خبرنامہ

پی سی ا ٓئی اے کے مبصرتنویر نذیر نے امریکہ میں کیا دیکھا…اسد اللہ غالب

پی سی ا ٓئی اے کے مبصرتنویر نذیر نے امریکہ میں کیا دیکھا…اسد اللہ غالب

پی سی آئی اے کی حیثیت ایک غیر رسمی تھنک ٹینک کی سی ہے۔ اس کا کوئی رسمی ڈھانچہ نہیں مگر یہ پینتیس برسوں سے سرگرم عمل ہے۔ اس کے اجلاس ہر ویک اینڈ پر ہوتے ہیں اور ہم خیال احباب میں سے جو بھی فارغ ہو وہ اس میں شرکت کرتا ہے۔ ہفتہ وار اجلاسوں کے علاوہ قومی نوعیت کے بڑے سیمینارز منعقد کرانے کا سہرا بھی ا سکے سر ہے۔
یہ جو‘ اب وزیر اعظم عمران خان نے امریکہ جانے کی ٹھانی تو پی سی ا ٓئی اے کے ایک رکن تنویر نذیر نے کہا کہ وہ بھی امریکہ جا رہے ہیں اور تنظیم کے مبصر کے طور پر یہ دیکھنے کی کوش کریں گے کہ مسئلہ کشمیر پر کس نے کیا کردار ادا کیا۔ بہت ہنگامہ تھا کہ بھارتی وزیر اعظم مودی کی طرف سے ہیوسٹن میں ایک بڑے جلسے کاا ہتمام کیا جائے گا۔ یہ درا صل وزیر اعظم عمران خان کے واشنگٹن ایرینا کے سابقہ جلسے کاا یک جواب تھا۔ اس سے مجھے یاد آیا کہ پلوامہ کے بعد جب بر صغیر میں کشیدگی انتہا کو چھو رہی تھی تو ایک منچلے نے فیس بک پر لکھا کہ بر صغیر کی کشیدہ صورت حال کے پیش نظر پاک بھارت جنگ دوبئی میں منتقل کر دی جائے، گویا جنگ نہ ہوئی کوئی کرکٹ میچ ہوا۔ مگر لوگوں کے زرخیز ذہنوں کی داد دیجیئے کہ کشمیر کاد نگل واقعی سے بر صغیر کے بجائے امریکہ منتقل کر دیا گیا۔، اتنے بڑے جلسے دونوں وزرائے اعظم اپنے اپنے ملک میں نہیں کر پاتے جتنے بڑے جلسے امریکہ میں کئے گئے، امریکی بھی حیران ہوں گے کہ یہ ان کی سرزمین پر کیا تماشہ لگ گیا ہے۔ یہ سرکا راما ہے یا لکی ایرانی سرکس۔ کشمیر کے مسئلے کے حل کی کنجی چونکہ امریکی صدر ٹرمپ کی جیب میں ہے اس لئے دونوں ملک انہیں متاثر کر نے کے لئے کوشاں رہے۔ عمران خان نے خوب جلسہ جمایاا ور مودی نے تو حد ہی کر دی کہ اس کے اسٹیج پر خود صدر ٹرمپ جا بیٹھے۔ اب ہماری دال کیا گلتی۔ مگر شاعر کے بقول لوگوں نے زور تو بہت لگایااور دو طرف سے زور دکھایا گیا۔
عمران خان کا سابقہ جلسہ کشمیر پر کم اور ملکی اپوزیشن کے خلاف زیادہ تھا۔ امریکہ جا کر انہوں نے کہا کہ نواز شریف اور زرداری کی جیل سے ٹی وی سیٹ واپس لوں گا، اے سی اتار دوں گا۔ اور دونوں کو نہیں چھوڑوں گا۔ اس جلسے میں لوگ دور دور سے ا ٓئے تھے۔ امریکہ کے کونے کونے سے اور کینیڈا سے بھی۔ شاید وہ یہی بڑھکیں سننا چاہتے تھے اور وہ شوق سے اپنے وزیرا عظم کی ایسی تقریر سنتے رہے جو وہ کنٹینر پر کیا کرتے تھے۔پاکستان میں ہر کوئی حیران تھا کہ امریکہ جا کر بھی وزیر اعظم کے سر پہ اپوزیشن ہی سوار ہے۔چلئے جی، ان کی مرضی جو مزاج یار میں آئے۔ اور یہ جو جلسہ تھا جو مودی نے کیا یاان کے پرستاروں نے کیا۔ اس نے سب کو چکرا کے رکھ دیا۔ ٹرمپ کے لئے یہ ایک انتخابی جلسہ تھا اور مودی کے لئے کشمیر ہڑپ کرنے کا فخریہ اعلان اور دونوں مقررین نے جی بھر کے مسلمانوں کو دہشت گردی کے لئے مطعون کیا۔یہیں سے عمران خان کے ہاتھ میں اسلامو فوبیا کی نئی تھیم آ گئی اوراس نے پھر امریکیوں کو اور اہل مغرب کو ایسارگیدا کہ وہ بھی کیا یاد کریں گے اور عمران خان ان کے گھر میں جا کر گرجے برسے، تنویر نذیر لمحہ لمحہ کی خبر واٹس ایپ کے ذریعے فراہم کر رہے تھے۔ میں نے انہیں کریدا کہ یہ جو انڈین امریکن لابی نے شور محشر برپا کیا ہے، ا سکی وجہ کیا ہے۔ جواب تھا کہ امریکہ میں بھارتی باشندے ایک تو تعداد میں زیادہ ہیں، دوسرے وہ بھارتی سیاست کا فریق نہیں بنتے۔ یہو دیوں کی طرح بس وہ ایک قوم ہیں اور ان کے ملک سے جو بھی آئے، اسے سر آنکھوں پر بٹھاتے ہیں۔ البتہ وہ امریکی سیاست میں سرگرمی دکھاتے ہیں اور ان کے بل بوتے پر امریکی امیدو ار کامیاب ہوتے ہین اور کانگرس میں جاتے ہیں تو انڈین کے گن گاتے ہیں اور ان کے لئے اچھے لابسٹ بن جاتے ہیں۔
مجھے یاد پڑتا ہے کوئی دوس برس قبل میں علیم خان کے دفتر گیا۔ بڑا جمگھٹا تھا۔ علیم خان میرے پاس آئے اور کہنے لگے۔ آپ سے ملنے مں کچھ وقت لگ جائے گا مگر آپ ایک مہمان سے ملئے جو امریکہ سے آئے ہیں اور امریکی ریاست ہیمپشائر کی کانگرس میں تین مرتبہ منتخب ہوئے ہیں۔ اس طرح میری ملاقات صغیر طاہر عرف سیگی سے ہوئی جو ان کی موت کے ایک ماہ تک چلتی رہی۔ انہوں نے پی سی آئی اے کے مباحثوں میں کئی بار شرکت کی مگر وہ مایوس تھے کہ پاکستان میں ان سے سرد مہری برتی جا رہی ہے۔ میں جانتا تھا کہ ان کے پاس پیسہ نہیں ورنہ انہیں بھی سرآنکھوں پہ بٹھایا جاتا، بس وہ خاموشی سے امریکہ کے ایک ہسپتال میں دل کے دورے کے بعد چل بسے۔ مجھے یہ کہہ کر گئے تھے کہ ایک ماہ بعد واپس آؤں گا، ایک چھوٹا سا دفتر لے لیا ہے اور اب یہاں مستقل بزنس کرنے کا ارادہ ہے۔ پتہ نہیں کتنے صغیر طاہر اپنی خدمات لے کر پاکستان ا ٓتے ہوں گے اور انہیں کس قدر مایوسی کا سامنا کرنا پڑتا ہو گا۔ واشنگٹن کے چودھری رشید کا المیہ بھی یہی ہے۔ وہ کلنٹن فیملی کے انتہائی قریب تھے مگر ان کی خدمات سے ہم فائدہ نہ اٹھا سکے۔
تنویر نذیر نے مودی کے جلسے کی کامیابی کی ایک وجہ یہ بتائی کہ جو بھارتی امریکہ پہنچ جاتا ہے، وہ اپنے دوسرے جاننے والوں کو بھی وہاں بلاتا ہے اور انہیں سیٹل کرانے کو کوشش کرتا ہے۔ بھارتی ایک دوسرے کی ٹانگیں نہیں کھینچتے، پاکستانی تو متحد ہو کر یوم آزادی بھی نہیں منا سکتے۔پاکستان سے شریف خاندان اور بھٹو خاندان امریکہ آتا جاتا رہا ہے۔ انہوں نے اپنے اپنے چہیتوں کو خوب نوازا۔ مین حیران رہ گیا جب میرے پوتے عفان بن عمار نے قرآن پاک حفظ کیا۔ اس کی ختم قرآن کی تقریب مسلم ٹاؤن کے ایل ڈی اے ہال میں رکھی۔یہ ہال نیو یارک سے ا ٓنے والے کیپٹن شاہین کو لاٹ کیا گیاتھاا وراس طرح کے ایل ڈی ای اے کے دیگر ہال بھی انہیں بخشش دیئے گئے تھے۔ یہ میاں شہبازشریف کی عنایت تھی۔ مگر کیا ان ہالز کو خود ایل ڈی اے نہیں چلا سکتا تھا۔ کیپٹن شاہین کو ن لیگ کی طرف سے سینیڑ بھی بنایا گیا۔ وہ کشمیری ہیں۔مگر جس طرح عمران خاں نے کشمیر کا نام بلند کیا ہے، کیپٹن شاہین تو ایسانہ کر سکے۔ اب پی ٹی آئی اپنے چہیتوں پرنوازشات کی بارش کر رہی ہے۔، سارے مشیر امپورٹ کئے گئے ہیں۔اس طرح بیرون ملک پاکستانی آپس میں بٹ گئے ہیں اور بھارتیوں کی طرح گرم جوشی نہیں دکھا سکتے۔
نیو یارک میں البتہ سماں الگ تھا۔ یہاں عمران ا ور مودی دونوں نے جنرل اسمبلی میں تقریر کرنا تھی، تقریر سننے والے اندر ہال میں تو چند ایک تھے مگر باہر ایک جم غفیر تھا اور اس شو میں پا کستانی بازی لے گئے، خود تنویر نذیر نے ایک مخصوص ٹی شرٹ پہنی ا وراسکے ساتھ ہی ادھر دھر گھوم پھر کر تصاویر بھی بنائیں اور ویڈیو بھی شیئر کیں، ان کا کہنا تھا کہ جنرل اسمبلی کے باہر پاکستانی بازی جیت چکے تھے۔ وہ بے حد منظم تھے،۔ ان کے ساتھ سکھ بھی شامل تھے اور پاکستانیوں نے مختلف گروپ بنا رکھے تھے اور ان کے ہاتھوں میں مائیک بھی تھے جن کے ذریعے پر جوش نعرے لگائے جا رہے تھے۔ تنویرنذیر کا کہنا ہے کہ یہاں بھارتیوں کی دال نہیں گلی۔ یہ میدان پاکستانیوں نے مار لیا۔ اور وہ دل و جان سے سمھ رہے تھے کہ کشمیر فتح ہو گیا۔ بس پاکستانیوں کے جذابت کی یہی حد ہے۔ اس حد سے ا ٓگے عملی کارروائی حکومت کے ہاتھ میں آئے۔ لوگ تو لائن آف کنٹرول کو پار کرنے پر تلے بیٹھے ہیں مگر وزیر اعظم نے کہا کہ ابھی نہیں جب میں اشارہ کروں گا۔اب دیکھئے وہ اشارہ کب کرتے ہیں، برلن میں ایک دیوار تھی۔ اسے پار کر نے کے لئے سینکڑوں جرمن دونوں طرف سے کوشش کرتے رہے۔ وہ سیکورٹی گارڈز کی فائرنگ کا نشانہ بن جاتے یا دیوار پر لگی آہنی تاروں میں دوڑتی بجلی کے جھٹکے سے کوئلہ بن جاتے۔ بالآخر عوام نے دیوار برلن ہتھوڑوں کی مدد سے توڑ ڈالی۔ یہی پی سی آئی تھی جس کے اجلاس میں جرمن سفیر آئے اور انہوں نے اپنی جیب سے دیوار برلن کا ٹکڑانکال کر اس طرح دکھیا جیسے ہم مسلمانوں کوکہیں سے حجر اسود کا ٹکڑا ہاتھ آ جائے اور ہم بڑے تقدس سے اس کا دیدار کروائیں۔ میرا گمان ہے کہ کنٹرول لاین نے آج نہیں تو کل کو ٹوٹنا ہی ہے۔ ہم نہیں تو ہماری اگلی نسلیں اسے منہدم کریں گی، زیرو زبر کر دیں گی اور کشمیر بنے گا پاکستان کے نعرے کو عملی تعبیر ملے گی۔ آ ملیں گے سینہ چاکان چمن سے سینہ چاک