خبرنامہ

پنجاب یونیورسٹی میں تحقیق کا ہمالیہ۔۔۔اسداللہ غالب

مجھے مولانا سمیع الحق کی دوکتابیں دس دس جلدوں میں موصول ہوئیں تو میں ا س تحقیقی کام پر مبہوت رہ گیا، میں نے سوچا ایک زمانے میں پنجاب یونیورسٹی نے انسائیکلو پیڈیا آف اسلام کی تالیف اور اشاعت کا جو کام کیا تھا،ا س سے اہل علم ورطہ حیرت میں مبتلا ہو گئے تھے، پھر ایسے لگا جیسے یونیورسٹی بانجھ ہو گئی ہو، بس جھگڑے چلتے تھے، طلبہ دو گروپوں میں تقسیم تھے اورا ستاد بھی اس کشا کش میں پھنس کر رہ گئے، اس جھکڑ میں علمی کاموں کی طرف کیسے دھیان جا سکتا تھا۔ مگر اب یونیورسٹی کا ماحول بدل سا گیا ہے اور شور شرابہ کم ہوتا جا رہا ہے ، اس کی کوئی تو وجہ ہو گی، وائس چانسلراڈکٹر مجاہد کامران سے جب بھی ملاقات ہوئی وہ نرم و گداز سے لگے، ذرا بھی ان میں کھردرا پن نہیں تھا، نہ ان کی بھنویں تنی ہوئی تھیں، نہ ماتھے پر سلوٹیں تو پھر یہ معجزہ ہو کیسے گیا کہ کیمپس میں راوی ہر سو چین لکھتا ہے۔ایک دن میں یونیورسٹی کے مہمان خانے میں مقیم کسی غیر ملکی دوست کو ملنے گیا تو وہاں ایک مجمع تھا اور سب کے چہرے خوشی سے تمتما رہے تھے ، پتہ چلا کہ کسی استاد کو کمرے میں بند کرنے کی کوشش کی گئی تھی، وائس چانسلر کو علم ہوا تو سیکورٹی کے پہنچنے سے پہلے وہ استاد کو یرغمالیوں سے رہائی دلو اچکے تھے، ان کی آستینیں ابھی تک چڑھی ہوئی تھیں ، سچ پوچھئے اس روزسے مجھے تو اس بظاہر شریف انسان سے خوف سامحسوس ہونے لگا۔ پرانے زمانے کے استادوں کے ضرورت پڑنے پر ہاتھ چلتے تھے اور کچھ زیادہ ہی چلتے تھے، آپ میرے کانوں کو دیکھ کر اندازہ لگا سکتے ہیں۔ مگرجب سے استاد بھیڈ ہو گیا ہے، طالب علموں نے سرکشی اختیار کر لی ہے، ڈاکٹر مجاہد کامران نے سائنس کی پڑھائی کے دروان شاید اسی سرکشی کا مداوا کرنے کی کوئی ترکیب حفظ کر لی تھی۔
یہ تو ہو اایک معرکہ لیکن اس معرکے نے یونیورسٹی میں تدریسی اور تحقیقی ماحول کو فروغ دیا۔استاد اور طالب علم اب حقیقی معنوں میں استاد اور طالب علم بن گئے، وہ جو پہلوانی تھی وہ کافور ہو گئی۔ اب یونیورسٹی پر نہر کی سڑک بلا ک ہوتی ہے تو کسی اور یونیورسٹی کے طلبہ کے ہاتھوں۔ ویسے ا س مصیبت سے مستقل چھٹکارہ دلوانے کے لئے جوہر ٹاؤن کے پل سے وحدت روڈ تک ایک سیدھی سڑک بھی تعمیر کر دی گئی ہے اور یہ کارنامہ ہمارے خادم اعلی کا ہے، ان کے باقی منصوبوں پر کھل کرتنقید ہوتی رہتی ہے مگرا س سڑک پر کسی نے انگلی تک نہیں اٹھائی، یہ غیر متنازعہ اور مقبول عام منصوبہ ہے ،اس میں موجودہ وائس چانسلر کے تعاون کو فراموش نہیں کیا جا سکتا، ایک زمانے میں میاں محمد اظہر کو لاہور کی ٹریفک سدھارنے کا شوق لاحق ہوا، انہوں نے ایم اے او کالج چوک کو چوڑا کرنے کے لیے یونیورسٹی گراؤنڈز کا ایک کونہ ہتھیا لیا، میاں اظہراسوقت گورنر پنجاب تھے اور ان کے بارے میں کسی کو بھی کوئی شکائیت ہوتی تھی تو مجھے میاں اظہر کی جگہ لتاڑ دیتا۔ تب ڈاکٹر منیرالدین چغتائی وائس چانسلر تھے، ہانپتے ہوئے میرے پاس نوائے وقت کے دفتر آئے اور بے نقط سنانے لگے کہ آپ کے دوست نے یہ کر دیا ، وہ کر دیا، میں نے کہا کہ کاش! وہ وحدت روڈ پر بھیکے موڑ چوک کو کھلا کرنے کے لئے بھی ایسی ہی واردات کر گزریں اور یونیورسٹی کی کچھ زمین ہڑپ کر لیں ، آخر پرویز الہی کے دور میں یہی ہوا اور یہ چوک اب بلا روک ٹوک ٹریفک کے بہاؤ کے کام آتا ہے۔
میں نے سڑکوں کا ذکر کرنے کے لئے قلم نہیں اٹھایا تھامگر راستہ نہ ہو تو یونیورسٹی پہنچا کیسے جائے اور وہاں سے واپس گھر کا رخ کیسے کیا جائے۔
اب آیئے اصل موضوع کی طرف، یہ یونیورسٹی پی ایچ ڈی اسکالرز کا ڈھیر لگا رہی ہے، پچھلے سال ایک سو چالیس ، اس سے پچھلے برس ایک سو باون اورا س سے قبل کے پانچ برسوں میں آٹھ سو اکسٹھ ، یوں ان سات برسوں میں جتنے افراد نے پی ایچ ڈی کی، وہ اس سے پہلے کے سترہ برس کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ایم فل دوہزار سات میں تین سو تھے تو دوہزار چودہ میں پانچ ہزار دو سو اڑتیس۔اساتذہ میں پی ایچ ڈی کی شرح سن دوہزار میں انتیس فی صد تھی تو دو ہزار پندرہ میں پچاس فی صد سے زیادہ۔تحقیقی مقالوں کی تعداد جو دو ہزار سات میں ایک سو باسٹھ کے قریب تھی ، اب دوہزار چودہ میں چھ سوپانچ تک پہنچ گئی ہے۔علمی سرگرمیاں بھی ساتھ ہی ساتھ نکتہ عروج کو چھورہی ہیں۔دو ہزار آٹھ میں صرف دو علمی کانفرنسوں کا انعقاد ہوا تو دو ہزار چودہ میں ان کی تعداد ستاسی تھی۔ ان میں تہتر قومی ا ور چودہ بین الا اقوامی سطح کی تھیں۔
میرے سامنے تاریخ ادبیات مسلمانان پاکستان و ہند کی پانچ جلدیں اور دائرہ معارف اقبال کی تین جلدیں رکھی ہیں۔اس قدر ضخیم اور وقیع کام پر یونیورسٹی بجا طور پر فخر کر سکتی ہے اور اس کا کریڈٹ وائس چانسلر ڈاکٹر مجاہد کامران کو جاتا ہے جن کی اپنی لکھی ہوئی نصف درجن کتابیں دھوم مچا چکی ہیں۔مجھے یہاں خواجہ ذکریاکو بھی خراج تحسین پیش کرناہے جنہوں نے عرق ریزی سے کام لے کر تاریخ ادبیا ت کو از سر نو مرتب کیا اور اگر تھوڑاپیچھے جائیں تو حمید احمد خان اور علاؤالدین صدیقی یادآتے ہیں ، بلا شبہہ پنجاب یونیورسٹی میں وہی سنہری زمانہ لوٹ آیا ہے۔
میں دنیا میں بہت زیادہ گھوما پھرا نہیں مگر کولمبیا یونورسٹی سان فرانسسکو، بوسٹن، شکاگو،آئیو وا، نیو یارک، کوالالم پور اور ٹوکیو کے تعلیمی اداروں میں جانے کا ضرور موقع ملا، وہاں کی فضائیں علم کی خوشبو سے رچی بسی ہیں، کچھ یہی احساس مجھے اب پنجاب یونورسٹی میں گھو متے پھرتے ہوتا ہے، یہاں کی لائیبریری کو جدید خطوط پر استوار کیا گیا ہے، ہر طرف لیپ ٹاپ، اور سر جھکائے ہوئے طلبہ و طالبات، ایک پورا ریک، شعبہ جاتی ریسرچ میگزینزسے بھرا ہوا ہے ۔
پہلے اس کیمپس میں سیاست ہوتی تھی اب تدریس کو عبادت سمجھا جاتا ہے۔یہ ہے جوہری فرق جو ڈاکٹر مجاہد کامران کے دور میں واقع ہوا، اسے آپ معجزہ بھی کہہ سکتے ہیں۔
ایک زمانے میں مجھے خیرات ابن رسا سے ملنا تھا، دفتر میں ٹائم نہ ملا، پتہ چلا کہ وہ راؤنڈ پر بات سن لیتے ہیں،سو سڑک پر بھاگتے ہوئے ان سے مدعا بیان کیا تھا، اب وائس چانسلر کے دفتر کا دروازہ کھلا ہے، اندر صوفوں ا ور کرسیوں پر ملاقاتیوں کا رش لگا رہتا ہے اور ڈاکٹر صاحب ہر ایک کو مطمئن کر کے واپس بھیجتے ہیں۔ میرے راوین دوست اور کلاس فیلوغضنفر علی گل کو آصف زرداری مطمئن نہیں کر سکا مگر مجاہد کامران کے دفتر سے وہ شانت باہر آتے دکھائی دیئے۔
آج کی پنجاب یونیورسٹی ایسی ہی ان ہونی کا مرقع ہے۔