خبرنامہ

پاک امریکہ قربت کے تقاضے….اسداللہ غالب

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

اس سلسلے میں دو خبریں میرے سامنے ہیں، ایک میں کہا گیا ہے کہ پاکستان اور امریکہ ہر معاملے میں لمحہ بہ لمحہ رابطہ رکھنے کی ضرورت کااحساس کر رہے ہیں۔ دوسری خبر ہے کہ امریکہ کو بتایا جائے گا کہ پاکستان میں کسی بھی دہشت گرد کے خلاف کاروائی صرف پاک فوج کرے گی، امریکہ صرف انٹیلی جنس معلومات فراہم کرے گا۔

دونوں خبروں میں کوئی تضاد نہیں بلکہ پاک امریکہ تعلقات کو واضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
پاک امریکہ تعلقات کبھی ایک جیسے نہیں رہے، جب امریکہ کو پاکستان کی ضرورت پڑی تو پاکستان اس کا لاڈلا بن گیا اور جب ضرورت پوری ہو گئی تو میںکون تو کون والی کیفیت پیدا ہو گئی ، مگر مجموعی طور پر دونوںملکوں کے باہمی تعلقات میں توازن ہی دیکھنے میں آیا۔
خارجہ تعلقات میں کوئی کسی کا مستقل لاڈلا نہیں ہوتا، ان کی بنیاد فریقین کی ضرورت پر رکھی جاتی ہے مگر جاپان اور ویت نام کو دیکھا جائے تو دونوں کے خلاف امریکی افواج نے قتل عام کیا اور دشمنی نبھانے کی انتہا کر دی مگر جاپان اور ویت نام نے امریکہ کو اپنا مستقل دشمن قرار نہیں دیا اور قربت کے رشتے استوار کرنے کی بھر پور کوشش کی ہے۔ایران اور امریکہ، شاہ کے دور میں ایک دوسرے کے انتہائی قریب تھے مگر انقلاب اسلامی کے بعد ایرانی عوام نے۔۔ مرگ بر امریکہ۔۔ کا نعرہ لگایا اور اسے شیطان بزرگ بھی کہا۔ مگر وقت کے ساتھ دونوں ملک ایک دوسرے کے قریب تر آ چکے ہیں۔یورپ کو دیکھ لیجئے کہ کس رغبت اور جوش کے ساتھ یورپی یونین بنائی مگر اب برطانیہ نے ایک ریفرنڈم کے ذریعے یورپی یونین سے الگ راستہ اختیار کر لیا ہے، یہ ایک لحاظ سے طلاق کے مترادف ہے۔ اگر ہم وسطی یورپ کے ملکوں کو دیکھیں تو یہ ہمیشہ سے جنگوں میں الجھے رہے ، آج اس قدر شیر و شکر ہیں کہ ان ملکوں کے درمیان سرحدوں کا کوئی وجود نہیں اور ایک ویزے پر انسان سبھی شینگن ملکوں کی سیرو سیاحت کر سکتا ہے۔ پاکستان اور بھارت ایک ہزار سال تک اکٹھے رہے مگر ایک وقت ایسا آیا جب مسلمانوں کو احساس ہو اکہ وہ اگر انگریز کے جانے کے بعد اکٹھے رہے تو ان کا وجود مٹ جائے گا، مذہب، تہذیب اور ثقافت تو متاثر ہوں گے ہی، کاروبارا ور صنعت کے میدان میں ہندو اکثریت انہیں پچھاڑ دے گی، اس سوچ کے نتیجے میں پاکستان معرض وجود میں آیا۔
امریکہ اور پاکستان کے باہمی تعلقات ان دنوں غیر یقینی کی صورت حال کا شکار ہیں اورا س کی وجہ بھی امریکی صدر ٹرمپ ہیں جن کی نہ کوئی خارجہ پالیسی واضح ہے، نہ داخلہ پالیسی، پاکستان کو بہر حال اسی ماحول میں کوئی آبرو مندانہ راستہ نکالنا ہے، دہشت گردی کے حوالے سے پاکستان واضح کر چکا ہے کہ اس نے افغان طالبان کو پناہ گاہیں نہیں فراہم کیں، اس کے لئے افغانستان کے وسیع علاقے طالبان کو میسر ہیں جن پر امریکی اور نیٹو افواج کاکوئی کنٹرول نہیں ۔ طالبان کی کاروائیوں کے لئے امریکہ اپنے آپ کو کوسے۔ پاکستان کو برا بھلا نہ کہے۔ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ پاکستان اپنا یہ موقف تسلیم کروا لے گا، باقی رہی دہشت گردی کی جنگ تو یہ پاکستان کا اپنا مفاد ہے کہ وہ دہشت گردوں کا قلع قمع کرے اوراس ضمن میں پاکستان نے کوئی کسر نہیں چھوڑی، ساٹھ ہزار افراد کی قربانیاں دیںجن میں چھ ہزار کے قریب اعلیٰ فوجی افسرا ور جوان بھی شامل ہیں۔ ضرب عضب کی دھوم ساری دنیا میںمچی اور اب آپریشن ردالفساد جاری ہے جس میں روزانہ ٹارگٹ کلرز کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
جہاں تک پاکستان کی اس خواہش کا سوال ہے کہ ہماری سرزمین پر امریکی افواج ہر گز کاروائی نہیں کر سکتیں تو اصولی طور پر یہ موقف درست ہے مگر عملی طور پر دیکھا جائے تو امریکہ نے عالمی سطح پر کسی ملک کے اقتدار اعلیٰ کا احترام نہیں کیا، اس کی افواج آج شام میں کاروائیاں کر رہی ہیں، یمن میں ڈرون حملے جاری ہیں اور پاکستان میں بھی ڈرون حملے کبھی ہمارے مطالبے یا خواہش پر بند نہیں ہوئے، حتی کہ اسامہ بن لادن کے سلسلے میں امریکہ نے باقاعدہ دھمکی دی کہ جس دن اس کی نشاندہی ہو گئی وہ پاکستان کو بتائے بغیر آپریشن کرے گاا ور یہ آپریشن اسی طرح ہوا، پاکستان اس کو نہیں روک سکا ، اب بھی صدر ٹرمپ کی پالیسی کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ پاکستان کو ا عتماد میں لئے بغیر اس کی سرزمین پر کارروائی کرے گا۔ سوال یہ ہے کہ پاکستان اس کو کیسے روک پائے گا، روکا تو جا سکتا ہے مگر تصادم کی صورت میں امریکہ پاکستان کو بھی لیبیا، عراق ،شام اور افغانستان بنا کے رکھ سکتا ہے، اس معاملے پر پاکستانی قوم کو بحث کرنی چاہئے ا ور پارلیمنٹ میں ایک کھلے مباحثے کے بعد کوئی پالیسی تشکیل دینی چاہئے، ویسے جس طرح سے ہمارے وفاقی وزراءنے واشنگٹن کے ساتھ شٹل ڈپلومیسی کا مظاہرہ کیا ہے، احسن اقبال اور خواجہ آصف نے وزیر اعظم کے دورے کے بعد بار بار امریکہ یاترا کی ہے اگر باہمی رابطے اسی طرح جاری رہیں، امریکی کمانڈرز اور حکومتی وزراءبھی پاکستان آ رہے ہیں اور ان سے دلیل کے ساتھ بات کی جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ پاکستان اپنا یہ مطالبہ نہ منوا سکے مگر پھر بھی امریکی رویئے کے بارے میں کوئی بھی پیش گوئی نہیں کی جا سکتی ۔
یہ امر طے شدہ ہے کہ امریکہ نے اگر افغان مسئلہ حل کرنا ہے تو پاکستان کے ساتھ اسے ہرحال میں مشاورت کرناہو گی۔ پاکستان نے افغانستان میں سوویت روس کے خلاف کامیاب جہاد کیا اور روس کو پارہ پارہ کر کے رکھ دیا۔ پچھلے پندرہ برس میں وار آن ٹیرر میں پاکستان اور امریکہ قریبی حلیف ہیں ۔ اور تو اور عالمی ڈپلومیسی میں چین کے ساتھ امریکہ کے روابط استوار کرنے میں بھی پاکستان نے کلیدی کردار ادا کیا۔ اس ماضی کے ساتھ توقع کی جا سکتی ہے کہ آئندہ کے شکو ک و شبہات پر قابو پانے میں کوئی مشکل پیش نہیں آئے گی۔ اور ایک ایسا درمیانی راستہ تلاش کیا جا سکتا ہے جو دونوں ملکوں کے لئے قابل قبول ہو گا۔