خبرنامہ

پنجاب کا تاریخ ساز فلاحی بجٹ .. اسد اللہ غالب

پنجاب کے موجودہ بجٹ کو تاریخ ساز بنانے کے لئے یہی کافی ہے کہ اس میں تعلیم جیسے اہم ترین شعبے کے لئے 345 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ کئی برس قبل میںنے کالم نویسوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کر نے کی کوشش کی، اس میں ہمارے دوست حسن نثار نے تجویز دی کے ہم ایک نکتے پر اپنے آپ کو مرکوز رکھیں کہ ملک میں تعلیم کا بجٹ ترقی یافتہ قوموں کی شرح کے برابر لایا جائے۔ رمضان کے شروع میں ڈاکٹر امجد ثاقب اور بعد میں ان کی ٹیم میرے پاس آئی تو میںنے انہیں یہی نکتہ یاد دلایا کہ ہو سکے تو وہ خادم اعلیٰ سے صوبے کے بجٹ میں تعلیم کے لئے بھاری رقم مختص کروائیں۔ اب بجٹ سا منے ا ٓیا ہے تو کسی حد تک میری یہ آرزو پوری ہو گئی ہے مگر خواہش اب بھی میری یہی ہے کہ سیکرٹری تعلیم کے پاس سیکرٹری مواصلات سے دگنا بجٹ ہو۔ بہر حال یہ سال گزشتہ کے مختص کردہ فنڈز سے تقریباً 33ارب روپے زیادہ ہے۔ اس اقدام سے کم از کم اس امر کی نفی ہوتی ہے کہ پنجاب میں تعلیم کو اہمیت نہیں دی جا رہی۔ گزشتہ کئی ماہ سے اساتذہ سڑکوں پر نہیں آئے تو اس کا بھی کریڈٹ صوبائی حکومت کو جاتا ہے کیونکہ اگر استاد مطمئن ہے تو اس کامطلب یہی ہے کہ وہ یکسو ہو کر علم کی شمع روشن کر رہا ہے اور اسے کسی قسم کا فکر و فاقہ نہیں ہے۔سکولوں میں بچوں کے داخلوں کی شرح میں بھی نمایاں اضافہ ہوا ہے اور آئندہ سال کے لئے بھی بجٹ میں اس مد میں بڑی رقم مختص کی گئی ہے۔ وزیراعلیٰ کو ہم کافی عرصہ سے مزدور بچوں کو سکول بھجوانے کے لئے ایکشن کرتے دیکھ رہے ہیں، ان کا ہیلی کاپٹر اڑتے اڑتے اچانک کسی اینٹوں کے بھٹے کے قریب اتر جاتا ہے اور وہاں وہ چھوٹے بچوں کو اینٹ بناتے دیکھ کر آبدیدہ اور فکرمند بھی ہوتے رہے ہیں۔ انہوں نے خصوصی مہم کے ذریعے کم عمر بچوں کو مزدوری سے ہٹا کر سکول داخل کرنے کے لئے جو کاوشیں کیں انہی کا ثمر ہے کہ آج غربت کی چکی میں پسے یہ بچے یونیفارم پہنے سکولوں میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں جس کا وہ کبھی خواب میں بھی تصور نہیں کر سکتے تھے کیونکہ بھٹہ مالکان نے پورے خاندان کو چند ہزار میں گروی رکھاہوتا ہے اور اس کے چنگل سے چھڑا کر ایسے خاندان کے بچوں کو سکولوں میں داخل کرانا آسان نہ تھا۔
اس بجٹ کا دوسرا نمایاں پہلو جنوبی پنجاب کو اس کے حقوق دینا ہے۔یہ تنقید کی جاتی رہی کہ شاید جنوبی پنجاب کا بجٹ لاہور جیسے شہروں میں لگ رہا ہے۔ یہ تنقید بھی سراسر غلط تھی۔ آپ جدید ترین ممالک میں بھی چلے جائیں تو بڑے شہروں پر لا محالہ زیادہ سرمایہ کاری ہوتی ہے، انڈر گرائونڈ ٹرینیں بھی دو چار بڑے شہروں میں چلتی ہیں، جس طرح کی اہمیت اور چمک لندن کو حاصل ہے ویسی برطانیہ کے کسی اور شہر کو حاصل نہیں تو کیا ہم یہ سمجھ لیں کہ برطانیہ کے دیگر شہروں کے ساتھ زیادتی ہو رہی ہے۔ جس طرح لندن برطانیہ کا تجارتی، ثقافتی اور سیاحتی
مرکز ہے اور پوری دنیا کی نگاہوں کا مرکز ہے اسی طرح لاہور بھی پاکستان میں ایسی ہی اہمیت اور مقام رکھتا ہے۔ میٹرو بس منصوبے پر ہم سب تنقید کرتے رہے لیکن آج روزانہ لاکھوں لوگوں کو اس میں باعزت سفر کرتے دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ ہم غلط تھے۔کبھی اس کو جنگلہ بس کا نام دیا گیا تو کبھی کسی اور طرح اس پر تیر برسائے گئے۔ اب اورنج ٹرین بن رہی ہے تو اس پر اس طرح تنقید نہیں ہو رہی کیونکہ اورنج ٹرین بھی غریب اور درمیانے طبقے کی ضرورت بنے گی۔ منٹوں میں لاکھوں لوگ شہر کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک جا سکیں گے۔ اس مرتبہ بجٹ میں جنوبی پنجاب کا بجٹ زیادہ رکھا گیا ہے اور صاف پانی، تعلیم، صحت کی مد میں زیادہ رقم رکھی گئی ہے اور کسان پیکیج سے چھوٹے کسان کو زیادہ مراعات دی جا رہی ہیں۔
گزشتہ روز صوبائی فنانس منسٹر عائشہ غوث پاشا نے پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس میں بتایا کہ بجٹ میں دیہات میں رورل سالڈ ویسٹ مینجمنٹ پروگرام شروع کیا جا رہا ہے جس کے تحت دیہات کو گندگی سے پاک کرنے اور شہروں کی طرح صاف رکھنے کا منصوبہ شروع کیا جائے گا۔ دیہات کے لوگوں کو اس سے قبل تیسری دنیا کی مخلوق سمجھا جاتا تھا۔ ہم بھی دیہات میں پلے بڑھے ہیں، شہروں کے انتہائی قریب ہوتے بھی شہر اور گائوں کی زندگی میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ یہ فرق دیہات کے باشندوں میں احساس کمتری پیدا کرتا ہے۔ شہر کا کوئی بابو گائوں چلا جائے تو ناک پر رومال رکھ لیتا ہے اور لوگوں سے یوں ملتا ہے جیسے دیہات کے لوگوں کو اچھوت کی بیماری ہو۔ وزیراعلیٰ شہباز شریف کو چاہیے وہ دیہات کو ماڈل دیہات بنائیں کیونکہ شہروں میں جو سبزی ترکاری جاتی ہے وہ یہیں کاشت ہوتی ہے۔ دیہاتی شہریوں کا پیٹ بھرتے ہیں لیکن خود ان کے پیٹ خالی رہتے ہیں۔ وہ خود صاف کپڑوں، صاف پانی، بجلی اور ضروریات زندگی سے محروم رہتے ہیں۔ اس پروگرام کا دائرہ کار صرف صفائی سے آگے بھی بڑھا نا چاہیے اور بنیادی حقوق بھی اس میں شامل کئے جانے چاہئیں۔
یہ ٹیکنالوجی کا دور ہے۔ہم نے بہت سے صوبائی محکموں کو ٹیکنالوجی پر اپ گریڈ ہوتے دیکھا ہے۔اب تو موبائل فون کی ایپس سے بجلی کے بلوں کی معلومات سے لے کر گاڑیوں کی رجسٹریشن، لائسنس اور ٹیکس وغیرہ تک کی تمام معلومات گھر بیٹھے پلک جھپکتے میں مل جاتی ہیں۔ ای روزگار پروگرام کا اشتہار میں نے چند ہفتوں قبل دیکھا تھا جس کے ذریعے انٹرنیٹ سے پیسے کمانے کے کورس بھی کرائے جا رہے ہیں اور لوگ گھر بیٹھے پچاس ہزارسے ایک لاکھ روپے کما سکتے ہیں۔ اس بجٹ میں بھی ای بجٹ کا دائرہ بھی وسیع کیا جا رہا ہے اور ای بجٹ مراکز کو بڑھایا جا رہا ہے۔
پنجاب کے تاجروں اور لاہور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری نے بھی پنجاب بجٹ کو متوازن اور ترقیاتی بجٹ قرار دیاہے جو اس امر کا ثبوت ہے کہ صنعتی سرگرمیوں میں بہتری آئی ہے جبکہ زرعی شعبہ کی پیداوار میں اضافہ کا سب سے بڑا معاون صوبہ پنجاب ہے جو ساٹھ فیصد زرعی معیشت کا حامل ہے۔ تاہم صوبہ پنجاب میں کاروبار کی لاگت کم کرنے اور پالیسیوں میں تسلسل لانے کی ضرورت ہے۔صوبائی حکومت ملک کی ریڑھ کی ہڈی کو جتنا مضبوط کرے گی اتنا ہی سب کا فائدہ ہے۔ پنجاب میں پچاس ارب روپے کے زرعی پیکیج اور رواں اور آنے والے سال کے دوران زرعی شعبہ کے لئے 100ارب روپے کے پیکیج سے زرعی پیداوار میں اضافہ ہوا ہے جس کا کریڈٹ وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کی کوششوں کو جاتا ہے۔ ایک اور اہم نکتہ یہ ہے کہ تحریک انصاف جو پنجاب کے ترقیاتی منصوبوں کے خلاف بڑا شور مچاتی تھی وہ بھی ترقیاتی منصوبے شروع کرنے پر مجبور ہو گئی ہے۔ میٹرو بس پر پہلے تین چار برس سخت تنقید کی گئی اور اب پشاور میں یہی منصوبہ کسی اور نام سے شروع کیا جا رہا ہے۔ تاہم پنجاب میں دوسرے صوبوں کے مقابلہ میں ترقیاتی منصوبوں پر زیادہ تیزرفتاری سے عمل درآمد ہوا جس کے نتیجہ میں پنجاب کی زرعی اور صنعتی پیداوار میں انرجی، انفراسٹرکچر اورزراعت کے شعبوں کے ساتھ ساتھ سیاحت کو بھی فروغ ملے گا۔ صحت کا شعبہ مزید توجہ کا متقاضی ہے۔ لوگوں کی جیبیں چھوٹی اور بیماریاں لمبی ہو رہی ہیں۔ اس کے لئے وزیراعلیٰ کو انقلابی اقدامات کرنا ہوں گے۔اچھی بات ہے کہ اس مرتبہ تیرہ فیصد اضافے کے ساتھ بجٹ کو 263ارب روپے تک بڑھا دیا گیا ہے۔ امید کی جاتی ہے کہ اس سے ہسپتالوں کی صورتحال بہتر ہو گی، ہر ہسپتال میں ضروری مشینیں فراہم ہوں گی اور ڈاکٹر کسی مریض کے علاج سے انکار نہیں کریں گے۔ مجموعی طور پر یہ بجٹ عوام دوست اور متوازن ہے شاید اسی لئے اپوزیشن جو حکومت کے ہر اقدام کی مخالفت کرتی ہے اس میں سے کیڑے نہیں نکال پائی۔پنجاب آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑا صوبہ ہے۔ اس کی حالت راتوں رات بدلنا آسان نہیں لیکن جس کمٹمنٹ کے ساتھ وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کام کر رہے ہیں، کوئی بعید نہیں کہ مستقبل قریب میں ترقی، فلاح اور خوشحالی کے معاملے میں یہ بہت آگے نکل جائے۔