خبرنامہ

پاکستان کی مالیات ماہر معاشیات ڈاکٹراحمد مسعود خالد کی نظر میں….اسداللہ غالب

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

پالیسی ریسرچ کونسل کے چیئر مین ڈاکٹر محمود شوکت کے توسط سے ایک ممتاز ماہر معاشیات ڈاکٹر احمد مسعود خالد سے بات چیت کا موقع ملا۔وہ برونائی دارالسلام میں حکومت کی خصوصی درخواست پر ایک بزنس اسکول کے قیام کے لئے گزشتہ تین برسوں سے کام کررہے ہیں۔ اس سے پہلے وہ سنگا پوراور آسٹریلیا کی یونرسٹیوں میں تدریسی فرائض انجام دیتے رہے ہیں، پاکستان میں کامسیٹس اور لمز کے ساتھ بھی تحقیقی پراجیکٹس پر کام کر رہے ہیں۔۔انہوں نے قائد اعظم یونیورسٹی سے ایم اے معاشیات کا امتحان پاس کیاا ور امریکہ کی مایہ ناز یونیورسٹی جان ہاپکنز سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ ان کا شمار ممتاز عالمی ماہرین اقتصادیات میں ہوتاہے۔ چند روز کے لئے وہ پاکستان میں عزیزوں سے ملنے آئے تو ڈاکٹر محمود شوکت نے ان سے دومرتبہ ملنے کا موقع فراہم کر دیا،ہفتہ کی شام انہوں نے پالیسی ریسرچ کونسل کے ارکان کو ایک بریفنگ دی ا ور اتوار کی صبح ڈاکٹرمحمود شوکت کے گھر کے ایک پر سکون تہہ خانے میں ان سے مل کر آیا ہوں تو تازہ تازہ یادوں کوقلم بند کرنے بیٹھ گیا ہوں۔
ڈاکٹر صاحب پاکستان کے معاشی مستقبل کے بارے میں پر امید ہیں۔اس کی وجہ سی پیک کا عظیم الشان منصوبہ ہے جو پاکستان ہی نہیں ،تین بر اعظموں کی تقدیر بدل سکتا ہے۔ چین نے پاکستان میں ساٹھ ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے۔ اس لحاظ سے پاک چین دوستانہ تعلقات میں مزید قربت پیدا ہونے کی بڑی آسانی سے پیش گوئی کی جا سکتی ہے۔پاکستان کی موجوہ معاشی بد حالی کی وجہ ڈاکٹر صاحب کے نزدیک صرف یہ ہے کہ یہاں معاشی منصوبہ بندی کا رواج ختم ہو گیا ہے۔ اور محض ایڈہاک ازم پر گزارہ کیا جاتا رہا ہے۔ پوری دنیا میں طویل مدت کی معاشی پلاننگ کی جاتی ہے ۔ پاکستان کے ابتدائی عرصے میں بھی یہی روش اختیار کی گئی اور ایشیا کے کئی ممالک کے لئے پاکستان رول ماڈل کی حیثیت اختیار کر گیا تھا۔ جنوبی کوریا کے ماہرین معیشت پاکستان کی ترقی ا ور خوش حالی کا راز جاننے کے لئے پھیروں پر پھیرے لگاتے تھے مگر پھر ہمای سوچ بدل گئی اور ہم نے روز مرہ کے حساب سے پالیسیاں بنانا شروع کر دیں جس نے ہمیں کہیں کا نہیں رہنے دیا۔کہنے کو نواز شریف کے دور میں ترقیاتی منصوبوں کا جال بچھا اور یہ سب چین کا مرہون منت ہے مگر اب یکا یک شور پڑ گیا کہ پاکستان ڈوبا کہ ڈوبا حالانکہ حقیقت میں ایساکوئی خدشہ لاحق نہیں ، پاکستان ڈیفالٹ کے کنارے نہیں پہنچا۔ اگر اسے کسی کا کوئی قرض دینا ہے تو وہ آئی ایم یف ہے اور اس ضمن میں ہم پر صرف چھ ارب ڈالر کا بوجھ ہے مگر ہم آٹھ نوارب ڈالر کے پیچھے بھاگ رہے ہیں۔ ڈاکٹر خالد کہتے ہیں کہ مجھے ایک ماہر معاشیات کی حیثیت سے کچھ اندازہ نہیں ہورہا ہے کہ قرض کے بوجھ کو بڑھا چڑھاکر کیوں بیان کیا جارہا ہے۔ ممکن ہے اس میں کوئی ایسی مصلحت ہو جو صرف حکومت ہی جانتی ہو یا وزیر خزانہ ا سد عمر ا س راز سے پردہ اٹھا سکتے ہیں۔حکومت یوں ظاہر کر رہی ہے جیسے اسے معاشی اورمالی بد حالی کی پہلے کوئی خبر نہ تھی۔ سب جانتے ہیں کہ پی ٹی آئی نے ہی الیکشن جیت کر اقتدار میں آنا تھا۔ اس لئے اسد عمر جیسے پروفیشنلز اچھی طرح تمام حقائق سے باخبر تھے۔
میں نے پوچھا کہ ہم لوگ سنگا پور ماڈل کی بات کرتے ہیں۔ کیا یہ ہماری مدد کرسکتا ہے۔ ڈاکٹر خالد نے کہا کہ بلا شبہہ سنگا پور کی ترقی حیرت انگیز ہے مگر سنگا پور میں سب اچھا نہیں ہے۔ وہاں تعلیم اور سرکاری شعبے کی کارکردگی کو بہتر بنانے پر ساری توجہ مرکو زکی گئی۔ سنگا پور کے ہر شہری پر لازم ہے کہ وہ اولاد کو سرکاری اسکو ل میں داخل کروائے۔نجی اسکول موجود ہیں مگر صرف غر ملکیوں کے لئے۔ حکومت نے سرکاری اسکولوں کا معیارا س قدر بلند کر دیا کہ کسی کو نجی اسکول کی طرف دیکھنے کی ضرورت ہی نہیں رہتی۔ پھر سرکاری افسر کو نجی شعبے کے مقابلے میں زیادہ مراعات دی گئی ہیں مگر اس پر کام کا بوجھ بھی لاد دیا گیا ور اگر کسی نے ذرا سستی یا کرپشن کا مظاہرہ کیا تو اسے کڑی سزا دی گی۔ ڈاکٹر خالد نے بتایا کہ ایک سرکاری افسر پر الزام تھا کہ اس نے کک بیکس لی ہیں ۔، اس کے خلاف فوری کاروائی کا حکم جاری ہوا۔ وہ اپنے بھائی کے گھر جا چھپاا ور وہاں سے پکڑا گیا تو سب سے پہلے ا سکے بھائی کو جیل میں ڈالاگیا کہ ایک قومی مجرم کو کیوں چھپائے رکھاا ور پھرا س سرکاری افسر کو تیرہ برس کی قید کی سزا ہوئی جس کی کوئی ضمانت نہ تھی۔ سنگا پور میں قانون کی حکمرانی ہے اور لوگ ڈرتے ہیں کہ رات کے دو بجے بھی اشارہ توڑا تو پولیس تعاقب کر کے بھاری جرمانہ کر دے گی۔ امریکہ میں بچپن ہی سے قانون کے احترام کا سبق دیا جاتا ہے اور وہاں کوئی شخص رات کے دو بجے سگنل نہیں توڑتا کیونکہ قانون کی پابندی ا سکی گھٹی میں پڑی ہوئی ہے۔ امریکہ میں کوئی شخص پولیس کے خوف سے قانون کااحترام نہیں کرتا۔ اب پاکستان میں دن دیہاڑے چوک میں اشارہ توڑ اجاتا ہے۔ چوک میں پولیس بھی موجود ہپے مگر کیا مجال کسی کوپکڑ دھکڑ ، جرمانے یا قانون کا کوئی ڈر خوف ہو۔ پاکستان میں اسی لاقانونیت اور لاڈلے پن نے ہمار اسار انظام بگاڑ کر رکھ دیا ہے۔
چین اور امریکہ کے مابین اسوقت ایک معاشی تصادم جاری ہے جس میں پاکستان معاشی میدان جنگ بنا ہوا ہے۔ سی پیک امریکہ کے لئے قابل قبول نہیں۔ گوادر کاکنٹرول بھی امریکہ کو قبول نہیں مگر اب چین اور پاکستان ان معاملات میں اس قدر آگے بڑھ گئے ہیں کہ امریکہ ان کو ریورس گیئر لگا نا بھی چاہے تو نہیں لگا سکتا، بس کوئی شیطانیاں کر سکتا ہے جیسا کہ پاکستان کے منہ سے سعودی عرب کو سی پیک کا تیسراپارٹنر بنانے کی بات نکلو دی ہے۔ ظاہر ہے چین کیسے گوارہ کرے گا کہ دوطرفہ معاہدے میں پاکستان ا ز خود کسی اور کو شامل کر لے ۔ یہ عملی طور پر ممکن ہی نہیں مگر بات تو ہو گئی اور چین کے دل میں وسوسہ ڈال دیا گیا۔ پاکستان کو جلد ہی ا حساس ہو گیا کہ اس سے گڑ بڑ ہو گئی ہے تو پاک سعودی مذاکرات کو اب دو طرفہ سرمایہ کاری کا نام دے دیا گیا،۔ ویسے ا س سلسلے میں کوئی بات ابھی طے نہیں ہوئی۔ ہم اپنے طور خیالی گھوڑے دوڑا رہے ہیں کہ چین گوادر میں ریفائینری قائم کر لے مگر جوملک اپنے ملک میں ریافائینری نہین لگا سکا وہ گوادر کے لئے ٹیکنالوجی کہاں سے لا سکے گا۔
میں نے آخری بات پوچھی کہ کیا سی پیک کے روٹ پر صنعتی زون بنائے جائیں گے۔ ڈاکٹر صاحب نے فرمایا کہ چین کا کہنا تو یہی ہے کہ وہ پاکستانی علاقے میں فیکٹریاں لگائے گا مگر خدشہ یہ ہے کہ چین ان کے لئے خام مال اور افرادی قوت اپنے ملک سے لائے گا۔ اس سے چین کو فائدہ تو ہو گا کہ اسے سمندر تک اپنا مال پہنچانے کے لئے بہت کم سفر کرنا پڑے گا مگر پاکستان کو سوائے راہداری کے کچھ نہیں مل سکتا۔اگر چین نے افریقی ممالک کی طرح یہاں بھی ایسی کالونیاں بنا لیں جن کا ہر قسم کا کنٹرول اسی کے پاس ہو اور یہ علاقے ہماری ریاستی رٹ سے باہر ہوں تو کئی پیچیدیگیاں جنم لے سکتی ہیں۔ پاکستان کو چین سے معاملات طے کرتے ہوئے دیکھنا ہو گا کہ وہ امریکہ کی جگہ چین کو تو نیا ماسٹر نہیں بنا رہا۔ یہ امر ہمارے لئے باعث فکر ہونا چاہئے۔ ہمیں ایک �آقا کی جگہ دوسرا آقا بنا لینے سے کیا حاصل ہوگ