خبرنامہ

پانی کا بحران خانہ ساز ، موت کو گلے لگا نے کے مجرم ہم خود…کالم اسد اللہ غالب

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

پانی کا بحران خانہ ساز ، موت کو گلے لگا نے کے مجرم ہم خود…کالم اسد اللہ غالب

چیف جسٹس آف پاکستان کی وجہ سے ملک میں پانی کے بحران کا مسئلہ ہر جگہ زیر بحث ہے۔ اس سلسلے میں تازہ ترین بیان واپڈا کے سابق چیئر مین اور ہمارے کالم نویس اور ادیب دوست ظفر محمود کا ہے جس میں انہوںنے پانی کے بحران کا ذمے دار سیاست دانوں کوٹھہرایا ہے۔ظفر محمود نے چیئر مین کی کرسی پر بیٹھے ہوئے کالاباغ ڈیم کے حق میں سلسلہ و ار مضامیں لکھے اور پھر انہیں ایک کتابی شکل میں شائع کیا۔ ان کے مضامین کو سیاسی حلقوں نے پسند نہ کیا تاہم انہوںنے واضح کیا تھا کہ وہ اپنے وزیر کی اجازت سے یہ مضامین لکھ رہے ہیں، یہ الگ بات ہے کہ وزیر موصوف حزب مخالف کا دبائو برداشت نہ کر سکے اور ظفر محمود کو اپنامنصب چھوڑنا پڑا۔ حزب اختلاف نے تو یوں رعب جھاڑا جیسے حکومت میں وہ ہو اور جسے چاہے کام پر رکھے اور جسے چاہے نکال باہر کرے۔ بہر حال ظفر محمود ا کیلے نہ تھے جو کالا باغ ڈیم کے طرفدار تھے بلکہ ان سے پہلے شمس الملک بھی اسی خیال کے حامی تھے کہ اس ڈیم کے بغیر ہماری بقا ممکن نہیں۔ ان کا تعلق پشاور سے ہے اور یہ علاقہ کالاباغ ڈیم کا اسلئے مخالف ہے کہ اس کی تعمیر سے نوشہرہ شہر ڈوب جائے گا۔اس کے جواب میں شمس الملک کا کہنا تھا کہ نوشہرہ شہر ایک بار بدترین سیلاب کی وجہ سے ڈوبا تھا ا ور اس وقت کالا باغ ڈیم اس کے ڈوبنے کی وجہ نہیں بنا تھا،اسی طرح دو ہزار دس میں بھی نوشہرہ بری طرح ڈوبا جبکہ کالاباغ ڈیم کا وجود تک نہ تھا، اس بار بھی اس کی غرقابی کی وجہ بے انتہا بارشیں اور سیلابی پانی کا ریلا بنا،۔ نتیجہ یہ ہے کہ نوشہرہ کی قسمت میں ڈوبنا لکھا ہے توا سکے لئے کالاباغ ڈیم کا ہونا ضروری نہیں صرف ایک طوفانی سیلاب ہی کافی ہے۔ شمس الملک اور ظفر محمود دونوںنے دلائل اورٹیکنیکل طریقے سے سمجھایا کہ کالا باغ ڈیم بن جائے تو یہ نوشہرکو سخت طوفانی بارشوں اور بد ترین سیلاب کی صورت میں بھی تباہ ہونے سے بچا سکتا ہے کیونکہ سیلابی پانی کوذخیرہ کرنے کے لئے ایک ڈیم موجود ہو گا۔
مجھے کل پھر برمنگھم سے اقبال چیمہ نے فون کیاا ور کہا کہ میں لوگوںکو بتائوں کہ کالا باغ ڈیم ملک کے لئے رحمت کا باعث بنے گا ،کوئی زحمت نازل نہیں کرے گا۔ اس کے لئے انہوںنے سندھ والوں کے اس اعتراض کی طرف بھی توجہ دلائی کہ کالا باغ ڈیم میں پانی ذخیرہ کرنے سے دریائے سندھ کے زیریں علاقے میں پانی کی کمی واقع ہو جائے گی اور آبی حیات کی زندگی کو خطرہ لاحق ہو جائے گا۔اقبال چیمہ کا کہنا ہے کہ کالا باغ ڈیم تو سال بھر سندھ کے زیریں علاقے کو پانی کی فراہمی کو یقینی بنائے گا جس کی وجہ سے سال بھر آبی حیات مزے میں رہے گی،جبکہ کالاباغ ڈیم کے نہ ہونے سے سندھ کے زیریں علاقوںمیں صرف سیلابی ریلے کے دنوں میں پانی کی جھیلیں بھرتی ہیں اور باقی سارا عرصہ خشک رہتی ہیں جس سے تنگ آ کر چرند پرند ا س علاقے سے ہجرت کر جاتے ہیں۔
میں تو ہمیشہ یہ تجویز دیتا رہا ہوں کہ اقبال چیمہ کی کتابPakistan Energy Resources and Policies اور انجینئر برکت علی لونا کی کتاب Kala Bagh Dam Gold Mine of Pakistanاور اب ظفر محمود کی کتاب کو وسیع سطح پر پھیلایا جائے۔ تمام اراکین پارلیمنٹ، پوری بیورو کریسی،فوجی لائیبریریوں اور اسکولوں کالجوں کی لائیبریریوں میں ان کتابوں کو تقسیم کیا جائے ا ور اب چونکہ میڈیا کا کردار انتہائی اہم ہو گیا ہے، اس لئے تما م لکھنے والوں ، تجزیہ کاروں اور اینکروں تک کو بھی یہ کتابیں پہنچائی جائیں تاکہ انہیں مفاد پرست سیاست دانوں کے پرو پیگنڈے کے بجائے حقائق کا علم بھی تو ہو سکے۔
پاکستانی جھگڑالو سیاست دانوں سے کوئی پوچھے کہ وہ ملک کے بیس کروڑ عوام کے مفادات کے دشمن کیوں ہو گئے ہیں،اب تو بھارتی وزیر اعظم مودی نے یہ کہہ دیا ہے کہ و ہ دریائے سندھ کا بھی رخ موڑ کر سارا پانی اپنے قبضے میں کر لے گا اس لئے کہ پاکستان تو اس پانی کو استعمال نہیں کرتا اور اسے بڑی بے رحمی سے بحیرہ عرب میں گرا کر ضائع کر دیتا ہے۔ واہ رے مودی جی ! پہلے تو آپ نے پاکستانی سیاست دانوں کو خریدا اور بھاری رشوت دے کر انہیں کالا باغ اور دیگر ڈیموں کا دشمن بنایاا ور اب یہ الزام لگا رہے ہو کہ پاکستان اپنے حصے کا پانی سمندر میں گرا کر ضائع کر دیتا ہے۔اس سے بڑی کٹ حجتی اور کیا ہو گی۔ وہی ذبح بھی کرے ہے ، وہی لے ثواب الٹا ۔
بلوچستان کی طرف سے کالا باغ ڈیم کی مخالفت کی تو کوئی وجہ ہی نہیں۔مگر تینوں چھوٹے صوبوں نے ایک لحاظ سے بڑے صوبے پنجاب کے خلاف محاذ بنا رکھا ہے ، یہ محاذ پنجاب کے خلاف نہیں ، مادر وطن کے بیس کروڑ عوام کے خلاف ہے کیونکہ وہ پانی کی ایک ایک بوند کو ترس رہے ہیں۔ گندہ پانی پینے پر مجبور ہیں، جانورا ور انسان ایک ہی جوہڑ سے پانی پیتے ہیں اورا ٓلودگی کی وجہ سے لاکھوں انسان ہیپا ٹائٹس جیسے موذی مرض کے ہاتھوںموت کا شکار ہو رہے ہیں۔ اس وسیع پیمانے پرقتل عمد کے مجرم کالا باغ اور دیگر ڈیموں کے مخالفین ہیں۔وہ قومی خود کشی کے مجرم ہیں۔
پانی کے جھگڑے دنیا بھر میں چلتے ہیں۔ پانی پر خونی جنگیں بھی ہوتی رہی ہیں مگر انسان نے آہستہ آہستہ سیکھ لیا کہ ان آبی تنازعات کا حل بھی مل بیٹھ کر کیا جا سکتا ہے اور مہذب دنیا نے یہ مسائل حل کر لئے ۔ اب صرف بر صغیر کے چند دریائوں اور افریقہ میں دریائے نیل کے جھگڑے باقی رہ گئے ہیں، نیل کے پانی پر حبشہ ا ور مصر کے درمیان سخت ان بن ہے ۔ بنگلہ دیش اورنیپال بھی دریائی پانی کے مسائل پر بھارت کے ساتھ الجھے ہوئے ہیں اورادھر پاکستان سندھ طاس جیسا معاہدہ کرنے کے باوجود اپنی بیوقوفی کی وجہ سے بھارت کی ا ٓبی جارحیت کا آسان ہدف بنا ہوا ہے۔ کاش کوئی ظفر محمود کے علمی مقالات پر دھیان دے ، اقبال چیمہ کی تحقیقی کتاب پر نظر ڈالے یا برکت علی لونا کی سونے میں تولنے کے لائق کتاب کے مندرجات پر غور کرے یا شمس الملک سے اپنے ہر اعتراض کا جواب سن لے اور پھر اپنی عقل استعمال کرتے ہوئے خود اپنی تقدیر کا فیصلہ کرے۔ یہ فیصلہ آنے والی نسلوں کے لئے بھی سود مند ہو گا۔ ہم نے بھارت سے جو پیسہ کھا رکھا ہے، اسے ایک ڈکار سے ہضم کر جائیں اور حب الوطنی کے جذبے سے سوچنے کی عادت اپنائیں، کاش ! سپریم کورٹ ہی اس کا کوئی قابل عمل حل سامنے لانے میں قوم کی مدد کر سکے۔ مجھے اقبال چیمہ نے بتایا ہے کہ وہ اسی ماہ کے آخر میںپاکستان آ رہے ہیں اور سپریم کورٹ کے مقدمے کی سماعت میں ان کا واٹر فورم بھی فریق کے طور پر شامل ہو جائے گا۔مجھے تو یہ اچھا شگون لگتا ہے۔ دور دیس میں بیٹھے ہوئے اقبال چیمہ کو ہمارا کس قدر درد ہے، اس کا ہم لوگ احسان نہیں چکا سکتے۔ظفر محمود نے یہ جانتے ہوئے کہ انہیں اپنے منصب سے ہاتھ دھونا پڑیں گے، کالاباغ ڈیم کے حق میں مسلسل لکھا۔ برکت علی لونا کی آپ عمر دیکھیں کہ اسی نوے سالہ بزرگ کو کیا فکر لاحق ہے۔پیدا کہاں ہیں ایسے پراگندہ طبع لوگ۔