خبرنامہ

ٹینکوں کے سامنے لیٹ جا نے کا درس۔۔اسداللہ غالب

معذرت کے ساتھ عرض ہے کہ یہ وقت ٹینکوں کے سامنے لیٹ جانے کا ورد کرنے کا نہیں، نہ ٹینکوں کو اذانوں سے بھگانے کا درس دینے کا ہے۔
ترکی میں یہ ہوا، یا نہیں ہوا، ا س کا تعلق ترکی سے ہے ، پاکستان میںیہ سب کچھ نہیں ہوا ، کبھی نہیں ہوااور اگر ترکی کے اس عمل کا چرچا کر کے اپنی قوم کو ٹینکوں کے سامنے لیٹنے کے لئے تیار کرنا ہے تو پھر معافی کا خواستگار ہوں، یہ وقت ان باتوں کے لئے مناسب نہیں ہے۔
ترکی میں جمہوریت بچائی گئی، پاکستان میں بھی بچی رہنی چاہئے ، مگر پاکستان میں جمہوریت کو خطرہ کب لاحق ہوا جو ایسی باتیں ا چھالی جا رہی ہیں۔
جمہوریت کی اپنی اپنی تشریح ہے، ایک تشریح ان کی تھی جو ترک صدر اردوان کی شخصی آمریت سے نجات کے لئے کوشش کر رہے تھے، جمہوریت کی ایک تشریح امریکہ کی ہے کہ منتخب مصری صدر مرسی کا تختہ الٹنے والے آرمی چیف السیسی کو قبول کر لیا گیا اور وہ فیلڈ مارشل بن بیٹھا، ایک تشریح مودی کی ہے جو سمجھتا ہے کہ برصغیر میں ہندو کو اکثریت حاصل ہے، اس تشریح کی روشنی میں وہ آزاد پاکستان کے وجود کومٹانے پر تلا ہوا ہے،ایک تشریح الطاف حسین کی بھی ہوسکتی ہے کہ مہاجروں کی کراچی اور حیدرآباد میں اکثریت ہے،اس لئے ان شہروں میں ان کو دندنانے کا حق حاصل ہے، یہ مہاجر جیل میں ہو تو کراچی کا میئر منتخب ہو جاتا ہے، حیدرآبادکامیئر بھی ایم کیو ایم سے آ تا ہے مگراسی ایم کیو ایم کے دفاتر مسمار کئے جا رہے ہیں،یہ لوگ اپنے دفاتر کو بچانے ا ور اپنے حقوق کے تحفظ کے لئے بلڈوزروں کے سامنے لیٹ جائیں تو ہم انہیں ترک عوام کی طرح سلام کرنے کے پابند ہوں گے۔ان کی مذمت کس منہ سے کریں گے۔جمہوریت کی ایک تشریح بلوچ انتہا پسندوں کی بھی ہے جو صوبے مٰں چام کے دام چلانا چاہتے ہیں، یہ لوگ فوجی ٹینکوں کو دیکھ کر اذانیں دینا شروع کر دیں تو ہم انہیں بھی اخلاقی طور پر نہیں روک سکتے کیونکہ ہم ترک عوام کی اذانوں کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملا رہے ہیں۔
پھر سے معذرت کہ یہ وقت ٹینکوں کے سامنے لیٹ جانے کی ستائش کا نہیں ہے اور اگر ہمارا رویہ یہی رہا تو ہمارے رینجرز کراچی یا بلوچستان میں کامیابی سے ہمکنار کیسے ہوں گے۔اور اگر فاٹا کے دہشت گردوں نے اپنے جمہوری حقوق کا رونا رویا تو ہماری ضرب عضب کی ہوا نکل جائے گی اور ہمارے شہدا کی قربانیاں رائیگاں چلی جائیں گی۔
پاکستان ایک دو راہے پر کھڑا ہے ، بابا! یہاں جمہوریت نہیں ، ریاست کو خطرہ لاحق ہے، وہی خطرہ جو اکہتر میں مشرقی پاکستان کے حالات کی وجہ سے لاحق تھاا ور وہ حقیقت بن گیا،اسلئے کہ ہم نے اکہتر میں اپنی آزادی اور سلامتی کی جنگ لڑنے والی فوج کو تنہا چھوڑ دیا تھا۔ہم نے جن گاڑیوں پر کرش انڈیا کے اسٹکر لگائے ہوئے تھے، وہ تین دسمبر کی شام راوی کے پل پر طویل قطاروں میں پھنس گئی تھیں کہ ہر کوئی جلد سے جلد لاہور کو چھوڑنے کی فکر میں ہلکان ہو رہا تھا۔ہم لاہور کو نہیں چھوڑ رہے تھے، اپنی فوج کو بھارتی یلغار کے سامنے ننگا اور تنہا چھوڑ رہے تھے۔اور افسوس! صدا فسوس !ہونی ہو کر رہی۔
آج مودی کا وزیر دفاع کہتا ہے کہ پاکستان ایک جہنم کی مانند ہے۔ اس نے یہ فقرہ منہ سے نکالنے سے پہلے یہ نہیں سوچا کہ اسی پاکستان میں اس کا وزیر اعظم بغیر کسی پیشگی دعوت اور بغیر ویزے کے ایک سو بیس افراد کے ساتھ جا اترا تھا، کیا اس وقت پاکستان جنت تھا۔
کشمیر میں ڈیڑھ ماہ کے اندر بھارتی جارح فوج اب تک68 بے گناہ افراد کو شہید کر چکی ہے،ہم کوئٹہ کے 54 ممتاز وکیلوں کی شہادت پر تو روتے ہیں اور ان کی لاشوں پر سیاست کرتے ہوئے قومی اسمبلی کے فلور پر کہتے ہیں کہ انٹیلی جنس چیف کوئٹہ سانحہ کے ذمے داروں تک نہ پہنچ سکے تو اسے برطرف کر دیا جائے ، مگر پاکستان کے مقتدرا یوانوں میں مظلوم کشمیریوں کے حق میں دبنگ انداز میں آواز بلند نہیں کی جاتی، نہ کشمیری قیادت کو نظر بند یا حوالہ زنداں کئے جانے پر کوئی احتجاج سامنے آتا ہے، جس وقت یہ سطور قلم بند کی جا رہی ہیں،میر واعظ کو بھی گرفتار کر لیا گیا ہے، بھارتی فوج سینکڑوں افراد کو پیلٹ گولیوں سے اندھاکر چکی ہے مگر ان کے زخموں پر مرہم رکھنے کی ضرورت ہم میں سے کسی نے محسوس نہیں کی، پنجاب کے چیف منسٹر ترک عوام سے یک جہتی کے اظہار کے لئے تو استنبول پہنچ گئے مگر حرم نبوی ﷺ کے سامنے دہشت گردی پر ہم میں سے کسی کو مکہ یا مدینہ جا کر یک جہتی کے اظہار کی توفیق نہیں ہوئی۔جس وقت حرم نبوی کے سامنے دہشت گردی کاسانحہ پیش آیا،اس وقت مسجد میں لاکھوں افراد تراویح میں مصروف تھے۔ ہمارے ٹی وی چینلز نے الٹا سعودی انتظامیہ کامذاق اڑایا کہ وہ اس دہشت گردی پر، پردہ ڈال رہی ہے۔
کیا قیامت ہے کہ ہمیں جمہوریت عزیز ہے، ہمیں اردوان کی حکومت عزیز ہے ، مگر ہم نے حرمین شریفین کو لا حق خطرات پر کسی تشویش کااظہار نہیں کیا۔
پاکستان میں ہم میں سے ہر ایک کے اپنے اپنے مفادات ہیں۔مگر پاکستان کا مفا د کیا ہے،ا س کی فکر کسی کو نہیں، صرف سیکورٹی ادارے سر پھنسائے بیٹھے ہیں مگر وہ تن تنہا کیا پہاڑ ڈھا سکتے ہیں۔
مودی کے ایجنڈے کو الطاف حسین نے بڑھاواد یا،ا س نے دنیا سے مدد مانگی کہ وہ پاکستان ا ور پاک فوج کی اینٹ سے اینٹ بجا سکتا ہے، مودی نے ایک دھمکی اور دے دی ہے کہ وہ بلوچستان ، آزاد کشمیر اور گلگت میں بھی مداخلت کے لئے تیار ہے، ہم تو کشمیر میں اس کے مظالم پر گنگ بنے بیٹھے تھے،اب اس نے کراچی میں الجھا دیا ہے۔اور ہم ساری چوکڑی بھول گئے ہیں۔ کچھ سجھائی نہیں دیتا کہ کشمیریوں کے حق میں آواز اٹھائیں، اچکزئی کی مذمت کریں یا ا س کی ہاں میں ہاں ملائیں۔کوئٹہ کے شہیدوں کا نوحہ پڑھیں یا کراچی میں ایم کیو ایم کے دفاتر سیل کرنے یا بلڈوز کرنے پر بغلیں بجائیں۔یا ترک عوام کے قصیدے پڑھیں اور ٹینکوں کو پسپا کرنے کا شاہنامہ گائیں، یقین جانیئے ہم بے سمت ہوکر رہ گئے ہیں ، ہم متفقہ قومی موقف سے محروم ہیں۔ ایک شتر بے مہار قوم یا ایک بنانا ری پبلک یا اوندھے منہ کھائی میں گرتی گاڑی۔
ہم اس مخمصے کا شکار ہیں کہ الطاف کوکیسے قابو کریں۔ کاش ! برطانیہ عظمی پر پاکستان کو وہی اثرو رسوخ حاصل ہوتا جو پاکستان میں ترکی کو حاصل ہے کہ اس کے کہنے مٰن ترک اسکولوں کے پرنسپل برطرف کر دیئے۔ مگر برطانیہ کے نقار خانے میں پاکستان کی طوطی کی آواز کون سنے گا کہ الطاف حسین کو ہمارے حوالے کریں۔ کاش! پاکستان ا س پوزیشن میں ہوتا۔ ویسے یہ تو بتائیں کہ کیا ہم الطاف کے خلاف کوئی کاروائی کرنا بھی چاہتے ہیں۔