خبرنامہ

پلی بارگین،چودھری نثار کی بڑی کامیابی۔۔اسداللہ غالب۔۔۔انداز جہاں

بسم اللہ
چودھری نثار عام حکومتی افراد سے الگ شخصیت اور کردار کے مالک ہیں۔کھری بات کرتے ہیں اور شاید برائی ان کی برداشت سے باہر ہے۔
پچھلے دنوں انہوں نے دیکھا کہ نیب کے اندر بہت بڑا گھپلا ہو گیا ہے ا ور بلوچستان کے ایک سیکرٹری سے تھوڑی سی رقم وصول کرکے اس کی خلاصی کر دی گئی ہے۔اس پر چودھری نثار نے سخت الفاظ میں احتجاج کیا اور ان کے موقف کی تائید کرتے ہوئے پنجاب کے چیف منسٹر میاں شہباز شریف نے بھی کہا کہ نیب کا بلی گین کاقانون،ایک فراڈ کے مترادف ہے۔
اس پر ھکومتی سطح پر ہل چل تو ہوئی ہے مگر ظاہر ہے کہ ملک میں کرپٹ مافیابے حد مؤثر ہے، اس لئے اس پلی گین کے قانون کو مکمل طور پر تو ختم نہیں کیا جاسکا بلکہ ایک فوجی ڈکٹیٹر مشرف کے بنائے ہوئے قانون میں دو ترامیم کر کے سودے بازی کے راستے کو کھلا رکھا گیا ہے، صرف تبدیلی یہ کی گئی ہے کہ نیب چیئر مین کے بجائے اب عدالت پلی بارگین یا رضاکارانہ رقم کی واپسی کا فیصلہ کر نے کی مجاز ہو گی، دوسری ترمیم یہ ہے کہ پلی بارگین کرنے والا پہلے صرف دس سال کیلئے نااہل کیاجاتاتھا،آئندہ وہ ساری عمر کے لئے نااہل ہو جائیگا۔
سوال یہ ہے کہ جو کام نیب چیئر مین کرتا تھا، اگر وہ فراڈ تھا تو اب عدلیہ کواس فراڈمیں کیوں شریک کیا جا رہا ہے، دوسرے نااہلی دس سال کیلئے ہو یا عمر بھر کیلئے، جب کسی کے پاس اربوں کی لوٹ کھسوٹ کی دولت جمع ہو چکی تو اسے سرکاری چاکری کرنے یا پارلیمنٹ کے دنگل میں اترنے کی ضرورت کیا باقی رہ گئی۔ اسے تو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے آزادی مل گئی کہ وہ اپنی ناجائزکمائی کو جائز قرار دلوا کر اس سے گل چھڑے اڑائے اور عمر بھر موج میلہ کرتا رہے۔
نیب کے چیئر مین کی طرف سے ایک بودی دلیل یہ دی گئی ہے کہ پلی بارگین کا قانون باقی دنیا میں بھی رائج ہے۔مگر نیب چیئر مین سے پوچھاجائے کہ باقی دنیا میں خنزیر کھانا جائز ہے، شراب پینا جائز ہے اوربھی کھل کھیلنے کی کئی آزادیاں میسر ہیں تو پھر ہم ان سب کو اپنے ملک میں بھی کیوں جائز قرار نہیں دیتے۔ باقی دنیا ا سلام ہی کو نہیں مانتی تو کیا ہم یہ کھلی چھٹی دے سکتے ہیں کہ ہمارا کوئی شہری اسلام کو چھوڑ کر کوئی اور مذہب اپنا لے یا لا دین اور دہریہ ہو جائے۔
نیب کی طرف سے یہ بھی دعویٰ کیا گیا کہ انہیں پلی بارگین یا رقم کی وصولی سے کوئی کمیشن نہیں ملتا، جبکہ عام آدمی یہی سمجھتا ہے کہ ایک کمیشن تو قانونی طورپرملتا ہی ہے اوردوسرا کمیشن اندر کھاتے سودے بازی کے ذریعے وصول کیا جاتا ہے۔موٹر وے پولیس کی فرض شناسی کی بہت مثالیں دی جاتی ہیں مگر آج موٹر وے پولیس کے چالانوں پر کمیشن ختم کر دیا جائے تو یہ چالان آدھے بھی نہیں رہ جائیں گے، یہ کمیشن کاہی لالچ ہے کہ موٹر وے پر چالان کرنا دین ایمان کا حصہ بنالیاگیاہے اور ایک ڈرائیور کا ایک ہی سفر میں کئی بار بھی چالان کر دیا جاتا ہے۔شہروں میں وارڈن مقرر کئے گئے تو انہیں بھی چالانوں کی رقم سے کمیشن دینے کا فیصلہ ہوا تھا، ایک تو انکی تنخواہیں عام ٹریفک پولیس سے زیادہ ، اوپر سے کمیشن خوری کا لالچ، اس سے رکشے ، چنگ چی اور موٹر سائیکل سواروں کی زندگی عذاب بنا دی گئی ہے۔اور ہر چوک میں دھڑا دھڑ چالان کئے جا رہے ہیں ، ٹریفک کو کنٹرول کرنے کے لئے کوئی شرطا چوک میں تو کھڑا نہیں ہوتا مگر چوک سے ذرا آگے وہ گھات لگا کر چالان کاٹنے کیلئے ضرور کھڑا ہوتا ہے۔
پلی بارگین کیخلاف تو کئی لوگ بولے اور اب اس کے جواز کیلئے ایک اور راستہ کھول دیا گیا ہے ،مگر ذرا غور کیجئے کہ جو قرضے صنعتکاروں اور کاروباری حضرات نے ہڑپ کئے اور بنکوں کے ساتھ ملی بھگت یا حکومت کی مہربانی سے معاف کر ا لئے گئے ، وہ کرپشن کی لوٹ کھسوٹ سے کئی لاکھ گنا زیادہ ہیں مگر قرض خور مافیا ایک کام بند کرتا ہے اور دوسرے کیلئے نیا قرض لے لیتا ہے اور معاشرے میں دندناتا پھرتا ہے۔ اور معزز بھی کہلاتا ہے۔اسے ایلیٹ کلاس میں شمار کیا جاتا ہے۔
کوئی شخص کیلکو لیٹر پکڑے اور معاف کئے گئے قرضوں کی رقم جمع کرے جو صنعتکاروں کے پیٹ میں لکڑ ہضم پتھر ہضم کی طرح ڈکار لی گئی تو پلی بارگین کی مجموعی رقم اس کے مقابلے میں ایک ذرے کی حیثیت نہیں رکھتی۔
اب آیئے این آرا و کی طرف ‘جسے چیف جسٹس افتخار چودھری وائدڈ ایب نشو قرار دے چکے ،مگر اس این آرا و کا جس نے فائدہ اٹھانا تھا، وہ تو اٹھا لیا گیا اور جو دولت سوئس بنکوں میں پڑی تھی یا اس سے بیرونی ملکوں میں قیمتی جائیدادیں خرید لی گئی تھیں ، وہ تو ملک اورا س کے عوام کو واپس نہیں ملیں۔ این آر او، سے بہرہ مندہونیو الے اس ملک میں اکڑے پھرتے ہیں، الیکشن بھی لڑتے ہیں، ان پر کسی نے پابندی بھی نہیں لگائی اور ا س ملک پر حکومت بھی کر چکے ہیں، انکے مقدمات اگر نئے سرے سے کھل بھی گئے تو عدالتوں میں فیصلوں کیلئے کئی نسلوں کو انتظار کرناہو گا۔ تو وائڈ ایب نیشو کرنیکا فائدہ کیا ہوا، بالکل صفر۔
اور یہ جو سیاستدان ہیں‘ ان پر اگر کوئی کرپشن کا الزام آجائے تو وہ دہائی مچا دیتے ہیں کہ انہیں سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، زرداری کو گیارہ سال تک عدالتوں میں گھسیٹا گیا، دفاع ایک ہی تھا کہ یہ سب سیاسی انتقام کا شاخسانہ ہے۔
اور ایک کام جنرل ضیا نے شروع کیا تھا کہ اپنی کانسٹی چیونسی وسیع اور مستحکم کرنے کیلئے ارکان پارلیمنٹ کو ترقیاتی فنڈ جاری کرنے کی رسم ڈالی اور دھڑلے سے کہا کہ اس رقم سے ارکان پارلیمنٹ اپنے کلے مضبوط کریں، جنرل ضیا کے بعد ہر حکومت نے یہ کلہ فنڈ نہ صرف جاری رکھا بلکہ اس میں بے تحاشا اضافہ بھی کیا جاتا رہا، کیا ہم پوچھ سکتے ہیں کہ باقی دنیا میں تو یہ کلہ فنڈ نہیں ہے، پاکستان میں کس خوشی میں ہے، حقیقت یہ ہے کہ اس کلہ فنڈ سے ارکان پارلیمنٹ کو اپنے حلقوں میں خدائی درجہ دے دیا گیا ہے۔ جن پولنگ اسٹیشنوں سے انہیں کم ووٹ ملتے ہیں، ان کو پسماندہ رکھا جاتا ہے، نہ کوئی اسکول، نہ ہسپتال، نہ سڑک، نہ روزگار۔
اور اپنے پسندیدہ لوگوں کیلئے ہر قسم کی مراعات، یہ حساب کرنے والاکوئی نہیں کہ اس کلہ فنڈ کا کتنا حصہ ٹھیکیداروں کو ایک ہاتھ سے دے کر دوسرے ہاتھ سے لے لیا جاتا ہے۔
چودھری نثارا ور میاں شہباز شریف کسی لحاظ سے کم طاقتور نہیں کہ کرپٹ مافیا کے سامنے سرنڈر کر جائیں،ان کا فرض ہے کہ وہ اپنے کہے پر عمل کرائیں، سول سوسائٹی جو کرپشن کی لعنت کو قبول کرنے کو تیار نہیں ، وہ چودھری نثار کے ساتھ ہے، انہیں اپنی جدو جہد جاری رکھنی چاہئے اور پلی بارگین سے معافی تلافی کی راہ بند کر دینی چاہئے، یہ ان کا پاکستان پر احسان عظیم ہو گا۔
چکری کے راجے کبھی پیچھے تو نہیں ہٹے تھے۔