خبرنامہ

پارلیمنٹ کی بالا دستی … اسد اللہ غالب

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

پارلیمنٹ کی بالا دستی … اسد اللہ غالب

اس میں کوئی دوسری رائے ہو نہیں سکتی۔ اب تو دو بڑی گواہیاں بھی آ گئی ہیں، پہلے آرمی چیف نے یقین دلایا کہ پارلیمنٹ سپریم ادارہ ہے جو قانون بنائے گا، اس پر چلیں گے اور حکومت جو حکم دے گی ، اس پر عمل کریں گے۔

دوسری بڑی یقین دہانی چیف جسٹس آف پاکستان نے کرا دی ہے۔ اس کے بعد تو اب کسی کو کوئی شکوہ یاشبہ نہیں ہونا چاہیے کہ ریاستی ادارے اپنی چلاتے ہیں اور پارلیمنٹ کی بالا دستی کو نہیں مانتے۔ بلکہ کچھ الٹا ہو رہا ہے ، لاہور کے دھرنے میں جہاں ایک غیر ملکی شہری بھی شریک تھا جو جاتی امرا کو آگ لگانے کی دھمکی بھی دے رہا تھا، اس کی موجودگی میں دو سیاستدان اس قدر آپے سے باہر ہو گئے تھے، شاید اس لئے کہ ان کے سر پر کینیڈا کی ایک بااثر شخصیت کا ہاتھ تھا، وہ بپھر گئے ، پہلے شیخ رشید نے پارلیمنٹ پر لعنت ملامت کی، پھر عمران خان نے اس کی ہاں میں ہاں ملائی۔ اللہ ! اللہ! وہی ادارہ جو ان لیڈروں کی عزت، احترام اور جاہ و جلال کا سبب بنا، وہی مطعون ٹھہرا۔
اس ملک میں یہ وقت بھی آنا تھا کہ جو لوگ پارلیمنٹ میں بیٹھے ہیں، وہی اس ادارے کو بر ا بھلا کہنے میں پیش پیش ہیں۔
گلہ تو سیاستدانوں کا ہوتا تھا کہ پارلیمنٹ کی کوئی نہیں سنتا لیکن اگر یہی سیاستدان پارلیمنٹ کے منہ پہ کالک ملیں گے تو دوسرے ادارے یہ کالک کیسے دھو سکیں گے۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ خود ارکان پارلیمنٹ پہلے تو اپنے ادارے کی عزت کریں، اس کو سنجیدگی سے لیں، صرف مراعات کی وصولی میں سنجیدگی نہ دکھائیں بلکہ قانون سازی میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیں۔ چیف جسٹس آف پاکستان اس سے پہلے اپنی ایک تقریر میں اس طرف توجہ دلا چکے ہیں کہ تعزیرات پاکستان اصل میں تعزیرات ہند کا چربہ ہے اور اس قانون کو سو سال سے اوپر ہو گیا ہے، اب قانون شہادت کو بدلنے کی ضرورت ہے، دیگر کئی شقیں بھی جدید تقاضوں کے مطابق ڈھالنے کی ضرورت ہے۔ اسلام اگر کہتا ہے کہ چور کا ہاتھ کاٹا جائے تو کوئی عدالت اس وقت تک چور کا ہاتھ کاٹنے کا حکم نہیں دے سکتی جب تک اس سلسلے میں قانون نہ بنے، چیف جسٹس نے واضح کیا کہ پارلیمنٹ کا کام عدلیہ نہیں کر سکتی، عدلیہ تو اس قانون کی روشنی میں ہی فیصلہ کر سکتی ہے جو ملک میںنافذ ہو گا۔
پارلیمنٹ کی سپرمیسی قائم کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ارکان اسمبلی اس کے اجلاسوںمیں شریک ہوں۔ اور ملکی پالیسیوں کی تشکیل پر خوب بحث مباحثہ کیا جائے۔امریکہ نے اب تک پاکستان پر جتنی پابندیاں عائد کیں، وہ ارکان کانگرس کے بل منظور کرنے کا نتیجہ تھیں ، پہلے پریسلر ترمیم آئی ، اب کیری لوگر بل کی تلوار چل رہی ہے، ٹرمپ صاحب بھی جو تیر چلائیں گے، وہ بھی کسی رکن کانگریس کو آگے کریں گے اور پاکستان کا بازو مروڑنے کے لئے کوئی نیا قانون لے آئیں گے۔
جب نائن الیون کے بعد امریکہ نے بھارت سے کہا تھا کہ وہ بھی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شریک ہو تو بھارتی وزیراعظم کا یہی جواب تھا کہ ان کے ملک میں جمہوریت نافذ ہے اور وہ کوئی فیصلہ پارلیمنٹ کی منظوری کے بغیر نہیں کر سکیں گے مگر پاکستان میں نہ پارلیمنٹ تھی ، نہ جمہوریت، صرف ایک فوجی ڈکٹیٹر تھا جس نے نصف شب کو واشنگٹن سے ایک ٹیلی فون کال سنی اور ڈھیر ہو گیا بلکہ پاکستان کو شمشان گھاٹ میں دھکیل دیا۔ میں یقین سے کہتا ہوں کہ اس وقت اگر ملک میں گلی سڑی جمہوریت بھی ہوتی تو کم از کم پارلیمنٹ میںبحث تو ہوتی، چاہے حکومت کوئی اور ہی فیصلہ کر دیتی مگر عوامی نمائندے اپنے الیکٹوریٹ کے جذبات کا تو تفصیل سے اظہار کر دیتے۔ زرداری دور میں پارلیمنٹ تو موجود تھی، ملکی مسائل پر اس میں بحث بھی ہوتی تھی لیکن شاید ہی کسی قرارداد پر حکومت نے عمل کیا ہو۔ اصلی اور حقیقی جمہوریت میں پارلیمنٹ کے فیصلوں کو نظرا نداز کرنا ممکن نہیں۔کیونکہ اس نظام میں ملک کی باگ ڈور پارلیمنٹ کے ہاتھ میں ہوتی ہے اور حکومت ہو، عدلیہ ہو ، فوج ہو، یا کوئی اور سرکاری ادارہ، پارلیمنٹ کے طے کر دہ دائرہ کار سے باہر قدم رکھنے کی جرا¿ت نہیں کر سکتا۔
پاکستان کا تو باوا آدم ہی نرالا ہے، زبانی کلامی بات جمہوریت کی جاتی ہے، پارلیمنٹ کی بالا دستی کی خواہش کا اظہار بھی کیا جاتا ہے مگر کیا مجال کہ پارلیمنٹ کے فیصلوں کو گھاس ڈالی جائے سوائے اس صورت میں کہ کوئی فیصلہ سب کے ذاتی مفاد میں ہو‘ ورنہ اسے جوتی کی نوک پر رکھا جاتا ہے۔
طرفہ تماشہ یہ ہے کہ کچھ سیاستدان پارلیمنٹ کے گن گاتے ہیں اورا سکی تسبیح نکالتے ہیں اور کچھ سیاستدان پارلیمنٹ کا گلا گھونٹنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیتے ہیں۔ پچھلے الیکشن کے بعد ہی سے عمران خان نے پارلیمنٹ کی بالا دستی کو چیلنج کر دیا تھا۔ حضرت صاحب کی خوبی یہ ہے کہ انہیں پارلیمنٹ سے کوئی سروکار ہی نہیں۔ وہ اس دن بھی اجلاس میں شریک نہیںہوتے جس روز ملک کی ساری سیاسی پارٹیاں متحد ہو کر کوئی قانون منظور کرنا چاہتی ہیں، اس کی مثال ختم نبوت کے سلسلے میں آئینی ترمیم کی ہے۔عمران خان نے اس مسئلے پر آسمان سر پہ اٹھائے رکھا مگر جب پارلیمنٹ نے اپنی غلطی کومحسوس کرتے ہوئے اصلاح کے لئے قدم اٹھایا تو عمران خان اسی اجلاس سے غیر حاضر رہے،اب ان کی کوشش ہے کہ پارلیمنٹ تحلیل ہو جائے تاکہ شریف برادران کی حکومت ختم ہو جائے اور نئے الیکشن ہو جائیں۔جب بعض سیاستدان ہی پارلیمنٹ کی جان کے درپے ہوں تو پھر اس ادارے کی توقیر باقی ادارے کیا اور کیوں کریں گے مگر پھر بھی فوج ا ور عدلیہ نے یقین دلا دیا ہے کہ پارلیمنٹ ایک سپریم ادارہ ہے تو ارکان کا فرض بنتا ہے کہ وہ خود بھی اس ادارے کو بالادست تسلیم کریں۔
ایک نکتہ کل رات وزیر اعظم کی انٹرویو میں سامنے آیا، ان پر اعتراض کیا گیا کہ ان کی اجلاس میں حاضری بہت کم ہے، انہوںنے جواب دیا کہ اگر وہ اپنے ا ٓپ کو حاضری کا پابند کر لیں تو سال کے دو سو دن وہ صبح سے شام تک اسی ایوان میں بیٹھے رہیں گے اور کار حکومت اور فائل ورک متاثر ہو گا۔ دوسرے انہوں نے انکشاف کیا کہ اگرچہ وہ اجلاس میں کم دکھائی دیئے مگر کمیٹیوں میں ان کی حاضری سو فی صد رہی اور یہی وہ جگہ ہے جہاں اصل قانون سازی ہوتی ہے باقی تو محض رسمی کارروائی رہ جاتی ہے۔ ان کی اس دلیل سے میں تو متاثر ہوا ہوں، پتہ نہیں آپ کا خیال کیا ہے۔