خبرنامہ

پاک بھارت بے مقصد اور بے نتیجہ آبی مذاکرات….اسداللہ غالب

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

عالمی سطح پر پانی کا ہفتہ منایا گیا۔ ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ اس طرح کے جو ہفتے اور دن منائے جاتے ہیں ،ان کی حیثیت محض رسمی اور خانہ پری کی سی ہوتی ہے۔
پاکستان اور بھارت نے بھی رواں ہفتے یہ رسم ادا کی اور بھارتی انڈس واٹڑ کمیشن کا ایک وفد پاکستان آیا جس نے پاکستان کے انڈس واٹر کمیشن سے مذکرات کئے اور یہ بے نتیجہ ختم ہو گئے۔ ان کے اختتام پر کوئی اعلامیہ جاری نہیںکیا گیا۔
مجھے نہیںمعلوم کہ جمعرات کو جی ایچ کیو میں سول ملٹری آٹھ گھنٹے کے طویل اجلاس میں بھارت کی آبی جارحیت پر بھی کوئی بات ہوئی یا نہیں جبکہ اس اجلاس کا مقصد ہی یہی ہونا چاہئے تھا۔ اب پاکستان ا ور بھارت کے درمیان پانی پت کے میدان میں نہیں بلکہ صرف پانی کے میدان میں جنگ ہو گی اورا س جنگ میں ابھی تک بھارت کاپلڑا بھاری ہے اور آئندہ بھی یہ بھاری دکھائی دیتا ہے کیومکہ ہم بحیثیت قوم غیر سنجیدہ واقع ہوئے ہیں اور ہم حقیقی خطرات کے سامنے شتر مرغ کی طرح آنکھیں بند کر لیتے ہیں۔
فوج میں کئی ڈویژن اور کئی کور شامل ہیں ، بر صغیر کے موجودہ سیکورٹی منظر نامے کے پیش نظر ایک کور ایسی بھی ہونی چاہئے جو بھارت کی آبی جارحیت کا توڑ تلاش کرسکے۔
پاکستان کو بھارت کی پہلی فوجی جارحیت سے سابقہ پڑنے سے قبل بھارت کی آبی جارحیت سے واسطہ پڑا تھا۔ اگر میرے ذہن میں واقعات کا سیکوئینس غلط ہو تو میں اس پر پیشگی معذرت چاہتا ہوں۔ میری دانست میں بھارت نے پاکستان قائم ہوتے ہی ضلع لاہور کو سیراب کرنے والی نہر بند کر دی تھی جس پرا س علاقے کے بڑے زمیںداروںنے سردار شوکت حیات کی سربراہی میں بھارتی وزیر اعظم پنڈت نہرو سے نئی دلی میں جا کر مذاکرات کئے اور اپنی دا دفریاد سنائی۔ پنڈت نہرو بڑے کایاں تھے ۔انہوںنے کہا کہ آپ کو ضروت کا پانی ملے گا مگرا س کی آپ کو قیمت ادا کرنا پڑے گی۔ لاہور کے جاگیر دار اپنے مفاد کی خاطر یہ معاملہ طے کر کے آ گئے،۔ انہیں سمجھ ہی نہ آ سکی کہ اس معاہدے نے دریائے راوی کے پانی پر بھارت کے مالکانہ حقوق پر مہر تصدیق ثبت کر دی تھی اور ہم نے بھارت کی بالادستی کو تسلیم کر لیا تھا۔ایوب خان کے دور میں ورلڈ بنک کے توسط سے پانی کا ایک معاہدہ دونوںملکوں کے مابین طے پایا جسے سندھ طاس معاہدے کا نام دیا گیا ہے۔ پاکستان نے بڑے ہی بھولپن کا مظاہرہ کیا ور ایک ایسے معاہدے پر دستخط کر دیئے جس کی نظیر دنیا بھر کی تاریخ میں نہیں ملتی کہ دو دریائوں کے پانی کو کلی طور پر بھارت کے حوالے کر دیا۔ یوں ستلج اور راوی کا پانی بھارت کو چلا گیا اور ہمارے پاس رہ گئے پنجاب کے دو دریا جہلم اور چناب۔ سندھ کا کوئی تعلق بھارت سے بنتا نہیں تھا ۔ اسلئے اس کا سو فیصد پانی پاکستان کو مل گیا مگر وقت گزرتا چلا گیا ، پاکستان اپنے مفادات سے بے خبر رہا ،ا س لئے بے خبر رہا کہ یہاں کوئی قومی قیادت نہیں تھی جوقومی مفادات کا خیال رکھتی۔یہ قومی قیادت ایبڈوہو چکی تھی۔ کبھی اسے پھانسی پر چڑھا دیا گیا۔ کبھی ا سے جلاوطن کر دیا گیا ا ور کبھی قلعوں اور سیف ہائوسوںمیں دھکیل دیا گیا اور کبھی سیدھی گولی مار کرٹھنڈا کر دیا گیا۔
پاکستان کے سندھ طا س کمیشن کے ایک سربراہ جماعت علی شاہ برس ہا برس تک اپنے عہدے سے چمٹے رہے اور شاید وہ بھارت کے تنخواہ دار تھے ،ا س لئے انہوںنے چناب اور جہلم کے پانی سے کھلواڑ پر بھارت سے کبھی احتجاج کی ضرورت ہی محسوس نہ کی۔
قائد اعظم نے کشمیر کو پاکستان کی اقتصادی شہہ رگ قرار دیا تھا۔ اس کی وجہ کشمیری شالیں نہیں تھی بلکہ کشمیر کے دو شالے تھے یعنی دو دریاجو بھارت کے تسلط میں چلے گئے تھے۔
میں یہ تحریر لکھتے ہوئے انجینیئر برکت علی لونا اور اقبال چیمہ کا شکر گزار ہوں اور ساتھ ہی واپڈا کے ایک سابق چیئر مین انجینئر شمس الملک کا بھی ممنون ہوں کہ ان کی راہنمائی مجھے میسر رہی اور پچھلے ایک برس میں میںنے درجنوں کالم صرف پانی کے مسئلے پر تحریر کئے۔ میں اپنے مرشد مجید نظامی کی تعلیمات کو بھی فراموش نہیں کر سکتا جنہوںنے بھارت کی آبی جارحیت کے سامنے مورچہ لگایا اور میں برادرم حافظ سعید کا بھی خوشہ چین رہا ہوں جو بھارت کی ہر قسم کی جارحیت کے سامنے سینہ سپر رہے اور انہوں نے ناقابل تلافی نقصانات بھی برداشت کئے۔واپڈا کے ایک اور سابق چیئر مین ظفر محمود نے بھی اپنی کرسی پر بیٹھ کر بھارت کی آبی جاحیت سے قوم کو باخبر رکھاا ور اپنے منصب سے ہاتھ بھی دھوئے۔ ا سلئے کہ سید خوشید شاہ ہاتھ دھو کر ان کے پیچھے پڑ گئے تھے۔
بھارت کے سلسلے میں نواز شریف اور شہباز شریف کی پالیسی سے تو قوم ڈسی ہوئی ہے۔ مگر عمران خان ا ور ان کی پارٹی اس مسئلے پر کیا رائے رکھتی ہے اور اسے کس انداز سے حل کرنے کی خواہاں ہے، ابھی تک مجھے اس کی بھنک نہیں پڑی۔نئے پاکستان اور ایک پاکستان کی سیکورٹی سے لے کر خوراک کی سیکورٹی تک کے جو تقاضے ہیں وہ پانی سے جڑے ہوئے ہیں اور یہ پانی بھارت نے روک رکھا ہے اور مستقبل میں وہ پورے کا پورا روکنے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاک بھارت حالیہ مذاکرات میں بھارتی وفد نے پاکستانی وفد کے کسی ا عتراض کو سننا گوارا نہیں کیا۔جس روز جی ایچ کیو میں نئے وزیر اعظم کو سیکورٹی پر طویل ترین بریفنگ دی گئی، اسی روز بھارت کی آبی جارحیت کو روکنے کے لئے پاکستان کوسخت ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ بھارتی وفد جیسے سیر سپاٹے پر آیا ہو،اس نے ہماری شکایات سنی ان سنی کر دیں۔
منصوبہ بندی کے سابق وفاقی وزیر احسن اقبال نے ایک بار کہا تھا کہ پاکستان دو ہزار چودہ میں ریگستان میں تبدیل ہو کر رہ جائے گا۔ یہ ایک وارننگ تھی جو اب حقیقت کا روپ دھارتے نظر آتی ہے اور خطرہ اس قدر واضح ہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان جن کا کوئی تعلق ملک کو درپیش بھارت کی آبی جارحیت سے نہیں بنتا ،وہ بھی اس مسئلے پر متحرک ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ کوشش تو ان کی یہی تھی کہ کالا باغ ڈیم بنایا جائے مگر وہی خورشید شاہ پھر میدا ن میں اترے اور انہوںنے متنبہ کیا کہ کالا باغ ڈیم ان کی لاشوں پر سے گزر کر ہی بن سکتا ہے۔ چیف جسٹس نے حالات کے تیور دیکھ کر مہمند اور بھاشہ ڈیم پر توجہ مرکوز کر لی اور ان کی تعمیر کے لئے ایک فنڈ قائم کر دیا۔فنڈ کی یہ اپیل صرف علامتی حیثیت رکھتی ہے ا ور ا س کاا صل مقصد پانی کے سنگین مسئلے کی طرف قوم کو متوجہ کراناہے۔ دو ڈیموں کی تعمیر کا منصوبہ قوم کے صدقات اور خیرات سے پروان نہیں چڑھ سکتا۔ اس کے لئے غیر ملکی فنڈنگ کی ضرورت ہے جو بھاشہ کے سلسلے میں ملنے کا کوئی امکان نہیں۔ عالمی مالیاتی ادارے بھارت ا ور امریکہ کی شہہ پر اس کی مالی مدد کے وعدوں سے مکر چکے ہیں۔بھاشہ سے خیبر پی کے کو ایک بوند پانی نہیں ملے گا ، صرف مہمند ڈیم اس صوبے کی کوئی مدد کر سکتا ہے مگر کالا باغ ڈیم ملک کے چاروں صوبوں کو سیراب بھی کر سکتا ہے اور اضافی بجلی بھی فراہم کر سکتا ہے مگر اسے بنائیں توکیوں کر بنائیں۔ بھارت ا ور اس کی لابی سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ بھارت نے چناب اور جہلم کے پانی پر بھی ہاتھ صاف کر لیا ہے اور رہ گیا پاکستان کے پاس ایک دریائے سندھ تو ا سکے پانی کو ذخیرہ کرنے میں بھارتی لابی بے حد سرگرم ہے۔ ا س لابی نے ملک کو اتنا بڑا نقصان پہنچایا ہے کہ دہشت گردوں نے مل کر بھی پچھلے تیس برس میں نہیں پہنچایا۔ ہم نے ان دہشت گردوں ، ان کے سہولت کاروں اور سرمایہ کاروں پر بھی بہت توجہ صرف کی مگر بھارت کی آبی دہشت گردی کے سہولت کاروں کوکھلی چھٹی ملی ہوئی ہے۔وہ کھل کھیلنے کے لئے آزاد ہیں۔
پاکستان میں پانی ختم ہو رہا ہے، راوی اور ستلج سوکھنے سے زیر زمین پانی کی سطح گر چکی ہے۔ ہمیں پینے کے لئے جو پانی مل رہا ہے وہ آلودہ ہے ا ورمعدے اور جگر کے عارضے کا باعث بن رہا ہے ، شاید ہر تیسری موت ہیپا ٹا ٹئٹس کے ہاتھوں واقع ہو رہی ہے۔ وزیر اعظم شجر کاری کرنا چاہتے ہیں تاکہ خشکی اور خشک سالی کا خاتمہ ہو ۔ چلئے ہم شجر کاری بھی کر لیتے ہیں اور بارشیں معمول سے زیادہ ہو جاتی ہیں تو ان کا پانی ذخیرہ کرنے کا منصوبہ کیا ہے۔ نہیں ہے تو بننا چاہئے اور کچھ لوگوں کو اپنی ہٹ دھرمی چھوڑنی چاہئے ، ان کی ہٹ دھرمی سے پاکستانی عوام پیاس کے مارے تڑپ رہے ہیں، بھارت چاہتا ہے کہ پاکستان پیاس سے تڑپ کر مر جائے اور پوار ملک قبرستان کا منظر پیش کرنے لگے۔ نعوذباللہ۔ اس کے مذموم منصوبے بڑے واضح ہیں مگر ہماری تیاری کیا ہے۔ اس پر قوم کو غور کرنے کی ضرورت ہے۔ پانی ہمیں سندھ طاس کمیشن کے بھارتی سربراہ نہیں دیں گے، اس کے لئے ہمیں خود تگ و دو کرنا ہو گی اور وہ بھی وقت ضائع کئے بغیر۔ عمران خان کی حکومت کی اولیں ترجیح یہی ہونی چاہئے۔