خبرنامہ

پارا چنار کا مسیحا … اسد اللہ غالب

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

پارا چنار کا مسیحا … اسد اللہ غالب

مجھے آج تک یہ سمجھ نہیں آئی کہ فوج کی کس حرکت سے جمہوریت کو خطرہ لاحق ہو جاتا ہے۔
مثال کے طور پر جون کے آخری ہفتے میں پارہ چنار میں دہشت گردی کی سنگین واردات ہوئی جس میں اسی پچاسی ا فراد شہید ہو گئے۔ ساتھ ہی کوئٹہ میں بھی اسی طرح کی دہشت گردی ہوئی اور کئی بیگناہ لوگ شہید کر دیئے گئے۔
مگر انہی دنوں میں احمد پور شرقیہ میں ایک آئل ٹینکرالٹ گیا جس کے پٹرول کی لوٹ مار کے لئے سینکڑوں افراد نے ہلہ
بول دیا، بد قسمتی سے پٹرول نے آگ پکڑ لی اور اس حادثے میںدو سو کے قریب افراد جان کی بازی ہار چکے ہیں۔
پارا چنارا ور احمد پور شرقیہ کے واقعات پر حکومتی رد عمل مختلف اور الگ الگ تھا۔
احمد پور شرقیہ میں وزیر اعلی پنجاب شہباز شریف فوری طور پر جائے حادثہ پر پہنچ گئے، انہوںنے عید کی چھٹیوں کی بھی پروا نہیں کی اور وہیں کہیں بہاولپور میں نماز عید ادا کی ، وزیر اعظم نواز شریف جو اٹھانوے افراد کے ساتھ عمرہ کی ادائیگی کے لئے سعودی عرب گئے تھے وہاں سے لندن چلے گئے جہاں انہوںنے نماز عید ادا کی۔ ان کے اعلان شدہ پروگرام کے مطابق انہیں اپنے نواسے جنیدصفدر کی گریجوایشن کی تقریب میں شرکت کرنا تھی اور کچھ روز انہیں اپنے چیک اپ کے لئے بھی لندن میں ہی رکنا تھامگر وہ ساری مصروفیات چھوڑ کر احمد پور شرقیہ پہنچ گئے۔یہ فرض شناسی اپنی جگہ پر۔
بات یہاں ختم نہیں ہوتی، وزیر اعلی پنجاب احمد پور شرقیہ کے متاثرین کے لئے بیس لاکھ فی کس اور زخمیوں کے لئے دس لاکھ فی کس کی امدا د کاا علان کر چکے تھے۔ وزیر اعظم نے بھی امددای پیکیج کا اعلان کیا، اب یہ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ کوئی نیا پیکیج تھا یا ان کاا شارہ وزیر اعلیٰ کے پیکیج کی طرف تھا۔
احمد پور شرقیہ پنجاب کی حدود میں ہے، یہ جنوبی پنجاب کا علاقہ ہے جہاں حکمران مسلم لیگ ن کو اپنی ساکھ بچانے یا بنانے کا خیال بھی تھا۔
مگر پارا چنار اپنے محل وقوع کے لحاظ سے پنجاب کا حصہ نہیں تھا۔اگر پارا چنار کے متاثرین کے دکھ میں وزیر اعلیٰ پنجاب شریک نہیںہو سکتے تھے تو ان کے بڑے بھائی جو وزیر اعظم ہیں، ان کا تو وہاںجانا فرض بنتا تھا، اس لئے کہ یہ لوگ دہشت گردی کا نشانہ بنے ، احمد پور شرقیہ جیسے کسی اتفاقی حادثے کی لپیٹ میںنہیں آئے۔
پارا چنار کا دوسرا دکھ یہ تھا کہ اس صوبے کے وزیر اعلیٰ کو بھی فوری طور پر وہاں جانے کی ہمت نہ پڑی، ا سکی وجہ سمجھ میں آتی ہے کہ شہدا کے لواحقین کا غم و غصہ آسمان سے باتیں کر رہا تھا اور ا سکی وجہ معقول تھی کہ پٹرول لوٹنے والوں کے لئے تو بیس لاکھ اور پارا چنار میں شہید ہونے والوں کے لئے معمول کے مطابق دس دس لاکھ کی گرانٹ، حکمرانوں کی بے حسی نے جلتی پر تیل کا کام کیاا ور پارہ چنار کے شہدا کے متاثرین دھرنا دے کر بیٹھ گئے۔پاکستان کی کوئی جمہوری حکومت تواسلام آباد کے دھرنے کا سامنا نہیں کر سکی تھی ، پارا چنار میںقدم رکھنے کی اسے ہمت کیسے پڑتی۔ اور دوسری طرف پارا چنار کے متاثرین کے غیظ و غضب کا پارہ چڑھ رہا تھا۔ ان کے دکھ درد کے قیامت خیز لمحات میں نہ کسی حکمرن نے شکل دکھائی ،نہ انتظامی مشینری نے ان کے زخموں پر مرہم رکھنے کی ضرورت سمجھی۔
کیا پارا چنار پاکستان کا حصہ نہیں تھا، کیا پارا چنار میںدہشت گردی کا ارتکاب نہیں کیا گیا تھا۔اور کیا پارا چنار میں دہشت گردی کی یہ پہلی واردات تھی۔ نہیں حضور! پارا چنار برسوں سے دہشت گردی کی آگ میں جل رہاہے بلکہ سوختہ ہو چکا ہے۔ پارا چنار کے شہدا کے لواحقین کی جانب کبھی توجہ نہیں دی گئی، یہ لوگ مثلہ کی گئی لاشوں کو سوشل میڈیا پر اپ ڈیٹ کرتے ہیں، کٹے ہوئے اعضا کہ جنہیں دیکھ کر انسان لرز کر رہ جاتا ہے۔
پارا چنار، ہنگو اور کوئٹہ کے ہزارہ جات کا ایک ہی المیہ ہے۔ کوئی اسے سمجھنے والا تو ہو، ہزارہ جات دو سو لاشوں کے ساتھ یخ بستہ موسم میں ننگی سڑک پر دھرنا دیئے بیٹھے رہے۔ بڑی مشکل سے پیپلز پارٹی کے اس وقت کے وزیر اعظم نے ہمت کی ، ان کے پاس گئے، دھرنے میں شامل ہوئے اور لاشوں کی تدفین پر آمادہ کیا۔
پارا چنار میں ایسی ضرورت پوری کرنے کا خیال کسی کو نہیں آیا، یہ ضرورت نہیں تھی ، حکومت وقت، سیاسی قیادت اور مذہبی لیڈر شپ کا فرض اولیں تھا کہ ان سے اغماض نہ برتیں، انہیں ان کے فرقے کی وجہ سے دہشت گردی کا تو نشانہ بنایا جاتا ہے مگر پاکستا ن کا آئین فرقہ بندی سے بالا تر ہو نے کا دعویٰ کرتا ہے۔ حکومت اور افسر شاہی کا فرض ہے کہ وہ فرقہ بندی کے سرطان پر قابو پائیں اوراس آگ کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کریں۔اس حقیقت سے ہر کوئی آگاہ ہے کہ پاکستان کو مذہبی گروہ بندی کا شکار بنانے کی سازش بیرون ملک سے ہو رہی ہے، کوئی طاقت ایک فرقے کے پیچھے ہے اور دوسری طاقت کسی اور فرقے کی پشت پناہی کر رہی ہے اور تیسری قوت کوئی نیا فرقہ کھڑا کرنے کی کوشش میں ہے۔
جب پارا چنار میں حکومت اور معاشرے کی اجتماعی بے حسی ہر حد کو پار کر گئی تو اس ملک میں آئین کی بالا دستی ا ور پاکستان کی سلامتی کے تحفظ کی قسم افواج پاکستان نے تو کھا رکھی ہے، یہ ایک آ ٓخری قوت ہے جو پاکستان کے دفاع کے لئے سرگرم عمل ہے مگر اسے خوف زدہ کر دیا گیا ہے کہ اس نے کوئی حرکت کی یا کہیں فرض شناسی کا مظاہرہ کیا تواس سے جمہوریت کو خطرہ لاحق ہو جائے گا۔مگر افواج پاکستان کو ملک کی بقا کو درپیش خطرات سے بہر حال نبٹنا ہے۔
اسی فرض کی ادائیگی کے لئے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے جرأت ، دلیری اور فرض شناسی کا مظاہرہ کیا اور وہ پارا چنار کے بپھرے ہوئے لوگوں کے پاس جا پہنچے۔انہیں دلاسہ دیا۔ ان کی پلکوں سے آنسو پونچھے۔ان کی شکایات سنیں اورا سطرح نہیں سنیں کہ دوسرے کان سے نکال دی ہوں بلکہ ان کے تحفظات دور کرنے کے لئے ان کا ہر مطالبہ منظور کر لیا۔
یہ ہوتا ہے لیڈر شپ کا کمال!
پاکستان میں جو بھی ایسی لیڈر شپ کا کمال دکھائے تو یہ کسی معجزے سے کم نہیں۔
صرف پارا چنار کے متاثرین ہی آرمی چیف جنرل باجوہ کے ممنون و مشکور نہیں بلکہ پاکستان کا محب وطن طبقہ مجموعی طور پر ان کو سلام پیش کرتا ہے۔قومی آہنگی اور مذہبی یک جہتی کے لئے جنرل قمر جاوید باجوہ نے ایک بڑا قدم اٹھایا ۔ایسی چنگاری بھی یارب اپنی خاکستر میں تھی۔
میرا خیال ہے کہ فوج کا ٹویٹ کرنے والا شعبہ اس خوف میںمبتلا ہے کہ ا س نے اپنے کمانڈر کی امیج بلڈنگ کی کوئی کوشش کی تو اسے جمہوریت کے لئے خطرہ سمجھ لیا جائے گا۔ دودھ کا جلا چھاچھ بھی پھونک پھونک کر پیتا ہے۔
امیج بلڈنگ ٹویٹ سے نہیں ، جوہر دکھانے اور کام کرنے سے بنتی ہے، جنرل راحیل کے کارنامے پوری دنیا بھول نہ پائے گی، ان کے جانشین جنرل قمر جاوید باجوہ دھیرے دھیرے اپنے جوہر دکھا رہے ہیں، وہ پارا چنار کے بعدکوئٹہ بھی پہنچے اور انہوںنے قوم کو یہ یقین بھی دلایا ہے کہ افواج پاکستان سی پیک کی تکمیل کے لئے کسی قربانی سے دریغ نہیں کریں گی۔ یہ ایک الگ موضوع ہے ا ور ملک کے حالیہ سیاسی، حکومتی اور عدالتی انتشار کاایک سبب بھی۔ اس پر تفصیلی اظہار خیال بعد میں سہی!