خبرنامہ

پاکستان یوم سیاہ کے سائے میں .. اسد اللہ غالب

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

پاکستان یوم سیاہ کے سائے میں .. اسد اللہ غالب

قائد اعظم نے مشرقی سرحد پر روز افزاوں سمگلنگ پر وہاں متعین بریگیڈیئر ایوب خان کو ڈانٹ پلادی، بس یہی وہ تاریک لمحہ تھا جب ڈیرہ دون سے تربیت پانے والے اس فوجی صاحب بہادر نے دل میں گرہ باندھ لی کہ وہ اس ڈانٹ کا بدلہ پاکستان سے لے گا، اس نے اپنے دل ا ور دماغ میں ایک فرمان امروز کندہ کر لیا کہ جونہی موقع ملا وہ جمہوریت کا گلا گھونٹ دے گا۔اس فرمان امروز کی سیاہی نے اسی روز سے نو زائیدہ مملکت کو اپنی سیاہی کی لپیٹ میں لے لیا، یہ سیاہی اب تک قائد اعظم کے پاکستان پر محیط چلی آ رہی ہے۔
کبھی کسی جمہوری مملکت میں ایسا نہیں ہوا کہ کوئی آرمی چیف اپنی وردی سمیت سول کابینہ میں وزیر دفاع بن کر فرو کش ہو جائے مگر فیلڈ مارشل ایوب خاں نے یہ بھی معجزہ کر دکھایا اور ایک انہونی ہو گئی ، شاید اس کا ہیرو جنرل اتاترک تھا یا جنرل ڈیگال مگر ان دونوںنے اپنے ملک کی جنگ آزادی میں حصہ لیا تھا، ایوب خان کو تو ایک آ ٓزاد مملکت سونے کی طشتری میں رکھی مل گئی، اس نے یہ نہ سوچا کہ اس ملک کے قیام میں کتنے لاکھ شہیدوں کا لہو شامل ہے، کتنے مہاجروں کی ہڈیاں راستے ہی میں گل سڑ گئی تھیں۔ اور کتنے سیاسی لیڈروں اور کارکنوںنے کئی عشروں تک جدو جہد کے بعد یہ ملک اللہ سے ا نعام کے طور پر حاصل کیا تھا۔
میں پاکستان کے پہلے یوم سیاہ کی تاریخ نہیں بتا سکتا، آپ اٹھائیس اکتوبر انیس سو اٹھاون کہہ لیجئے یا سات اکتوبر انیس سو اٹھاون سمجھ لیجئے یا وہ تاریخ کسی ڈائری سے معلوم کر لیجئے جب ایوب خان نے آرمی چیف ہوتے ہوئے دھونس جمائی اور سول جمہوری کابینہ میں وردی سمیت وزیر دفاع کے طور پر براجمان ہو گیا، آپ کے نزدیک یوم سیاہ کی سنگین گھڑی تب آئی تھی جب چیف مارشل لاا یڈمنسٹریر ، فیلڈ مارشل ایوب خاں نے بانی پاکستان کی بہن محترمہ فاطمہ جناح کو صدارتی الیکشن میں شکست دی تھی۔ ایک یوم سیاہ تب آیا جب ختم نبوت کی تحریک کو دبانے کے لئے جنرل اعظم خان نے لاہور میں مارشل لا نافذ کیا، اس جرنیل نے مسجد شہید گنج کی تحریک کو دبانے کے لئے بھی مارشل لا ہی کا ڈنڈہ استعمال کیا تحریک ختم نبوت کے پروانوںنے جنرل اعظم خان کے مسلح کارندوں کی گولیوں کے سامنے اپنے کڑیل فراخ چوڑے سینے کھول دیئے تھے، اور اسی تحریک میں مفسر قرآن مولانا مودودی کو پھانسی کی سزا سنا دی گئی۔یہ ہوتی ہے سیاہی جب کوئی غیر جمہوری طاقت ملک کے سیاہ و سفید کی مالک بن جائے۔
ایوب خان کا مارشل لا ایک نئے رنگ ڈھنگ سے جلوہ فگن ہوا۔ اس نے سیاستدانوں کی سرگرمیوں پر پابندیاں عائد کر دیں اور اپنی کابینہ میں حاضر سروس فوجی جرنیل فائز کر دیئے۔ یہ وہ جرنیل تھے جن کے اولیں سربراہ نے قائد اعظم کا یہ حکم ماننے سے انکار کر دیا تھا کہ بھارت کی فوج سے کشمیر کو آزاد کروایا جائے۔ اس ا نکار کے نتیجے میں کشمیر بھارتی فوج کے چنگل میں چلا گیا اور پاکستانی جرنیلوںنے اپنے ہی ملک کو شکنجے میں کس لیا۔ادھر ہم ، ادھر تم کی یہ پہلی جھلک تھی۔
فیلڈ مارشل ایوب خاں نے معاشرے سے جمہوری اقدار کو ملیا میٹ کرنے کے لئے سو سو جتن کئے۔ بنیادی جمہورہت کانظام لا کر اپنی الگ اور پکی کانسٹی ٹیونسی پیدا کر لی۔ عام آدمی کے لئے معاشی مسائل بڑھا دیئے اور اپنا طرف دار صنعتی اور کاروباری طبقہ پیدا کرنے لے لئے ملک کو بائیس خاندانوں کی آماجگاہ بنا دیا۔
زوال کے آثار دیکھ کر ایوب خان نے اقتدار کی باگ ڈور جنرل یحی خان کے سپرد کر دی، یہ شخص جنرل کے سوا سب کچھ تھا۔پینسٹھ کی جنگ میں جب ہم کشمیر میں پیش قدمی کر رہے تھے تو اس محاذ کی کمان یحیٰی خان کو مل گئی اور ملک کا دفاع بھی خاک میں مل گیا۔ ہمارے بڑھتے ہوئے قدم رک گئے اور بھارت نے پورے ملک کی سرحد پر ہر محاذ سے پیش قدمی شروع کر دی، اس ہاری ہوئی جنگ کو ہمارے شاعروںنے اپنے ترانوں اور نغموں سے اور ہمارے گلو کاروںنے اپنی آواز کے جادو سے فتح میں تبدیل کر دیا مگر یحیٰی خاں نے اپنے دور سیاہ میں مشرقی صوبے پر چڑھائی کر دی جو پاکستان کے دو لخت ہونے پر منتج ہوئی، ایوب خان ابھی زندہ تھا، اسے ایک نرالی تسکین حاصل ہوئی کہ قائد اعظم کے پاکستان کو دو ٹکڑے ہوتے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا۔ یحیٰی خان نے ایک پاپ اور کمایا کہ اپنے ہی منعقد کردہ الیکشن کے نتائج کی رو سے اقتدار منقل کر نے سے انکار کر دیا، اس کے بعد سے اس ملک میںیا تو دھاندلی زدہ الیکشن ہوئے یا پھر انجینئرڈ الیکشن ہوئے یا ان کے نتائج کمپیوٹر میں مرتب ہونے لگے، پولنگ بوتھوں پر عوام کی ڈالی ہوئی پرچی کا تقدس خاک میں مل گیا کہ یہ کسی گنتی شمار میں نہ رہی،ضیاءالحق نے بھٹو کے الیکشن کو بوٹوں تلے روند ڈالا اور اس شخص کو پھانسی پر لٹکا ڈالا جس نے صرف پانچ سال پیشتر کلکتہ کے جنگی کیمپوں سے نوے ہزار جنگی قیدیوں کو رہائی دلوائی تھی اور ملک کو ناقابل تسخیر بنانے کے لئے ایٹمی پروگرام کی یہ کہہ کر بنیاد رکھی کہ گھاس کھائیں گے ، ایٹم بنائیں گے، ایٹم بم کا تحفہ دینے والے ا س مدبر سیاستدان کو رات کی تاریکی میں نوڈیرو کی ایک قبر میں اتار دیا گیا اور جنرل ضیا گیارہ سال تک اقتدار سے چمٹا رہا۔ وہ تو ایک ہوائی حادثے میںاس دنیا سے چلا گیا مگر اس کے جانشین فوجی سربراہوںنے حکومتوں کو طوائف کی طرح نچایا اور قوم کو تگنی کا ناچ نچوایا۔ اگلے دس برس تک چار حکومتیں آئیں اور چلی گئیں، کسی حکومت کو اپنی آئینی ٹرم مکمل نہ کرنے دی گئی اور پھر ایک اور جنرل نے اقتدار پر قبضہ کر لیا، یہ مشرف تھا ، یہ بھی گیارہ برس تک ہی اقتدار سے چمٹا رہا ، اس کو ایک احتساب عدالت نے طلب کیا مگر وہ فوجی ہسپتال میںجا چھپا اور پھر ایک اور آرمی چیف کی مدد سے ملک سے بھاگ گیا۔ آج سیاست دان احتساب کی زد میں ہیں ، طرفہ تماشہ ہے کہ سیاستدان حکومت میں ہیں اور انہیں عمران خان جیسا سابق کرکٹر قید میں ڈالنے کی دھمکیاں دیتا ہے، کبھی کہتا ہے کہ امپائر کی انگلی اٹھنے والی ہے۔ سیاستدان ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہیں ، کوئی کسی کو برداشت کر نے کے لئے تیار نہیں ، یہ باریک کام اس ملک کا پہلا ڈکٹیٹر ایوب خان کر گیا تھا اس نسخے کوہر فوجی ڈکٹیٹر نے کامیابی سے آزمایا، تقسیم کرو اور حکومت کرو۔ اب کون کس کوتقسیم کر رہا ہے اور کون حکومت کر رہا ہے، یہ یہ ایساراز ہے جسے ہر کوئی سمجھنے سے قاصر ہے۔ جب ملک پر تاریکی محیط ہو اور یہ چاروں اور چھا جائے تو پھر ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دیتا ، یہ کیسے معلوم ہو پائے گا کہ اسوقت حکومت میں کون
ہے اور احتساب کے کٹہرے میںکون ہے، ایوب خان نے سیاہی کی فصل کاشت کی، یہ فصل اب لہلہا رہی ہے، چاروں طرف سیاہی سی سیاہی ہے اور ایوب خان زندہ باد کے نعرے پشاوری ٹرکوں کے پیچھے چمک رہے ہیں۔ مگر قوم کی تقدیر سیاہیوں کی لپیٹ میں ہے۔ قائداعظم کے پاکستان میں جمہوریت بال کھولے رو رہی ہے۔ بین کر رہی ہے اور فریادی ہے کہ قائد یہ میرا حشر ایساکیوں ہوا، کس نے کیا، کس لئے کیا۔