خبرنامہ

پاکستان میں چینیوں کی حفاظت اولیں فریضہ…اسداللہ غالب

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

یہ بڑی بدقسمتی ہے کہ پاکستان میں چینی سفیر کی جان کو خطرہ لاحق ہو گیا ہے۔ چین نے حکومت پاکستان پر زور دیا ہے کہ وہ ان کی سیکورٹی کے تقاضے پورے کرے۔
کسی بھی ملک میں بیرونی سفیروں اور ان کے عام باشندوں کی ذمے داری میزبان ملک کا فریضہ گردانی جاتی ہے۔اس وقت چین نے پاکستان میں سی پیک کے نام سے ایک ہمالیائی منصوبہ شروع کر رکھا ہے جس کی تکمیل کے لئے چینی اہل کاروں کی بڑی تعداد پاکستان آئے گی، ان میں سے بیشتر آ چکے ہیں۔ سی پیک نہ بھارت کومنظور ہے، نہ امریکہ کو ، ان کے کھلے دھمکی آمیز بیانات آ چکے ہیں ۔اب یہ کوئی سنی سنائی بات نہیں، نہ ہی کوئی مفروضہ ہے، چینی اہل کاروں پر دہشت گرد ایک عرصے سے حملے کر رہے ہیں ، خاص طور پر جو گوادر میں سرگرم عمل ہیں، ان کو نشانہ بنانا دہشت گردوں کی اولین ترجیح ہے۔ گوادر میں چینیوں کی ایک وین کو دھماکے سے ا ڑایا گیا تھا، چینی اہل کارا غوا بھی کئے جاتے ہیں اور اس کے بعد ان کی گردن بھی اڑا دی جاتی ہے اب تو اس کاا عتراف دہشت گردوںنے خود کر لیا ہے۔ مگر چینی سفارت کار کے لئے دھمکی۔ یہ پاکستان کے لئے ایک بہت بڑا چیلنج ہے جس سے ہمیں ہر قیمت پر عہدہ بر آ ہونا چاہیئے۔ چین اور پاکستان کی دوستی ایک مسلمہ امر ہے، اس کا بھی تقاضہ ہے کہ ہم اپنے دوستوں کی حفاظت کریں مگر عالمی پروٹوکول کے مطابق ہمیں ہر غیر ملکی کی جان و مال کو محفوظ بنانا ہے۔
سی پیک کا منصوبہ سامنے آیا تو سابق آرمی چیف جنرل راحیل کے دور میں پاک فوج نے اعلان کیا تھا کہ وہ سی پیک پراجیکٹ کی سیکورٹی کے لئے ایک ڈویژن نیا کھڑا کرے گی، بعد میں یہ بھی کہا گیا کہ اس خصوصی فوج کی تعداد دو ڈویژن تک بڑھائی جائے گی، عوام کو بتایا جائے کہ کیا یہ خصوصی فوج بھرتی کر لی گئی ہے یا ابھی یہ فائلوں کا منصوبہ ہے۔ ویسے تو پاک فوج کوئی ایساا علان نہیں کرتی جس پر عمل نہ کیا جائے مگر یہ مسئلہ مفاد عامہ کا ہے، اس لئے پاکستان کے ہر شہری کو تشویش لاحق ہے کہ دہشت گردوں کو عزت مآب چینی سفیر کو دھمکانے کی جرات کیسے ہو گئی، ہماراا ولیں فرض یہ ہے کہ ہم اپنے وی آئی پی سسٹم کو پس پشت ڈالیں اور چینی بھائیوں اور خاص طور پر سفیر محترم کے گرد سیکورٹی کا حصار کھڑا کر دیں۔
پاکستان سے چین کوایک شکائت اور ہے کہ ہمارے ہاں سے دہشت گرد اس کی سرحد پار کر کے سنکیانگ میں دہشت گردی کرتے ہیں، تین سال قبل جب اورمچی کے ایک ہوٹل میں صبح سویرے دھماکہ ہو ا تو چینی صدر نے غضبناک لہجے میں کہا کہ خنجراب کی چوٹیوں پر آسمان تک ایک کنکریٹ کی دیوار کھڑی کر دی جائے۔ اس موقع پر ہمارے آرمی چیف کو بیجنگ طلب کیا گیا تھاا ور میرا قوی خیال ہے کہ آپریشن ضرب عضب اسی وزٹ کے نتیجے میں شروع ہوا۔بعد میں آرمی پبلک اسکول میں المناک دہشت گردی کی وجہ سے اس آپریشن میںمزید تیزی آ گئی مگر حقیقت یہ ہے کہ ضرب عضب سے پہلے شمالی وزیرستان کا علاقہ غیر ملکی جنگ جو¶ں کی پناہ گاہ بنا ہوا تھا جسے پاک فوج نے قربانیاں دے کر ملیا میٹ کیا۔ اس کے بعد چین کو یہ شکائت پیدا نہیں ہوئی کہ اس کے ہاں دہشت گرد پاکستان سے جاتے ہیں۔
ویسے دہشت گردی کے لئے پاکستان یونہی بدنام ہے، اصل میں تو دہشت گردی کی فیکٹریاں بھارت میں ہیںجو اب افغانستان میں بھی جڑیں پھیلا چکا ہے۔اس نے قونصل خانوں کی آڑ میں دہشت گردی کے ٹھکانے بنارکھے ہیں۔ جہاں سے پاکستان کو مسلسل نشانہ بنایا جا رہا ہے۔اسی طرح افغانستان میں امریکی اور نیٹو افواج بھی موجود ہیں جنہوںنے قسم کھا رکھی ہے کہ خود نہیں لڑنا بلکہ نان اسٹیٹ ایکٹرز کو آگے کرنا ہے، پاکستان میں اسی طرح کا ایک ایجنٹ ریمنڈ ڈیوس پکڑا بھی گیا تھا اور کسی کو معلوم نہیں کہ ابھی کتنے ریمنڈ ڈیوس ہماری گلیوں اور بازاروں میں کھلے عام دندناتے پھرتے ہیں۔
میں کسی ملک کے خلاف بلیم گیم کا عادی نہیں ہوں مگر ہم میں سے ہر ایک کے علم میں ہے کہ امریکہ نے سی پیک کی اس لئے مخالفت کی ہے کہ یہ متنازعہ علاقے سے گزرتا ہے، اسی امریکہ کو یہ یاد نہیں رہا کہ منگلا ڈیم بھی عالمی امداد سے اسی متنازعہ علاقے میں تعمیر ہوا تھا۔مگر اب سی پیک بننے لگے یا بھاشہ ڈیم کی بنیاد رکھی جائے تو امریکہ کو کشمیر، گلگت اور بلتستان متنازعہ لگنے لگ جاتے ہیں، امریکہ کو معلوم ہے کہ سی پیک پاکستان کا نہیں ، چین کا منصوبہ ہے اور یہ ون بیلٹ ون روڈ کا حصہ ہے ، اس لئے چین اس منصوبے سے پیچھے نہیں ہٹے گا تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہ چین کو خوفزدہ کرنے کے لئے دہشت گردی کی دھمکیوں پر اترا ٓیا ہے ۔ اس کا پٹھو بھارت تو پہلے ہی پاکستان کے خون کا پیاسا ہے، اسے تو پاکستان کا رتی بھر مفاد بھی عزیز نہیں ، اس لئے اس کی بھی پوری کوشش ہو گی کہ وہ چین کواس منصوبے سے روکے جس سے پاکستان کی تقدیر بدل سکتی ہے۔ یہ تین بر اعظموں کے لئے گیم چینجر منصوبہ ہے۔ اس لے بھارت اسے ہضم کر رہا ہے، نہ امریکہ کو ہضم ہو سکتا ہے۔
اس پس منظر میں پاکستان کو غیر معمولی طور پر چوکس ہونا پڑے گا۔ ذرا سی غفلت اور کوتاہی ہمارے لئے زہر قاتل ثابت ہو گی۔ اس کے لئے ایک تو ہم فوج کو وہ وسائل فراہم کریں جن کی مدد سے وہ خصوصی دو ڈویژن کھڑے کرے اور چینی اہل کاروں کو ضروری سیکورٹی مہیا کرے۔
اس وقت پاکستان اندرونی انتشار کا بھی شکار ہے، ایک مارا ماری کا عالم ہے، ہتھ کڑیاں گونج رہی ہیں۔ کسی وجہ سے احتساب کی جلدی پڑی ہوئی ہے اور وہ بھی مخصوس سیاستدانوں کی، ایسے لگتا ہے کہ حکم عمران خان صادر کرتا ہے اور کاتب تقدیر انتہائی عجلت میں فیصلے تحریر کر دیتا ہے۔ اس سے ایک انتشار اور قومی بحران کی کیفیت پیدا ہو گئی ہے۔ ہر کوئی دوسرے کو الزامات کا نشانہ بنانے میں لگا ہوا ہے، میں تو کہوں کہ یہ بلیم گیم بھی دہشت گردی ہی کے مترادف ہے، یہ سیاسی ٹارگٹ کلنگ ہے اور مخالفین پر جینا حرام کر نا بھونڈی کوشش ہے۔ کون جانے کہ اس سازش کے پیچھے بھی کونسی بیرونی قوت ہے جو ہمارا قومی اتحاد پارہ پارہ کرنے کے در پے ہے تاکہ ہم ملک و قوم کے اصل اور حقیقی دشمنوں پر توجہ مبذول نہ کر سکیں اور وہ اپنا گھناﺅنا کھیل کھیلتے رہیں۔
ہمیں ایک بیدار مغز قوم ہونے کا ثبوت فراہم کرنا چاہئے اور دشمنوں کی ہر چال سے ہوشیار رہنا چاہیئے، چین جیسے پائیدار اور بااعتماد دوست کو ہماری سرزمین پر کوئی بری نظر سے بھی دیکھنے نہ پائے۔