خبرنامہ

پاک فوج لانگ مارچ کے نشانے پر

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

پاک فوج لانگ مارچ کے نشانے پر

لانگ مارچ اسلام ا ٓباد میں پڑاؤ ڈالے بیٹھا ہے۔اس کاایک بڑا جلسہ ہو چکا ہے۔ اس میں بلاول اور مولانا کی تقریروں میں کھل کر پاک فوج کو تنقید اور تضحیک کا نشانہ بنایا گیا۔
بلاول نہیں جانتا کہ جس فوج کووہ برا بھلا کہہ رہا ہے، اسی کے نافذ کردہ ایک مارشل لا میں ان کے گریٹ ناناجان ذوالفقار علی بھٹو وزیر رہ چکے ہیں اور وہ ا س وقت کے چیف مارشل لاا یڈمنسٹریٹر ایوب خان کو ڈیڈی کے نام سے پکارتے تھے۔انہی نانا جان نے ایوب خان کے سامنے یہ تجویز رکھی تھی کہ سرکاری کنونشن لیگ کو فروغ دینے کے لئے ہر ضلع کے ڈپٹی کمشنر کو اس کا مقامی سربراہ بنا دیا جائے۔ بلاول کو یہ بھی پتہ ہونا چاہئے کہ اس کے نانا جان فیلڈ مارشل ایوب خان کے صدارتی الیکشن میں چیف پولنگ ایجنٹ تھے اور ان کی نگرانی میں بانی پاکستان حضرت قائد اعظم کی بہن محترمہ فاطمہ جناح کو شکست دلائی گئی تھی۔ اور بلاول یہ بھی بھول گئے کہ دنیا میں آج تک کوئی جمہوری سول سیاست دان چیف مارشل لاایڈمنسٹریٹر نہیں بنا مگر ان کے محترم نانا جان ذوالفقار علی بھٹو کو یہ اعزاز بھی حاصل ہوا اور بلاول تاریخ کی کسی کتاب میں پڑھ لیتے کہ اس کے نانا جان نے اسی آرمی چیف جنرل گل حسن کو دھوکے سے دبوچ کر استعفیٰ لیا جس نے انہیں اقتدار پر بٹھایا تھا مگر ان کی جگہ جس جنرل ٹکا خاں کو آرمی چیف بنایا گیا، اسے ریٹائر ہونے کے بعد لاہور میں گورنر بھی بنایاگیا اور پی پی پی کا سیکرٹری جنرل بھی۔ کیا بلاول نہیں جانتے کہ ٹکا خان پر ان نوازشات کی بارش کیوں کی گئی۔ اس کی کوئی اورو جہ نہیں سوائے ا س کے کہ جنرل ٹکا خان نے مشرقی پاکستان کے عوام کے خلاف وہ فوجی ایکشن کیا تھا جس کے لئے صاحبزادہ یعقوب علی خان تیار نہ تھے اور جس کے خلاف احتجاج کے طور پر مشرقی صوبے کے گورنر اور پاکستان کے پہلے ایڈ مرل احسن نے استعفیٰ دے دیا تھا۔ اگر یہ آپریشن نہ ہوتا تو پاکستان متحد رہتا اور اس کے وزیر اعظم بھٹو کے بجائے شیخ مجیب ہوتے اور ادھر ہم ادھر تم کی تھیوری پر کبھی عمل نہ ہو پاتا۔ بلاول صاحب! دامن کو ذرا دیکھ ذرا بند قبا دیکھ اور بلاول صاحب آپ کی امی جان نے ایک ا ٓرمی چیف جنرل اسلم بیگ کو تمغہ جمہوریت بھی عطا کیا تھا، ایسا تمغہ دنیا کے کسی ملک میں نہیں دیاجاتا۔ پاکستان میں بھی نہ پہلے تھا۔ نہ بعد میں کسی کو دیا گیا۔ اور بلاول کو یہ بھی پتہ نہیں کہ پاکستان کے طول وعرض میں کتنے پولنگ اسٹیشن ایسے ہیں جنہیں سول انتظامیہ اور الیکشن کمیشن حساس قرار دیتے رہے ہیں اور جہاں الیکشن کمیشن کی طلبی پر فوج ہمیشہ سے الیکشن ڈیوٹی دیتی رہی ہے۔ اور ایسے علاقے سندھ میں بھی ہیں۔
مولانا نے بھی اپنی تقریر میں فوج کو للکارا۔ آرمی چیف سے ملاقات کے حوالے سے ان کی ایک ویڈیو پہلے بھی وائرل ہو چکی ہے جس میں انہوں نے دھمکی دی ہے کہ فوج نے مارشل لا لگانے کی کوشش کی تو لانگ مارچ ان کے خلاف رخ کرلے گا۔ یہی باتیں مولانا نے لانگ مارچ کی تقریر میں دہرائیں اور انتہائی زہریلے لہجے میں۔ انہوں نے کہا تو یہی کہ وہ فوج کاا حترام کرتے ہیں اور اسے غیر جانبدار دیکھنا چاہتے ہیں عوام کو احساس ہے کہ موجودہ حکومت کو یہی فوج طاقت مہیا کرر ہی ہے۔ مولانا نے کچھ باتیں فوج کا نام لیے بغیر اداروں کے حوالے سے کیں اور خاص طور پر کہا کہ ایک ادارہ۔ اس پر آئی ایس پی آر کے سربراہ کو فوری وضاحت کرنا پڑی کہ فوج ایک غیر جانبدارادارہ ہے اور منتخب حکومت کے تابع ہے۔ اور اس کے ساتھ کھڑا ہے۔ اصل میں عمران خان کئی بار کہہ چکے ہیں کہ حکومت اور فوج ایک پیج پر ہیں۔ یہ بات اپوزیشن کے دل میں کانٹا بن کے کھٹکتی ہے لیکن یہی فوج اگر حکومت کے خلاف چل رہی ہو تو بھی سیاست دانوں کے دل میں کھٹکتی ہے۔ فوج ایک ریاستی ادارہ ہے جیسے ڈاکٹر اور بیورو کریٹ ریاستی اداروں میں کام کرتے ہیں۔ آئینی طور پر یہ سب غیر جانبدار ہیں اور بلا تمیز عوام کی خدمت کرتے ہیں۔فوج نے کبھی یہ نہیں کیا کہ اس نے پورے ملک کا دفاع نہ کیا ہو اور یہ کہا ہو کہ فلاں صوبے کی حکومت تو اسے پسند نہیں، اس لئے وہ اس کا دفاع نہیں کرے گی۔ فوج سے اگر کوئی غیر جانبداری چاہتا ہے تو وہ یہی غیر جانبداری ہو گی کہ فوج ملک کے چپے چپے کی حفاظت کے لئے جان لڑا دے اور فوج یہی مقدس فریضہ ادا کرر ہی ہے۔
مولانا کوپرویز مشرف سے ا قتدار مل جائے تو فوج ان کو اچھی لگتی ہے اور اگرا ٓزادانہ الیکشن میں عوام کی طرف سے مولانا کو ووٹ نہ ملیں تووہ فوج کو رگیدنے لگ جاتے ہیں۔ یہی کچھ اکرم درانی نے اپنی بریفنگ میں کیا جوپرویز مشرف دور میں پانچ سال تک صوبہ سرحد میں ایم ایم اے کی حکومت کے وزیر اعلیٰ رہے۔ تب فوج انہیں اچھی لگتی تھی۔
فوج کا مخالف کون ہے۔ فوج کا دشمن کون ہے۔ ایک تو بھارت ہے جو کئی بار پاکستان کو تختہ مشق بنا چکا ہے اور اکہتر میں اس نے پاکستان کو دو ٹکڑے بھی کر دیا۔ اب بھی بھارت بقیہ پاکستان کے حصے بخرے کرنے پر تلا ہوا ہے۔ کل بھوشن اس کا زندہ ثبوت ہے۔ کنٹرول لائن پر آئے روز کی فائرنگ اور گولہ باری بھی ا سکا بین ثبوت ہے۔ کشمیر کو ایک وسیع جیل میں بدل دینا بھی اس کا بڑا ثبوت ہے۔پاک فوج بھارتی مذموم عزائم کے سامنے حصار بنی ہوئی ہے اور جانوں کا نذرانہ دے کر بیس کروڑ عوام کا بلا تمیز رنگ و نسل اور سیاسی نظریات،حفاظت کرتی ہے۔ فوج کا ایک دشمن اسرائیل ہے جو بھارت کی پشت پناہی کرتا ہے اور اس کے جنگی جہاز کئی بار پاکستان پر وار کرنے کی ناکام کوشش کر چکے ہیں۔ پاکستان کے دشمنوں نے افغانستان میں بھی پڑاؤ کررکھا ہے۔ ان میں امریکہ ہے اور نیٹو کے بیس بائیس ممالک کی فوج بھی۔ وہ پاکستان کو ڈرون سے نشانہ بناتے رہے۔ سلالہ پر حملہ کرتے رہے۔ ڈمہ ڈولہ میں خون بہاتے رہے ا ور بالا ٓخر ایبٹ آباد پر یلغار کر کے انہوں نے پاکستان کے اقتدار اعلی کو روندا۔ فوج یہ چو مکھی لڑائی لڑ رہی ہے اور بڑی کامیابی سے لڑ رہی ہے۔ دنیا کی کوئی فوج دہشت گردی کا قلع قمع نہیں کر سکی، یہ کریڈٹ صرف پاک فوج کوحاصل ہوا ہے۔
کیا ان حالات میں ملکی سیاست دانوں کو یہ زیب دیتا ہے کہ وہ اپنا وزن پاک فوج کے دشمنوں کے پلڑے میں ڈالیں۔ اور پاک فوج کی ان قربانیوں کو بھول جائیں جو میجر عزیز بھٹی سے لے کر حوالدارلالک جان تک اور پائلٹ افسرراشد منہاس سے لے کر گروپ کیپٹن سیسل چودھری ا ور اسکواڈرن لیڈر سرفراز رفیقی تک۔ پاک فوج کو سلیمانکی سیکٹر میں ایک بھارتی میجر نے لکارا تھا اور میجر شبیر شریف نے مورچے سے نکل کر اسے دبوچ لیا تھا۔ اوراسی کی گن سے اس کاسینہ چھلنی کر دیا تھا۔ پاک فوج کو قیصر ہند پر للکارا گیا، دہلی میں للکارا گیا۔چونڈہ میں للکارا گیا اور سیاچین کے بلند ترین محاذ جنگ پر للکارا گیا۔ پاک فوج اس للکار کا جواب تو دے سکتی ہے مگر مولانا جب پاک فوج کو للکارتے ہیں تو وہ جان لیں کہ پاک فوج کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں۔ وہ اپنے عوام کے مقابل نہیں کھڑی ہو سکتی، اس لئے مولانا کا بھی فرض بنتا ہے کہ وہ سیاسی لڑائی میں پا ک فوج کو گھسیٹنے کی مذموم کوشش نہ کریں۔اور سیاسی نابالغ بلاول پہلے اپنے اجداد کے کردارپر تو نظر ڈال لے، یہ کردار لائق فخر نہیں ہے اوراس کردار کے ہوتے ہوئے وہ پاک فوج کے خلاف منہ کھولنے کی جسارت کیسے کر رہا ہے۔
شہباز شریف تو خود کلیئر نہیں ہیں کہ انہیں کیا بولنا ہے۔ اس لئے بھی کہ ان کی پارٹی سیاست چوبرجی کے ایک ریٹائرڈ بریگیڈیئر قیوم اورجنرل جیلانی ا ور جنرل حمید گل کی مرہون منت ہے۔ اور ساری دنیا کے سامنے جنرل ضیا الحق نے کہا تھا کہ ان کی عمر بھی نواز شریف کو مل جائے۔
مجھے پاک فوج سے پیار ہے۔ عشق ہے اور اس عشق میں مجھے جنرل ٹائیگر نیازی سے بھی کوئی بیر نہیں جس نے پلٹن میدان میں ہتھیار ڈالے۔ میں تو اپنی ہونڈا ون سیون فائیو پر انہیں لاہورکی سڑکوں پر گھمایا کرتا تھا۔ اس لئے میں پاک فوج کی تضحیک برداشت نہیں کر سکتا۔