خبرنامہ

ٹرمپ کی کھری کھری باتیں … اسداللہ غالب

ٹرمپ کی کھری کھری باتیں … اسداللہ غالب

قارئین کا حافظہ بہت تیز ہے، میں نے ٹرمپ کے انتخاب کا سواگت کیا تھا۔وجہ یہ تھی کہ وہ ایسا شخص نہیں جس کی بغل میں چھری ہو اور منہ میں رام رام۔ ایک طرف جندل اور دوسری طرف مودی اور اس کے پیچھے کالی ماتا کے پجاری قطار در قطار، بے شمار۔ پتہ ہی نہیں چلتا کہ ہو گا کیا۔کھبی دکھا کر سجی مار دیتے ہیں، ٹرمپ سامنے سے وار کرے گا، ہمت ہے تو مقابلہ کرو، کوئی صلاح الدین ایوبی میدان میں اتارو۔ امریکہ نے تو پہلے لمحے کہہ دیا تھا کہ یہ ایک نئی صلیبی جنگ ہے۔ میرے مرشد صدر بش کو ہمیشہ کروسیڈی صدر کہتے اور لکھتے رہے۔امریکہ نے کہا کہ اسامہ پاکستان میں چھپا ہے اور جس دن ہمیں اس کا اتا پتا مل گیا تو آپریشن کرنے میں ایک لمحے کی دیر نہیں کریں گے، اسی امریکہ نے سلالہ کیاا ور ہم نے صبر کیا۔
ریگن نے نیو ورلڈ آرڈر نکالا۔ایک صاحب نے کتاب لکھ ماری، تہذیبوں کا تصادم۔امریکہ اگر کہتا ہے کہ صرف مسلمان ہی دہشت گرد نہیں ، وہ مکاری اور عیاری سے کام لیتا ہے۔ عراق۔ لیبیا۔ سوڈان۔افغانستان۔ یمن۔پاکستان۔شام ، ان میں سے کونساملک ہے جو مسلمان نہیں ہے اور ان کے علاوہ کونسا ملک ہے جو مسلمان نہ ہو اور امریکہ نے اسے نشانہ بنایا ہو، کیا بھارت کو مارا، اسرائیل کو مارا، شمالی کوریا کو مارا،بالکل نہیں۔ نائن الیون سے بھی پہلے سے عالم اسلام امریکی نشانے پر ہے۔اس کے ساتھ نیٹو بھی شامل ہے اورا س نیٹو میں ترکی کی فوج بھی شامل ہے،ویسے ترکی کو یورپی یونین کا حصہ نہیں بنایا گیا مگر جہاں اس کی فوج کو اسلامی ممالک کے خلاف جھونکنے کی ضرورت ہے، وہاں اسے نیٹو میں شامل کر لیا گیا ہے۔ عرب دفاعی اتحاد بنا ہے تو پہلے اس پر اسلامی نیٹو کی پھبتی کسی گئی۔ پاکستان میں کچھ لوگوںنے اسے سنی اتحاد کی گالی سے نوازا۔اب سعودی عرب میں سمٹ اجلاس ہوا تو نئی پھبتی سامنے آئی کہ یہ عرب نیٹو ہے۔ کانفرنس کی کاروائی سے بھی یہی ثابت ہوا کہ یہ عرب نیٹو ہے، سعودی شاہ بھی ایران کے خلاف بولے ا ور مہمان مقرر امریکی صدر ٹرمپ نے بھی ایران کو تنہا کر دینے کا مشورہ دیا۔ سعودی عرب کے لئے ایران کتنا بڑا خطرہ ہے، اس کا تعین وہی کر سکتا ہے مگر اب تو پاکستان بھی ایرانی جارحیت کا نشانہ بن رہا ہے اور مسلسل بن رہا ہے، ایران کم از کم پاکستان کی ہمسائیگی ہی کا خیال کرے، پہلے وہاں سے بھارتی را کا تحفہ کل بھوشن کی شکل میں ملا۔ اس میں اگر ایران کا کوئی قصور نہ تھا تو پاکستان کا بھی نہیں تھا، اس ایک مسئلے نے دونوںملکوں کے تعلقات خراب کر دیئے، ایران جانتا ہے کہ پاکستان نے اسی کی دلداری کی خاطر یمن میں لڑاکا فوج نہیں اتاری ، اب جنرل راحیل سعودی دفاعی افواج کے کمانڈر تو مقرر ہوئے ہیںمگر وہ ایک فرد واحد ہے، فرد واحد کو پورے پاکستان پر تو محمول نہ کیا جائے، اکیلا آدمی ایران کا کیا بگاڑ لے گا۔یمن کے مسئلے پر ایران اور سعودی عرب کے مابین پراکسی یاکھلی جنگ نہیںہونی چاہئے، شام کے مسئلے پر ہر پاکستانی سمجھتا ہے کہ وہاں امریکہ ،ترکی ، نیٹو اور داعش نے مداخلت کی ہے مگر اس مسئلے پر ایران کو اکیلے سعودی عرب ہی کو دشمن نہیں سمجھ لینا چاہئے، امریکی کانگرس باقاعدہ بحث کر کے شامی باغیوں کے لئے اسلحہ ا ور سرمائے کی منظوری دیتی ہے۔اس لئے ایران کو اصل دشمن کی پہچان میں کوئی غلطی نہیںکرنی چاہئے۔
ٹرمپ نے ترپ کا پتہ پھینکا ہے اور عالم اسلام کو عرب وعجم کی تفریق میںمبتلا کرنے کی کوشش کی ہے، وہ تو یہی کرے گا، اورا س کا کام بھی کیا ہے۔یہ تو عرب وعجم کو خود سوچنا ہے کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ کیا سلوک روا رکھتے ہیں۔
اور ٹرمپ صاحب نے پاکستان کو بھی کب معاف کیا ہے،اس نے پاکستانی وزیر اعظم کی موجودگی میں بھارت کو دہشت گردی کا نشانہ قرار دیا ہے، یہ تو پاکستان کے زخموں پر نمک پاشی کے مترادف ہے مگر یہ نمک پاشی بے حد ضروری تھی تاکہ مشرف کومعلوم ہو کہ ا سنے امریکہ کا ساتھ دیا تو کیا حاصل کیا،ا سکے اپنے بنک اکائونٹس تو ضرور بھر گئے ہوں گے مگر پاکستان میں خون کی ندیاں بہہ نکلیں، ہر گھر میں شہیدوں کی لاشیں آئیں۔ فوجیوں کی بھی ،ایف سی کی بھی، پولیس کی بھی، دیگر سیکورٹی ا داروں کی بھی اور عوام کو تو بکروں کی طرح ذبح کیا گیا۔ ٹرمپ کی تقریر کا ایک مخاطب یوسف رضا گیلانی بھی ہے جنہوںنے اپنے پہلے دورہ امریکہ میں ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں دہشت گردی کی جنگ کو پاکستان کی جنگ کہا تھا۔اس کے لئے انہوںنے اپنی پارٹی لیڈر محترمہ بے نظیر کی شہادت کی دلیل دی۔دہشت گردی کی جنگ کو پاکستان کی جنگ بنانے میںکونسی مشکل تھی، ایک حملہ اور مچی میں ۔ ایک حملہ کراچی ایئر پورٹ پر۔ ایک حملہ پشاور بچوں کے اسکول پر۔ ایک دو حملے کامرہ پر ، ایک حملہ جی ایچ کیو پر۔ کچھ حملے ایف آئی اے اور آئی ایس آئی کے ذیلی دفاتر پر۔ کچھ مناواں پولیس سنٹر پر، ہم اچھی طرح جانتے تھے کہ ان حملوںمیں را کے تربیت یافتہ دہشت گرد ملوث تھے، ہم یہ بھی جانتے تھے کہ یہ حملے افغان سرزمین پر تربیت پانے والے دہشت گرد کر رہے ہیں ، افغانستان میں انہیں کون تربیت دے سکتا ہے، یہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں تھا مگر ہم زبان سے نہ کہہ سکے کہ ہمارا دشمن اصل میں کون ہے اور ہم یہ ڈفلی بجاتے رہے کہ سب سے پہلے پاکستان ، یہ جنگ پاکستان کی ہے۔اور ڈالر بٹورتے رہے۔اب اگر چُوری کھا چکے ہیں تو ا س کا مزہ بھی لیں ۔ٹرمپ ہمارا ذکر نہیں کرتا جبکہ ہم دہشت گردی کی جنگ میں فرنٹ لائن اسٹیٹ ہیں تو اس لئے کہ اس نے پوری پوری رقم ادا کی ہے۔جب ہماری فوج کسی وقت گلہ کرتی ہے کہ ہم اپنے فوجیوں کے گلے کٹواتے ہیں تو ہمار ا جواب ہوتا ہے کہ کوئی احسان تو نہیں کرتے، اس کی تنخواہ ملتی ہے تو اب امریکہ نے بھی تنخواہ دے دی ہے تو وہ ہماری قربانیوں کو خراج تحسین کیوں پیش کرے گا۔
ہمارے وزیر اعظم نے سمٹ اجلاس کے لئے تقریر تیار کی تھی، مگر انہیں اسٹیج پر نہیں بلایا گیا، اس واقعے پر ملکی میڈیا میںمتضاد رپورٹیں چھپی ہیں۔ کچھ اخبار نویس کہتے ہیں کہ ا س سے ہماری سبکی ہوئی۔ مگر چند اخباروں کی چار کالمی سرخیاں ہیں کہ وزیر اعظم نے ٹرمپ سے گفتگو کی اور پاکستان کی قربانیوں کا ذکر کیا۔یہ خبر سرکاری خبر رساں ایجنسی کی طرف سے جاری ہوئی ہے، بہر حال ہمارا فارن آفس اس پر زبان کھولے تو حقیقت سامنے آئے۔ ویسے جس اجلاس میں ٹرمپ بھارت کی مظلو میت کا رونا روئے، وہاں پاکستان کی دال کیسے گل سکتی تھی، سمٹ کے میزبان بھی اپنے مرکزی مہمان کے سامنے مجبور ہوں گے۔مگر پاکستان کو اس پر سعودی عرب سے باقاعدہ احتجاج کرنا چاہئیے، سعودی عرب کو دہشت گردی کا نشانہ بنے ہوئے جمعہ جمعہ آٹھ دن گزرے ہیں جبکہ پاکستان اس فتنے کو 14 برسوں سے بھگت رہا ہے اور اسے ایک چومکھی جنگ کرنا پڑ رہی ہے، سعودی عرب تو بڑے آرام سے کہ دیتا ہے کہ اسے ایران تنگ کررہا ہے مگر پاکستان کا سامنا ایک طرف بھارت، دوسری طرف افغانستان، تیسری طرف نیٹو اور چوتھی طرف امریکی افواج سے ہے۔ اب یران نے بھی آستینیں چڑھا لی ہیں۔ وہ کس کا نام لے اور کس کا نام نہ لے، نام لے تو بھی برا اور نہ لے تو اور برا۔
اس سمٹ سے پہلے بہت سی توقعات تھیں۔ جو خاک میں مل گئیں ۔ پاکستان کے فارن آفس کو ڈیمیج کنٹرول کے لئے کمر باندھ لینی چاہئے۔