ، اب کوئٹہ میں مسلم لیگ ن کا وزیر اعلی ہے۔ صوبہ خیبر پی کے میں بھی اسی جماعت کا گورنر ہے، اور گلگت میں بھی مسلم لیگ ن کا کنٹرول ہے، آزاد کشمیر کاانتخابی معرکہ پرویز رشید نے مارا اور اپنے لیڈر نواز شریف کی پارٹی کی حکومت کی بنیاد رکھ دی۔عمران خان کی شکل میں چھوٹی موٹی ایک اپوزیشن تھی ، اسے چودھری نثار علی نے چت کر کے رکھ دیا، اب پورے ملک پر مسلم لیگ ن کا پھریرا لہراتا ہے مگر پھر بھی نواز ھکومت کی مشکلات کم نہیں ہو سکیں حالانکہ اس کے لئے آسانیاں ہی آسانیاں ہونی چاہئے تھیں۔ ایک سی پیک کا طرہ ا متیاز نواز شریف کو حاصل ہے مگر صوبے ہیں کہ مانتے ہی نہیں اور کوئی نہ کوئی رخنہ اندازی کرتے رہتے ہیں ، سی پیک کا حال کالا باغ ڈیم والا ہو گیا ہے، فوج ا س منصوبے کی زبردست حامی ہے، چینیوں کی حفاظت کے لیئے ایک خصوصی ڈویژن کھڑا کرنے کااعلان کیا گیا تھا ، میں نے سنا ہے کہ اب دو ڈویژن اس کام کے لئے بھرتی کئے جا رہے ہیں۔نواز شریف کو پاؤں مضبوط کرنے میں پورے پانچ سال لگ جاتے ہیں، اتنے میں نئے الیکشن سر پہ ہیں ، اس لئے یہ سار ا جو بھی انتظام کیا جارہا ہے، وہ موجودہ دور میں کارگزاری دکھانے کے کام تو نہیں آ سکے گا، شاید اگلے الیکشن کی جیت میں مدد گار ثابت ہو سکے۔اور اگلاالیکشن جیتنامسلم لیگ ن کے لئے بے حد ضروری ہے،ا سنے جو وعدے کر رکھے ہیں ان کی تکمیل اگلی ٹرم میں ہی ہو سکے گی ، کوئی ا ور حکومت آ گئی تو ان منصوبوں کو کھٹائی میں ڈال سکتی ہے، یہ مسلم لیگ ن کا نقصان تو ہے مگراصل نقصان ملک کا ہے۔ اس ملک میں اپوزیشن کی ساری کوشش یہ ہوتی ہے کہ حکومت کو چین سے کام نہ کرنے دیا جائے۔عمران خاں کے دھرنے ہیں کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتے ، اب ایک کیس سپریم کورٹ میں چلا گیا ہے اور یہاں فیصلہ راتوں رات تو نہیں ہو سکتا۔ نواز شریف کی بقایا ٹرم اس کی نذر ہو جائے گی، یہ اپوزیشن کی فتح ہے مگر نواز شریف پرانے کھلاڑ ی ہیں، کوئی پتے ان کے پاس ضرور ہوں گے کہ وہ اپوزیشن کو کھل نہ کھیلنے دیں اور ملکی ترقی کے ایجنڈے کو آگے بڑھایا جا سکے ،ملک کو ترقی دینے کے وعدے پر ٹرمپ صاحب کامیاب ہوئے ہیں۔ ادھر بھارت میں مودی نے بھی خوشحالی کا خواب دکھایا تھا، مگر وہ پاکستان سے ناحق الجھ رہا ہے، اب جو اس نے پانچ سو اور ایک ہزار کے نوٹ منسوخ کئے ہیں، ایسے ہی کاموں کی طرف ا سے دھیان دینا چاہئے،ا سکے ملک میں غربت زیادہ ہے، خوشحالی تو دور کی بات ہے ، ان کو دو وقت کی روٹی مل جائے تو بڑی بات ہو گی۔
سندھ کے نئے گورنر جسٹس سعید الزماں صدیقی اچھی شہرت کے مالک ہیں ، مشرف کے پی سی کو انہوں نے ٹھکرا کر شہرت حاصل کی اور اس کے عوض انہیں نواز شریف نے صدارتی امیدوار نامزد کیا، اس میں کامیابی تو نہیں ہوئی مگر اب موقع ملا ہے تو انہیں ایک ا ور باعزت عہدے پر مامور کر دیا گیا ہے۔جسٹس صاحب اصولی آدمی ہیں ، انہوں نے مشرف کے چار جرنیلوں کی نہیں سنی تھی، اب کراچی میں دو جرنیل بروئے کار ہیں۔ایک رینجرز کا دوسرا پکی فوج کا، جسٹس صاحط گورنر ہوتے ہوئے اپنے اختیارات سے بخوبی آگاہ ہیں ، ا سلیئے اندیشہ ہے کہ وہ پھر کسی اصول پر نہ ڈٹ جائیں، مگرا ن سے توقع رکھنی چاہیے کہ وہ ملک اور صوبے اور شہر کے بھلے کے لئے بہت کچھ گوارا کر سکیں گے ۔ اور مصلحت سے کام لیں گے۔ بلکہ میں تو سمجھتا ہوں کہ آئین ا ور قانون کے علم بردار ہونے کے ناطے وہ کراچی شہر ا ور پورے صوبے میں آئین اور قانون کی فرمانروائی اور بالادستی کے لئے پیش پیش ہوں گے۔
سندھ کے گورنر ہاؤس میں اہم اجلاس ہوتے ہیں ا ور ان میں انتہائی حساس فیصلے کئے جاتے ہیں ، یہ فیصلے ملک کی تقدیر سنوارنے کی ضمانت ہیں ، جسٹس سعید الزماں ان اجلاسوں مین بیٹھے ہوں گے تو کسی کو یہ دھڑکا نہیں ہو گا کہ سیکورٹی کی ساری منصوبہ بندی افشا ہو جائے گی۔ اس ملک کے اہم اجلاسوں کی کاروائی کاا فشا ہونا ایک معمول بن گیا ہے مگر کراچی کے آیندہ کے اجلاسوں کی راز داری اب یقینی بنا دی گئی ہے اور ملک کے انتظامی ڈھانچے میں اس نئی تبدیلی سے بہتری کی توقع کی جا سکتی ہے