خبرنامہ

پانامہ کا دنگل، عدالت سے باہر۔۔اسداللہ غالب۔۔۔انداز جہاں

بسم ا للہ
پانامہ کا کیس تو سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے مگر اس کا فیصلہ سڑکوں اور ٹاک شوز میں سنایا جارہا ہے، وکیل عدالت سے باہر آتے ہی کیس جیت لیا کا نعرہ لگاتے ہیں، دوسرا وکیل کہتا ہے کہ لاجواب کر کے رکھ دیا۔ اسو قت صحیح معنوں میں عدلیہ کا محاصرہ جاری ہے ا ورا سے آزادی سے کام کرنے سے روکا جا رہا ہے، آفرین ہے جج صاحبان کی جو سب کچھ سنتے ہیں اور پھر بھی اگلے روز سماعت کا آغاز کر دیتے ہیں۔
بنیادی طور پر پانامہ لیکس کے ثبوت فراہم کرنے کی ذمے داری پانامہ لیکس والوں کی بنتی ہے،الزامات ان کے ہیں ، جو شواہد انہوں نے دیئے ہیں، ان کو پایہ ثبوت تک پہنچانے کا بوجھ بھی ان کے سر ہے مگر سر پھٹول ہم، ایک دوسرے کی کر رہے ہیں، آج پانامہ پر اعتبار کر لیا جائے تو کل کو وکی لیکس کو الہام کا درجہ دینا پڑے گا، پھر ٹرمپ کی بڑھکیں سن سن کر پتہ پانی کر لیں گے اور مودی تو سر پہ بھوت کی طرح سوار ہے، اس کے ہر الزام پر آمنا و صدقنا کہنا پڑے گا، ویسے ہمارا وطیرہ یہی ہے اور ہم مودی اور اس کے وزیروں اور فوجی سربراہوں کے ہر الزام کو خود بھی دہرا کر فخر محسوس کرتے ہیں۔
پانامہ لیکس کا نام لے کر کسی پر چڑھ دوڑنا ایسے ہی ہے جیسے ٹٹی کی آڑ میں شکار کرنا اور پانامہ میں صرف ایک نام تو نہیں ، دنیا بھر کے ہزاروں نام ہیں اور ہمارے ہی ملک کے سینکڑوں نام ہیں، مگر ہمارے بعض سیاستدان صرف ایک ہی خاندان کو رگید رہے ہیں، عمران خان کی خواہش چھپائے نہیں چھپتی کہ کسی طرح نوازشریف وزارات عظمی کی کرسی سے ہٹیں اور یہ کرسی ان کے قبضے میں چلی جائے، ایسے تووزارت عظمی کی کرسی نہیں ملا کرتی، کئی ماہ تک دھرنا دے کر تجربہ کر چکے ہیں کہ یہ تیر خطا گیا تھا،اسلام آباد کو لاک ڈاؤن کرنے کی حسرت ان کے دل ہی میں رہ گئی۔
حکومت پر قبضہ کرنے کے مختلف طریقے ہیں جس میں مروج طریقہ جمہوری ہے ا ور انتخابات کے ذریعے اکثریت حاصل کر کے حکومت بنانے کی خواہش پوری کی جاسکتی ہے۔ دوسراطریقہ غیر جمہوری ہے اور آئین کو سبوتاژ کر کے فوجی انقلاب برپا کیا جا سکتا ہے، ہمارے ملک میں ایوب، یحی، ضیاا ور مشرف نے یہ راستہ اختیار کیا۔ایک طریقہ عوامی انقلاب کا ہے، اسے چین ا ور یران میں کامیابی سے آزمایا گیا، چین میں ماؤزے تنگ اور ایران میں آئت اللہ خمینی نے عوامی انقلاب برپا کیا۔ایک طریقہ اور بھی ہے اور یہ صرف حکومت پر ہی نہیں بلکہ پورے ملک کو غلام بنانے کیلئے مستعمل ہے۔جدید تاریخ میں امریکہ اپنی افواج کے ذریعے افغانستان، عراق کو اپنی کالونی بنا چکا ہے،ذرا پیچھے جائیں تو انگریزوں ، ہسپنایوں، ولندیزیوں اور دیگر اقوام نے مختلف مما لک کو فوجی طاقت سے زیر کیاا ور انہیں اپنا باجگزار بنا لیا۔اور پیچھے تاریخ پر نظر ڈالیں تو ہمیں ہلاکو، اور چنگیز کے لشکر نظر آتے ہیں جو نہ صرف ملک ملک فتح کا علم لہراتے تھے بلکہ ان ملکوں کے عوام کو لاکھوں کی تعداد میں قتل کر کے ان کے سروں کے ڈھیر پر اپنا تخت حکومت سجاتے تھے۔یہ الزام نہیں بلکہ حقیقت ہے کہ بھٹو نے اپنے اقتدارر کے لئے پاکستان کو دو لخت کیا، یا یہ کہہ لہجئے کہ بھٹو نے جو سیاست کھیلی ، اس کا نتیجہ یہی نکلا، اب اتنے ڈھیر سارے فارمولے ہیں جن کو بروئے کار لا کر منتخب حکومت کا دھڑن تختہ کیا جا سکتا ہے ۔مگر یار لوگوں نے ایک نیا فارمولہ ایجاد کر لیا ہے کہ اس قدر الزام بازی کرو کہ حکومت گھبرا کر گھر چلی جائے، اس فارمولے کی آزمائش جاری ہے مگر پچھلے ساڑھے تین برسوں میں یہ گل امید تو کھل نہیں سکا ۔ اب باقی ڈیڑھ سال رہ گیا ہے تو زور آزمائی بھی تیز ہو گئی ہے۔اس زور آزمائی کا ایک مقصد یہ بھی ہو سکتا ہے کہ حکومت ٹک کر اور دل جمعی کے ساتھ کام نہ کر سکے، بجلی کے منصوبے ادھورے رہ جائیں، سی پیک پر دھول اڑنے لگے اور اس دوران الیکشن آ جائے تو پھر عوامی مینڈیٹ پر ڈاکہ ڈالنے کوئی ناکام کوشش کی جائے۔ مگر پاکستانی ووٹر بڑا عقل مند اور ہوشیار ہے ، وہ سوچ سمجھ کر ووٹ دیتا ہے، تحریک انصاف نے جو تبدیلی ا ور نیا پاکستان کا نعرہ لگایا تھا،ا سکا تجربہ کرنے کے لئے اسے خیبر پی کے بخش دیا، پیپلز پارٹی کو سندھ تک محدود کر دیا کہ یہ روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ پورا کر لے، اگر تو دونوں پارٹیوں نے اپنے عوام کی کوئی خدمت کی ہو گی تو انہیں ان صوبوں میں دوبارہ حکومت مل جائے گی ورنہ یہ وہاں سے بھی در بدر ہو جائیں گی ، مسلم لیگ ن کے کام تو پنجاب اور پورے ملک میں نظر آتے ہیں اوراسنے اپنی کارگزاری پر ووٹ لینا ہے، اب بار باری والا قصہ ختم ہوا، باری ا سے ملے گی جس سے عوام کو ترقی اور خوشحالی کی امید ہو گی۔
اس پس منظر میں پانامہ لی لسی میں الزامات کا پانی مکس کر کے مدہانی رڑکنے سے کچھ حاصل نہیں ہو سکتا۔ اگر پانامہ میں کوئی حقیقت ہے تو یہ کیس اب اعلی تریں عدالت میں ہے، اس کی سماعت پر توجہ مرکوز کی جائے اور اس کے فیصلے کا انتظار کیا جائے۔اپنی مرضی کا فیصلہ سڑکوں پر کھڑے ہو کر نہ سنایا جائے۔
اس شور شرابے کی وجہ سے کچھ حلقوں8 کو خدشہ محسوس ہوتا ہے کہ اگرمرضی کے مطابق فیصلہ نہ آیا تو عدلیہ کو ہدف تنقید بنایا جائے گا، ریٹائر ہونیو الے چیف جسٹس کو سوشل میڈیا پر جس طرح رسوا کیا گیا،وہ ذہنی افلاس اور پس ماندگی ا ور عدلیہ کے عدم احترام کا ایک گھناؤنا ثبوت ہے۔
سیاسی محاذآرائی دنیا بھر میں دیکھنے کو ملتی ہے، امریکہ میں یہ اپنی انتہا پر ہے۔مگر نہ تو ٹرمپ یہ کہہ سکا ہے کہ اسے عوام مینڈیٹ دے چکے ہیں،اس لئے اقتدار فوری طور پرا س کے حوالے کیا جائے، نہ اوبامہ کو یہ کہنے کی جرات ہوئی ہے کہ ٹرمپ تو روسی دھاندلی زدہ الیکشن کی پیداوار ہے،اس لئے اقتدار اسے منتقل نہیں کروں گا۔مگر ہمارے ہاں تو ایک منتخب وزیر اعظم کو جس کی ٹرم ختم ہونے میں ابھی ڈیڑھ برس باقی ہے اور اگلی حکومت کا فیصلہ نئے الیکشن سے ہو گا، اسے بڑی ڈھٹائی سے کہا جاتا ہے کہ اقتدار چھوڑ دو اور گھر جاؤ۔اس عقل و دانش کا ماتم ہی کیا جاسکتا ہے۔