خبرنامہ

پاکستان کی تنہائی کا مشاعرہ۔۔اسداللہ غالب۔۔۔انداز جہاں

پاکستان تنہا ہو کر رہ گیا ہے، پاکستان تنہا ہو رہا ہے، پاکستان تنہا ہو جائے گا ، پاکستان کو تنہا کر دیا جائے گا۔یہ ہے وہ مصرع طرح جس پرہر کوئی اپنے اپنے انداز سے طبع آزمائی کر رہاہے۔
اس مشاعرے کی تاریخ بہت پرانی ہے، اتنی پرانی تو نہیں جتنا مرزا فرحت اللہ بیگ کے قلم سے دلی کا ایک یادگار مشاعرہ۔ مگر فیلڈ مارشل ا یوب خان کی کتاب جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی، اسی مشاعرے کا ایک حصہ تھا، میں ان دنوں چھوٹا تھا ،ا سلئے نہیں جانتا کہ جو ایوب خان امریکی صدر جانسن کے گال پیار سے تھپتھپاتا تھا، اچانک اسے اپنے گالوں پرٹیس کیوں محسوس ہوئی۔بھٹو صاحب کا دور آیا تو وہ بھی ایک روز اچانگ پنڈی کے ایک بازار میں نمودار ہوئے، انہوں نے طیش بھرے انداز میں کسی امریکی حکومتی اہلکار کا خط لیرو لیر کر دیا۔اس سے اندازہ ہوتا تھا کہ بھٹو صاحب جو اسلامی کانفرنس کے زمانے میں نصف النہار پر دمک رہے تھے، اچانک یوسف بے کارواں ہو گئے ہیں۔پھر ایک طویل عرصے کے بعد نواز شریف کے بیانات سننے میں آئے کہ لوگ تو کہتے تھے، قدم بڑھاؤ نواز شریف ہم تمہارے ساتھ ہیں ، اور نواز شریف کو جب لوگوں کی ضرورت پڑی اور پیچھے مڑ کر دیکھا تو قافلہ بکھر چکا تھا، بیگم کلثوم نواز کی کتاب میں بھی تنہائی کا ذکر آتا ہے ، وہ لکھتی ہیں کہ جس جس کو فون کرتی، وہ فون سننے سے ہی گریز کرتا۔زندگی میں ایسے مواقع ضرور آتے ہیں جب سایہ بھی انسان کا ساتھ چھوڑ جاتا ہے۔
ملک میں حالیہ مشاعرے کا آغاز جرمن ریڈیو کو دیئے گئے اس انٹرویو سے ہو اجس میں آئی ایس پی آر کے سربراہ جنرل باجوہ نے دنیا کو جتلایا کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بے پناہ قربانیاں دی ہیں، اور ابھی یہ فتنہ پوری طرح دبا نہیں،ا سلئے دنیا پاکستان کو درمیا ن میں ہی تنہا نہ چھوڑ دے۔ میڈیا میں اس کی خبر اس سرخی کے ساتھ شائع ہوئی کہ پاکستان تنہا ہو رہا ہے۔سرتاج عزیز نے اس تاثر کو زائل کرنے کے لئے بیان دیا کہ پاکستان تنہا نہیں ہوا، یہ خبر بھی شہ سرخیوں کے ساتھ شائع ہوئی اورا س سے لوگوں نے محسوس کیا کہ فوج اور حکومت ایک دوسرے سے برعکس نقطہ نظر رکھتے ہیں، میں نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے تجویز دی تھی کہ دونوں شخصیا ت اگربیان دینے سے پہلے آپس میں صلاح مشورہ کر لیا کریں تو پاکستان کی جگ ہنسائی کا موقع نہ آئے۔ میرے اس بیان پر فوج مجھ سے ناراض ہو گئی مگر حکومت نے شاید میرا مشورہ پڑھا ہی نہیں۔
اب میرے لئے یہ منظر بڑا خوفناک ہے کہ چند ماہ قبل پاکستان کا محکمہ خارجہ جب یہ کہہ رہا تھا کہ پاکستان تنہا نہیں ہوا تواسی محکمے کے دوسرے اہلکار نے وہی باجوہ صاحب والا موقف کیسے اختیار کر لیا کہ پاکستان تنہا ہو جائے گا۔
ایک تو ہمارے فارن آفس نے یو ٹرن لیا اور دوسے اس کی خبر اس اندازسے چھپوئی کہ ملک ہی میں نہیں ، دنیا میں بھی بھونچال سا آگیا ۔مجھے ا س بھونچال سے کوئی غرض نہیں ،اس سے نمٹنے کے لئے حکومت اور فوج دونوں کے پاس اپنے اپنے میڈیا ہاؤس موجود ہیں، کور کمانڈرز اپنی میٹنگ کر کے دل کا غبار نکال رہے ہیں اور وزیر اعظم، قطعی بے فکر ہو کر آذر بائیجان کے دورے پر نکل گئے ہیں۔اور وہاں انہیں پی ایچ ڈی کی اعزازی ڈگری مل گئی ہے۔میں ایک بار یوسف رضا گیلانی سے ملنے گیا، وہ نئے نئے ترکی سے آئے تھے، چھوٹتے ہی کہنے لگے،اب تو میں آپ کاا ستاد بن گیا ہوں ، میں نے کہا کہ ترکی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری نہ بھی ملتی تو آپ کی استادی ایک مسلمہ امر تھی۔
یہ امر انتہائی حیران کن ہے کہ جب بھارتی وزیر اعظم اٹھتے بیٹھتے پاکستان کو یکہ و تنہا کرنے کی دھمکیاں دے رہاتھا، پاکستان کا حقہ پانی بند کرنے پر تلا بیٹھا تھا، تو یہ ہمارے فارن آفس کے اہل کارنے یہی لب ولہجہ کیوں اختیار کیا اور وہ بھی ملک کی اعلی فوجی قیادت سے گفتگو کرتے ہوئے۔یہ وقت تو اپنی فوج سے اظہار یک جہتی کا تھا، جیسے پینسٹھ میں منظر نامہ بنا،موجودہ حکومت نے اس یک جہتی کے لئے پارلیمنٹ کا اجلاس طلب کیا، وہ مچھلی منڈی بن گیا اور دنیاکو پتہ چل گیا کہ ہمارے ہاں قومی یک جہتی مفقود ہے، عنقا ہے۔
اب میں پیچھے مڑ کر دیکھتا ہوں تو مجھے جنرل اجوہ کا شکوہ درست ہی معلوم ہوتا ہے ۔ پاکستان نے جب کبھی اقوام عالم کے لئے قربانیاں دیں توو قت گزرنے پر دنیا نے ان قربانیوں کو بھلا دیا بلکہ قربانیاں دینے والوں کو نشان عبرت بنا دیا، بھٹو کو پھانسی دلوائی ا ور ضیا الحق کو طیارے کے دھماکے میں شہید کیا۔دیکھا جائے تو نواز شریف کا کارگل پر موقف دنیا کی خوشنودی کے لئے تھا مگر اس کی جلا وطنی عمل میں آگئی۔اب مشرف کا حال دیکھ لیجیئے، اس نے قوم کی بیٹی عافیہ تک کو داؤ پر لگا دیا، پاکستان کے اقتدارا علی کو گروی رکھ کر اپنے اکاؤنٹس بھر لئے مگر دنیا کے مقاصد پورے ہو گئے تو اس کو انتہائی رسوائی کے عالم میں چلتا کیا۔اب خدا کی زمین اس شخص پر تنگ ہو گئی ہے۔
پاکستان کی موجودہ تنہائی کی جو وجوہات فارن �آفس کے اہل کار نے گنوائی ہیں ان میں ممبئی حملوں کے ماسٹر مائنڈز کو سزا دلوانا، پٹھان کوٹ حملے کی تحیققات میں مدد دینا،حقانی گروپ کا قلع قمع کرنا اور کشمیر میں در اندازی بند کرنا شامل ہے۔اس بحث میں دو افراد کے نام بھی گنوائے گئے ہیں، حافظ محمدسعید اورمسعود اظہر، فارن آفس نے ان کے جرائم کی تفصیل افشا نہیں کی۔
اب دیکھئے یہ سب مطالبے بھارت کر رہا ہے ۔ممبئی، پٹھان کوٹ اور کشمیر کا درد سر بھارت کو لاحق ہے اور حقانی گروپ سے خدا واسطے۷ کا بیر امریکہ اور نیٹو کو ہے۔ بھارت کے طول و عرض میں بد امنی کا دور دورہ ہے، کئی ریاستوں میں آزادی کی تحریکیں چل رہی ہیں، پتہ نہیں بھارت ان کے لئے کسے مورد الزام ٹھہراتا ہے اور یہ بھی معلوم نہیں کہ اگر ہم پٹھان کوٹ اور ممبئی حملے کے مبینہ ملزموں کوسزائیں دے بھی دیں تو کیا بھارت میں امن قائم ہو جائے گا اور بھارت میں بھوک اور افلاس ختم ہو جائے گی۔ اسی طرح پاکستان اگر حقانی نیٹ ورک پر واقعی سے اپنی زمین تنگ کر دے تو کیا امریکہ اور نیٹو افواج اگلی ایک صدی تک بھی کابل کے قلعہ بند علاقے سے باہر اپنی عمل داری قائم کر سکیں گی۔ کیا عراق ، اور شام پر امریکی پرچم لہرا نے لگا ہے۔
ہمارے فارن �آفس کے اہل کار کو کیا ضرورت آن پڑی تھی کہ بھری محفل میں سینیئر تریں ملکی فوجی قیادت کو ڈانٹ پلاد ے اور پھر اس کی خبر بھی افشا کر دے کہ یہ ہے وہ معرکہ جو انہوں نے مارا۔
صرف چند ماہ قبل سرتاج عزیز تو یہ کہتے ہیں کہ پاکستان تنہا نہیں ہو رہا اور اب ان کے ہی ایک ساتھی ایک سو اسی ڈگری پر اباؤ ٹ ٹرن لیتے ہوئے کہتے ہیں کہ پاکستان تنہا ہو رہا ہے، اس ے تو ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اپنے ہی بزرگ اور سینیئر ساتھی سرتاج عزیز کے موقف کی تردید کر رہے ہیں۔
باقی رہا معاملہ خبر کا اور ا سکے افشا کا توہمارے ملک کی تاریخ ظاہر کرتی ہے کہ ا س معاملے کا کھوج نہیں ملے گا کہ میٹنگ میں در ا صل ہوا کیا، فوج نے تو کہہ دیا کہ میٹنگ میں وہ بات ہوئی نہیں جو چھپوا دی گئی ہے۔ اب جھگڑا ہو گا تو اسی ایک نکتے پر۔
میں نے کہیں پڑھا ہے کہ خبر د ینے والے رپورٹر کے پاس اجلاس کی سی سی ٹی فوٹیج موجود ہے، نہ بھی ہو تو وزیر اعظم ہاؤ س پر منڈلاتے عالمی سٹیلائٹس سے یہ فوٹیج بوقت ضرورت مل سکتی ہے۔