خبرنامہ

پیرس میں بزم جمہوریت۔۔۔اسداللہ غالب۔۔۔انداز جہاں

ایئر مارشل اصغر خان کے کالم کا فوری رد عمل ہوا، اس رد عمل کا تعلق نہ توایبٹ آباد سے ہے، نہ مانچسٹر سے بلکہ قصور کے راستے پیرس سے ہے۔اتوار کی صبح میں اچھی طرح بیدار بھی نہ ہو پایا تھا کہ دروازے کی گھنٹی بجی، باہر دیکھا تو اعجاز بھٹی کھڑے مسکرا رہے تھے، انہوں نے سلام دعا کی رسمی ضرورت بھی نہ سمجھی اور سراپا شکائت بن کر گویا ہوئے کہ آپ مجھے بھول گئے ، میں آپ کو نہیں بھولا ، آپ نے چند ٹیلیفونوں پر گفتگو کے بعد اصغر خان پر ایک ا صولی کالم تو لکھ ڈالا مگر پیرس میں کئی بارآپ نے ہماری بزم جمہوریت میں شرکت کی۔ اس کا ذکر آج تک نہیں کیا۔
مجھے انیس سو پچانوے کی ایک صبح یادآ گئی۔محترمہ بے نظیر بھٹو کے ساتھ ایک یاد گار سفر کے دوران جہاز پیرس کے ڈیگال ایئر پورٹ پر اترا۔ شہر ابھی تک خوابیدہ تھا، میں نے سن رکھا تھا کہ اس شہر کی سڑکیں بجر ی اور تارکول سے نہیں بلکہ ربڑ یا شیشے سے بنائی گئی ہیں۔ اورا س قدر شفاف کہ ا نسان ان میں ا پنا عکس صاف دیکھ سکتا ہے۔آنکھوں کو خوب ملا، سڑکیں تو وہی تھیں جو دنیا جہان میں ہیں مگر انہیں مشینوں کے ذریعے نہلایا جا رہا تھا۔اپناملک یادآیا جہاں انسان کے پینے کو پانی میسر نہیں اور پیرس کی سڑکوں کو چمکانے کے لئے بھی پانی کا بے دریغ استعمال۔بہرحال ہوٹل پہنچے، کچھ نیند پوری کی، پھر لابی میں قائم پریس ڈیسک پہنچا، ایک ہما ہمی اور گہما گہمی۔ لگتا تھا کہ پیرس کے سارے پاکستانی امڈ آئے ہیں، انہی میں اعجاز بھٹی بھی تھے، یہ میرے شہر قصور کے رہنے والے ہیں، اپنی آمد کی کوئی اطلاع نہ دی ، وہ مجھے ساتھ لے کر مختلف کمروں میں گھوم گئے، مساوات کے سید سجاد بخاری، اس دور کے وزیر اطلاعات خالد کھرل، فرحت اللہ بابر اور پھر نوابزادہ نصراللہ خان کے کمرے میں ایک تفصیلی نشست ۔ یہی نشست پیر س میں بزم جمہوریت کے قیام کا محرک بنی۔ پہلے پہلے بغیر کسی نام کے چند دوستوں کااجتماع، اور پھر باقاعدگی سے اس کے اجلاس ہونے لگے، زیادہ تر ان میں پاکستانی مہمانوں کی تواضع کی جاتی ۔ پیٹ اور ذہن کی خوراک دستر خوان کی زینت بنتی۔ سیاسی تفریق کوئی نہ تھی، پیپلز پارٹی، مسلم لیگ، جماعت اسلامی اور منہاج القرآن سے تعلق رکھنے والوں سے باقاعدہ رابطہ استوار کیا گیا۔بزم جمہوریت کا اصل ا لاصول یہ تھا کہ یہ صرف اور صرف پاکستان کی شناخت رکھتی ہے اور ہر پاکستانی کے لئے اس کے دل کے دروازے کھلے ہوئے ہیں۔یہ فرقہ وارانہ تنازعات سے بھی مبراا ور بالا تر تھی۔
میں کبھی نہیں بھول سکتا کہ نوابزادہ نصراللہ خان کے کمرے میں گئے تو وہ اپنے خلاف نیویارک کے ایک ہوٹل پلازہ میں افواہ سازی سے بے حد رنجیدہ تھے۔ ہوا یہ کہ انہوں نے معمول کے مطابق حقے کا کش لگایا تو کمرے میں نصب ایک سینسر نے دھوئیں کی وجہ سے الارم بجا دیا،مگر ایک صحافی نے اس پر اسکینڈل کھڑا کر دیا، کہ ہوٹل والوں نے نوابزادہ کو خطرناک قرار دے کر باہر نکلنے کاحکم جاری کر دیا۔میں تو خود اس سارے واقعے کاعینی شاہد تھا ۔اور جب یہ افواہ پھیلی تو میں نوابزادہ کے پاس پہنچا ، وہ مزے سے کش پہ کش لگا رہے تھے اور مسکرا رہے تھے، ان کا کہنا تھا کہ ان کو خواہ مخواہ ایک اسکینڈل کا نشانہ بنایا گیا ہے۔پیرس میں اعجاز بھٹی اور ان کے کچھ دیگر میڈیا کے دوستوں نے بھی یہ خبر سن رکھی تھی ا ور وہ نوابزادہ سے چہلیں کرتے رہے۔ مگر کون جانتا تھا کہ یہ ملاقات ایک مستقل تحریک کا باعث بن جائے گی، ان نوجوانوں نے فیصلہ کیا کہ پیرس میں جو بھی پاکستانی مہمان آئے گا،ا س سے رابطہ رکھیں گے ا ورا سے کسی شکائت کا موقع نہ دیں گے اور ان عناصر کی بھی حوصلہ شکنی کریں گے جو معزز مہمانوں کی تحقیر اور کردار کشی کا موقع ضائع نہیں جانے دیتے، پیرس کے سفارت خانے میں دو پریس منسٹر میرے جاننے والے بھی تعینات ہوئے، ایک تو نور صغیر تھے ، میرے ساتھ ہی گورنمنٹ کالج لاہور سے ایم اے انگلش کیاا ور سی ایس پی کے ذریعے سرکاری ملازمت میں چلے گئے ، دوسرے شبیر انور، ان اصحاب نے بزم جمہوریت کے نوجوانوں کی مسلسل حوصلہ افزائی جاری رکھی جس سے پیرس کی پاکستان کمیونٹی میں ایک بہتر اور خوشگوار ماحول قائم رہا۔
اعجاز بھٹی نے میرے سامنے ایک ڈائری کے صفحات پھیلا دیئے ،ا س پر کئی برسوں کی گرد چڑھی ہوئی تھی، ظاہر ہے بیس برس پرانی ہے، ہر صفحے پر کسی سیاسی شخصیت سے ملا قات کااحوال اور وطن عزیز کی سیاست پرحاشیہ آرائی۔میری نظر ایک صفحے پر رک گئی، یہ بابائے جمہوریت نوابزادہ نصراللہ خان کی وفات پر مختلف کالم نویسوں کے تبصروں سے اقتباسات سے لبریز تھا۔بزم جمہوریت کو بابائے جمہوریت سے عشق نہ ہوتا تو اور کس سے ہوتا۔میں کچھ اقتباسات یہاں نقل کرتا ہوں۔
عبدالقادر حسن نے لکھا:یہ بوڑھا سیاست کا مضبوط ستون اور دلکش محور تھا،وہ ایک کامیاب، مطمئن اور طویل زندگی گزار کر دنیا سے رخصت ہوئے۔فیضی نے کہا تھا کہ اب کوئی ایساسزاوار مدح باقی نہیں رہا جس کی مدح کی جا سکے اور نہ کوئی سزاوار عشق باقی رہا جس پر غزل کہی جا سکے ، نوابزادہ کے بعداب کوئی سیاستدان بھی باقی نہیں رہا کہ جس پر قلم حرکت میں آ سکے۔
نذیر ناجی نے لکھا: پاکستان میں جمہوریت یتیم ہو گئی۔ہماری سیاست کو تہذیب، جرات، تدبیر، حکمت، گہرائی،معاملہ فہمی،زبان و ادب کی چاشنی،اور وسعت قلبی کی خوبیوں سے مالا مال کرنے والے نوابزادہ نصراللہ خان ہم سے جدا ہو گئے۔
عباس اطہر نے لکھا:وہ کیا دور تھا جس میں بر صغیر کا گوشہ گوشہ قد آور رہنماؤں کی گھن گرج سے گونج رہا تھا۔نصراللہ خاں اسی عہد کی مدھم پڑتی ہوئی نشانی تھے۔ہر قافلہ وقت کے دھندلکے میں کھو جاتا ہے۔نوابزادہ جس قافلے کے رکن تھے، وہ جدید عہد میں اجنبی تھا۔
عطا الحق قاسمی کے کالم کا عنوان ہی معانی کے سمندر سے لبریز تھا۔پیر بخشا ایہہ گلی ویران ہوئی۔انہوں نے لکھا:آج نکلسن روڈ کا وہ گھر اداس ہے جہاں نوابزادہ کے ساتھ سر بر آوردہ شخصیا ت کی محفلیں جمتی تھیں۔جہاں حقے کی گڑ گڑاہٹ،سگار کی خوشبو، اورگفتگو کی چاشنی تھی۔جہاں سرخ رنگ کی پھندنے والی ترکی ٹوپی پہنے ایک شخص بیٹھا ہوتا تھا جس کے گرد پورے ملک کی سیاست گھومتی تھی۔
ارشاد احمد حقانی نے لکھا:ضعیف العمری کے باوصف انہوں نے حالیہ بیرونی دورے میں لندن اور جدہ میں محترمہ بے نظیر اور نواز شریف سے ملاقاتیں کیں اور انہیں قائل کرنے کی کوشش کی کہ وہ اکٹھے پاکستان واپس آ جائیں۔ِ ان کی یہ کوشش سرے تو نہ چڑھی لیکن اس سے جمہویت کے ساتھ نوابز ادہ کی گہری وابستگی کا ثبوت ملتا ہے۔
ہارون الرشید نے لکھا : پون صدی کی عملی زندگی میں جلوت تو کیا ، خلوت میں بھی کوئی مفلس لفظ ان کی زبان سے نہ پھسل سکا۔دھمکی دیتے ، نہ دعوی کرتے،لیکن فیصلہ ہو جاتا تو چٹان بن کر کھڑے ہو جاتے۔
اورنوائے وقت کا ادارتی تبصرہ:نوابزادہ صاحب نے نہ صرف ملٹری مارشل لا بلکہ بھٹو کے سول مارشل لا اور آمرانہ جمہوریت کے دور میں بھی حزب اختلاف کا کردارا دا کیا۔اور حقیقی جمہوریت سے اپنی وابستگی اس مضبوطی سے برقرار رکھی کہ یہ ان کی شخصیت کا جزو لاینفک بن گئی اور پوری قوم نے انہیں بابائے جمہوریت تسلیم کر لیا۔
اور اب میرے اپنے کالم کے چند جملے :میں نوابزادہ کو ایک امر انسان تصور کرتا ہوں۔وہ مرنے والے انسان تھے ہی نہیں،نہ کبھی خیال مرتا ہے، نہ کبھی خواب مرتے ہیں،نہ کبھی آدرش کو موت آتی ہے۔اور نہ کبھی امنگیں مرتی ہیں۔نوابزادہ کیسے مر سکتے ہیں۔
پیرس کے اعجاز بھٹی اور مانچسٹر کے چودھری غلام محی الدین کا شکریہ کہ ان کی وساطت سے ملکی سیاست کے دو روشن کرداروں کو یاد کرنے کا موقع مل گیا۔