خبرنامہ

پانامہ کے ثبوت اور تابوت۔۔اسداللہ غالب۔۔انداز جہاں

شیخ رشید زبان دانی کے فن میں ید طولی رکھتے ہیں۔کچھ حلقے اسے زبان درازی بھی کہتے ہیں ، شیخ رشید اسے عزت سمجھتے ہیں ، ویسے ڈکشنری میں اس کا ہم قافیہ لفظ کوئی ا ور ہے۔ان کا تازہ ارشاد یہ ہے کہ پانامہ کے ثبوت ا ور تابوت سپریم کورٹ سے ہی نکلیں گے۔شیخ صاحب غتر بود سے کام لے رہے ہیں۔ وہ بھول گئے کہ پانامہ کا تابوت تو وہ بنی گالہ سے اسی روز اٹھا چکے جب خان صاحب نے یکم نومبر کو دھرنے کی لاش کو کفن پہنا دیا تھا۔رہ گیا پانامہ کے ثبوت کا معاملہ تو شیخ جی سے زیادہ کون جانتا ہے کہ پنامہ لیکس محض ایک ویب سائٹ کا شاخسانہ ہے اور وہ بھی ایک دور دراز ملک کی۔ ویب سائٹ پر لکھی ہوئی رام کہانی ثبوت نہیں ہوا کرتی، اسے ثابت کرنا پڑتا ہے،پانامہ والے تو سپریم کورٹ آف پاکستان میں پیش ہونے سے رہے، میمو گیٹ میں الزام لگانے والا بھی کمیشن میں پیش ہونے سے انکاری تھا، اس کی مہربانی کہ کہ وہ ویڈیو لنک پر بیٹھنے کو تیار ہو گیا مگر پانامہ والوں نے دنیا بھر کے لاکھوں افراد پر الزام تراشی کی ہے۔ اس لئے سپریم کورٹ میں کون ثابت کرے گا کہ پانامہ والوں نے ان سب کے بارے میں سچ بولا ہے ، جھوٹ نہیں بولا۔پانامہ لیکس کسی قانون کی عدالت میں دیا گیا بیان نہیں، اس طرح کی لیکس تو سنوڈن نے بھی کیں مگر اس کی وجہ سے کسی کا کیا بگڑ گیا۔ وہ خود کہیں روس میں منہ چھپائے پھرتا ہے، سچا ہوتا تو امریکہ میں اپنے گھر بیٹھتا اور قانون کا سامنا کرتا۔اودھم تو وکی لیکس نے بھی بہت مچایا تھا۔امریکی خفیہ کیبلز کا افشا کوئی معمولی بات نہیں، مگر یہ ساری الف لیلی چند روز کے بعد دلچسپی کھو بیٹھی ا ور ڈبہ فلم کی طرح بیٹھ گئی۔ نائن الیون کے بعد امریکہ نے افغانستان پر یلغار کی اور اسامہ پر سنگین الزامات لگائے مگر ثبوت اس کے ہاتھ نہیں آ رہے تھے، سو ایک کھیل رچایا گیا، پاکستان کے ایک صحافی کو جنگ سے دہکتے افغانستان میں داخل کیا گیا ، اس نے واپسی پر دعوی کیا کہ وہ اسامہ بن لادن کا ایک انٹریو کرنے میں کامیاب ہو گیا، اورا سکی ایک �آڈیو ٹیپ بھی اس کے پاس ہے، اب مصیبت یہ تھی کہ یہ صحافی ایک اردو اخبار میں کام کرتا تھا،ا س میں چھپی ہوئی خبر عالمی میڈیا تک صدیوں میں بھی نہیں پہنچ سکتی تھی، سو اس وقت بھی اسی اخبار کو استعمال کیا گیا جس نے حال ہی میں قومی سلامتی کے ایک اجلاس کی خبر افشا کرنے کا دعوی کیا ہے، اس خبر پر بھی جھگڑا شروع ہو گیا ہے اور اسامہ کے انٹرویو کا فائدہ تو امریکہ نے بھرپور اٹھایا ، کیونکہ اس نے تسلیم کیا تھا کہ ا س کے پاس ایٹمی، کیمیاوی، جراثیمی اور حیاتیاتی اسلحہ موجود ہے جس سے وہ امریکہ کو تہس نہس کر کے رکھ دے گا، امریکہ ایسے دشمن کوکیسے برداشت کر سکتا تھا۔ اس نے اخبار کے انٹرویو کی تحقیق ضروری نہ سمجھی اور اسامہ کے تورابورا کے ٹھکانوں کا فالودہ بنا ڈالا۔اسی اسامہ پر امریکہ نے آخری یلغار ایبٹ آباد میں کی تو بے چارہ اسامہ کوئی غلیل تک نہ چلا سکا، یہی حال صدام حسین کا ہوا،ا سکے بارے میں برطانوی انٹیلی جنس نے خبر گھڑی کہ ا سکے اپس وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار ہیں،اس رپورٹ کو سچ مان کر امریکہ نے صدام کا فلوجہ بنا ڈالااور جب اس سے �آخری مڈ بھیڑ ہوئی تو وہ بے چارہ اپناپستول تک بھی فائر نہ کر سکا، سو قارئین، پروپیگنڈے ا ور حقیقت میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے۔لکھی ہوئی اور گھڑی ہوئی باتیں ضروری نہیں کہ سچ ہوں بلکہ اسامہ اور صدام کے بارے میں الزامات تو غلط ثابت ہو کر رہے۔ جب امریکی انٹیلی جنس اور برطانوی انٹیلی جنس جھوٹ گھڑ سکتی ہیں تو پانامہ لیکس کو کیا پڑی ہے کہ وہ سچ بولیں اور سچ کے سوا کچھ نہ بولیں۔پانامہ لیکس نے کچھ چہروں کو داغدار کرنا تھا، سو کر لیا۔ روس نے تو صاف کہا کہ یہ جھوٹ کا پلندہ ہیں ا ور سی آئی اے کی پشت پناہی سے افشا کا ڈرامہ رچایا گیا ہے۔پاکستان کے بعض حلقوں میں ان پر البتہ آنکھیں بند کر کے یقین کر لیا گیا اور وہ دھول اڑائی گئی کہ خدا کی پناہ، اب یہ معاملہ عدالت تک جا پہنچا ہے اور شور محشر بپا ہے کہ حشر بپا ہوکر رہے گا مگر کوئی بتائے کہ کیسے ہو گا، کون ثابت کرے گا کہ پانامہ لیکس قابل اعتبار دستاویزات ہیں، یہ ثابت نہیں ہوتا تو ان کی بنیاد پر مقدمے کی کاروائی آگے کیسے بڑھے گی،پاکستان سائیبر کرائم کی تفتیش میں طفل مکتب کی حیثیت رکھتا ہے۔اورا س مقدمے میں ہزارہا افراد اور ادارے ملوث بتائے جاتے ہیں، کونسا قانون ہے کہ کسی ایک کو پہلے کٹہرے میں کھڑا کیا جائے اور کسی دوسرے کی باری بعد میں آئے۔بنیادی طور پر بار ثبوت پانامہ لیکس والوں کے سر ہے اور انہیں کیا پڑی کہ عدالت کے کٹہرے میں آئیں اور جھوٹے ثابت ہوں، کسی ایک کیس میں بھی جھوٹے ثابت ہو گئے تو وہ ساری دنیا کے سامنے ذلیل و خوار ہو جائیں گے،ا سلئے وہ کسی عدالت کا سامنا کریں گے ہیں نہیں، باقی رہ گئے، ہمارے اپنے لوگوں کے الزامات اور وہ بھی ایک دوسرے کے خلاف، یہ وہی قصہ ہے کہ الیکشن میں ہر پارٹی نے دھاندلی کا شور مچایا اور اسی دھاندلی زدہ الیکشن کے نتیجے میں حکومت کے مزے بھی اڑائے۔
اس قضئے سے کچھ نہیں نکلے گا ا، اب تو دھول بھی نہیں اڑائی جا رہی، صرف جگالی فرمائی جا رہی ہے، کیا ہی اچھ اہو کہ ہر کوئی اپنے کام سے کام رکھے ، دوسرے کی ٹانگیں نہ کھینچے، حکومت بدلنی ہےء تو اس کا معروف طریقہ الیکشن ہے اور یہ زیادہ دور نہیں رہا۔اس الیکشن کی تیاری پکڑیں، دھرنوں یا عدالتوں میں حریف کو چت کرنے کے بجائے عوام سے رجوع کریں ، عوام اپنی رائے سے رجوع کریں گے تو حکومت بدل جائے گی، ورنہ یہی سیٹ اپ پھر چلے گاا ور چلتا ہی رہے گا، کہئے،اس پر کیا اعتراض ہے آپ کا۔ ثبوت آپ کے پاس کوئی ہے نہیں تابوت ا ٹھا کر آپ دفن کر بیٹھے ، گیا ہے سانپ نکل اب لکیر پیٹا کر۔
اس ملک نے ہمیشہ بلیم گیم اور تکا فضیحتی میں وقت ضائع نہیں کرنا، کچھ کر کے بھی دنیا کو دکھانا ہے،حکومت ٹھیک کہتی ہے کہ سی پیک جیسامنصوبہ صدیوں میں نصیب ہوتا ہے، اس نصیب پر فخر کیجئے، نصیب کو ٹھوکر مت ماریئے صاحب !!