خبرنامہ

چودھری سرور کے سی ایم ہاﺅس کی رونقیں…..اسدالللہ غالب

چودھری سرور کے سی ایم ہاﺅس کی رونقیں

لاہور کی برکی روڈ مالدارلوگوں کی نئی آماجگاہ ہے، بڑے بڑے ڈیرے ہیں جنہیں اصطلاح میں فارم ہاﺅس کہا جاتا ہے۔یہیں پربرطانیہ سے ا ٓنے والے چودھری محمد سرور نے بھی اپنے فارم ہاﺅس کے افتتاح کے لئے کوئی چار سو لوگوں کوکھانے پر بلایا۔اصل میں یہ مہورت تھی پنجاب کے اگلے چیف منسٹر کی سرکاری رہائش گاہ کی۔ابھی تو ا س پر چودھری سرور ہی کا پیسہ لگا ہے مگر جب وہ پی ٹی آئی کو پنجاب میں اکثریت ملنے پر چیف منسٹری کا حلف اٹھا لیں گے تو اس کے بعد عوام کے ٹیکسوں سے اس فارم ہاﺅس کی دیکھ بھال کی جایا کرے گی۔
ایک کتاب کی افتتاحی تقریب میں میری ملاقات محترمہ ثروت روبینہ سے ہوئی، انہوںنے اپنے دو تعارف کروائے ، ایک یہ کہ وہ کالم نگار ہیں، دوسرے پی ٹی آئی کے میڈیا سے تعلق رکھتی ہیں ،۔ ان سے بات چلی تو تیسرا تعارف بھی ہو گیا کہ ان کا اور میرا سسرال ایک ہے ، وہ بھی تلونڈی،قصور میں بیاہی ہوئی ہیں اور میں بھی اسی گاﺅں کا داماد۔ میںنے انہیں بتایا کہ میری معلومات کے مطابق ا س گاﺅں کے لوگ لکھوی خاندان کے مرید ہیں اور انہی کووٹ دیتے ہیں۔محترمہ ثروت صاحبہ نے کہا کہ اس حلقے سے پی ٹی آئی کے دو امیدوار ہیں ، ایک وہ خود اور دوسرے خورشید قصوری صاحب،اب دیکھیے ٹکٹ کسے ملتا ہے مگر باتیں چل نکلیں تو محترمہ نے انکشاف کیا کہ چودھری سرور سینیٹ کی سیٹ پر لات مار دیں گے اور لاہور کینٹ کے کسی حلقے سے صوبائی اسمبلی کاالیکشن لڑیں گے۔ پارٹی ارکان کی اکثریت اس خیال کی حامی ہے کہ آئندہ چودھری سرور کو پنجاب کے تخت پر جلوہ افروز ہونا چاہئے۔میںنے محترمہ ثروت صاحبہ سے دریافت کیا کہ کہ جب پارٹی میں پرانے اور دیرینہ کارکن اور لیڈر موجود ہیں تو پھر ایک نووارد کے لئے یہ اعزاز کیوں، انہوںنے وہی کہا جو پہلے کہا تھا کہ صوبے کی پارٹی انہی کو اگلا چیف منسٹر دیکھنا چاہتی ہے۔
چودھری سرور قسمت کے دھنی ہیں، پاکستان سے ہجرت کر کے گئے تو چچا کے ساتھ مزدوری میں جت گئے اور سر پہ انڈوں کی ٹوکری رکھ کر گلی گلی پھیرے لگانے لگے، آج یہی سرور آنڈوں والا برطانیہ کا ارب پتی ہے ۔اس کا پورا خاندان بھی ارب پتی ہے۔چودھری سرور نے پہلے پہل پاکستان کی سیاست کا شوق پورا کرنے کے لئے پیپلز پارٹی جوائن کی۔ وہ اسکاٹ لینڈ پیپلز پارٹی کے صدر بنے۔ اسی عہدے پر فائز ہوتے ہوئے وہ لیبر پارٹی میں بھی شامل ہوئے اورگوروں کے ایک شہری حلقے سے برٹش پارلیمنٹ کے ممبر بنے۔ یہ ان کا بہت بڑا اعزاز تھا، برطانوی پارلیمنٹ میں وہ پہلے پاکستانی اور پہلے مسلمان رکن تھے۔ وہ دو مرتبہ مزید اس منصب پر کامیاب ہوئے، پھر انہوںنے موروثی سیات کی بسم اللہ کی اور اپنے بیٹے انس سرور کو آگے کیا، وہ بھی پارلمنٹ کی سیٹ جیتنے میں کامیاب ہو گیا ، مگر اسکاٹش ریفرنڈم نے اس خاندان کی سیاست کا وقتی طور پر خاتمہ کر دیا اور محمد سرور قسمت آزمائی کے لئے پاکستان آ گئے ہیں، ان کے پیچھے ان کے چھوٹے بھائی محمد رمضان چودھری بھی چلے آئے ہیں ۔ وہ بھی اپنے بڑے بھائی کی طرح ارب پتی ہیں ،دونوںنے اپنا کاروبار اپنی اولاد کے سپرد کر دیا ہے۔ چودھری رمضان لو پروفائل میں رہتے ہیں اور ٹوبہ ٹیک سنگھ کے آبائی حلقے سے قومی اسمبلی کا الیکشن لڑنے کی تیاری کر رہے ہیں، انہیں امید ہے کہ پی ٹی آئی انہیں ٹکٹ دے دے گی۔دونوں بھائیوں کا پورا خاندان گلاسگو میں ہے اور وہ پاکستان میں حکومت کرنے کے شوق میں مبتلا ہیں۔ ضرور یہ شوق پورا کریں۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کا تعلق بھی برطانیہ سے تھا۔اب ا وور سیز پاکستانی دھڑا دھڑ اس کمپنی کے احیا کی کوشش کر رہے ہیں۔ محمدسرور تو سینیٹ کی سیٹ جیت گئے مگر لندن میں نواز شریف کے میزبان زبیر گل الیکشن ہار گئے، نیویارک میں شہباز شریف کے میزبان کیپٹن شاہین بھی سینیٹر بن گئے۔محمد سرور کی اولیں خواہش تو یہ تھی کہ برطانیہ ہی میں رہیں اور وہ بھی پاکستان کے ہائی کمشنر بن کر۔ اگر وہ پاکستانی میڈیا کی دا د فریاد پر کان نہ دھرتے تو اس منصب پر فائز ہو سکتے تھے ، آخر طارق عظیم بھی دوہری شہریت کے ساتھ کینیڈا میں سفارت فرما رہے ہیں۔ محمد سرور نے ملکی میڈیا کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے، برطانیہ کی شہریت چھوڑ دی اور پنجاب کی گورنری لے لی۔ یہ سوال میرے ذہن میں اٹکا ہوا ہے کہ انہوںنے اسکاٹ لینڈ پیپلز پارٹی کی قیادت کب چھوڑی اور کب نواز شریف کی قربت حاصل کی۔ شاید نواز شریف کی جلاوطنی کے دنوںمیں انہوں نے نواز شریف کی میزبانی کا شرف حاصل کیا ہو گا۔ سرور نے تو محترمہ بے نظیر کی میزبانی میں بھی کوئی کسر نہ چھوڑی مگر وہ شہادت پا گئیں، شاید زرداری سے سرور کا ٹاکرا نہیں ہوا، ورنہ سنجرانی کی جگہ محمدسرور سینیٹ کے چیئرمین بن سکتے تھے، اب یہ جو زرداری صاحب نے الہامی بات کر دی ہے کہ وہ پنجاب کی چیف منسٹری ن لیگ سے چھین لیں گے تو میرا اندازہ ہے کہ خود پیپلز پارٹی تو پنجاب میں اکثریتی سیٹیں جیتنے کی پوزیشن میں نہیں لیکن پی ٹی آئی کو سپورٹ کر کے وہ ن لیگ کی چھٹی کروا سکتی ہے۔ اور خود وفاق میں وزارت عظمیٰ کے عہدے پر ہاتھ صاف کر سکتی ہے اور ساتھ ہی منصب صدارت بھی ہتھیا سکتی ہے، اس لین دین میں میرے دوست چودھری سرور کی لاٹری نکل سکتی ہے مگر۔۔۔ اور یہ مگر ایک لمبی داستان ہے۔ پی ٹی آئی کی سیاست میں جو لوگ اب تک سرگرم عمل ہیں ، وہ کیسے سرور کو قبول کریں گے، لاہور کے عبدالعلیم خان ہیں ۔ اسی شہر سے محمودالرشید ہیں جنہوں نے پانچ سال تک پنجاب اسمبلی میں قائد حزب اختلاف کا کردار بھی ادا کیا ہے، اور پنجاب ہی سے مخدوم شاہ محمود قریشی ہیں جو پی ٹی آئی کا نفس ناطقہ ہیں اور جن کی سیاست اور مقبولیت نے سرور کا ناطقہ بند کر دیا تھا اور وہ خائف ہو کر ا یک بار پاکستان سے دوڑ لگا چکے ہیں۔ اب سناہے کہ عمران خان ان کو خود منانے گئے مگر کیا عمران خان پارٹی کے جغادری ساتھیوںکو بلڈوز کر سکتے ہیں ، میرا اندازہ ہے کہ نہیں کر سکتے۔ اور نہ ہی کرنا چاہئے، پارٹی کے لئے جدو جہد کرنے والے ہی اچھا وقت آنے پر اعلیٰ عہدوں کے حق دار ہوتے ہیں۔ میں چودھری سرور کا مخالف نہیں ، دوست ہوں ، اس لئے میںنے انہیں ہمیشہ مخلصانہ مشورہ دیا ہے۔ گورنرہاﺅس میں ان کی سرگرمیاں دیکھ کر میںنے ایک بھرے اجلاس میںانہیںٹوکا تھا کہ پنجاب میں طاقت کے کبھی دو مراکز نہیں رہے، یا تو گورنر ہاﺅس حاوی رہا یا چیف منسٹر ہاﺅس کی چلتی رہی اور اب جو پارلیمانی نظام ہے اس میں گورنر صرف ایک رسمی سربراہ ہے، اسے خاموش ہو کر بیٹھ رہنا چاہئے، میرے مشورے پر وہ عمل نہ کر سکے اور ن لیگ میں نہ رہ سکے۔ اب تک وہ کئی سیاسی قلا بازیاں کھا چکے ہیں۔ پہلے پیپلز پارٹی میں رہے، پھر ن لیگ میں آئے اور یہاں سے پی ٹی آئی کا رخ کر لیا۔ یہ تو سراسر مفاد پرستی کی سیاست ہے، پتہ نہیں وہ برطانیہ کی لیبر پارٹی کے ساتھ بھی رہے یا اس پر بھی تین حرف بھیج چکے۔ پی ٹی آئی سے انہیں کوئی اعلیٰ حکومتی منصب نہ ملا تو پاکستان آمد کا مقصد کیا ہوا، کیا محض آموں کی تجارت پر وہ صبر کریں۔ اگر انہیں ہر حال میں پنجاب کی چیف منسٹری مل جاتی ہے تو کیا مخدوم شاہ محمود، علیم خان، اعجاز چودھری اور محمودالرشید گھاس کاٹاکریں گے۔
چودھری سرور کی خوبی کیا ہے۔کیا یہ کہ وہ ارب پتی ہیں۔ وہ برٹش پارلیمنٹ کے ممبر ضرور رہے مگر ایوان میں بیک بنچر بنے رہے۔کیا برطانوی پارلیمانی نظام سے یہی سیکھا کہ وہ پاکستان میں گورنر بنیں تو آئین سے ماورا اختیارات کا استعمال کریں۔ برطانوی پارلیمانی نظام تو ایسی تعلیم نہیں دیتا۔ محمد سرور، اعجاز چودھری، شاہ محمود قریشی اور محمودالرشید کے پائے کے مقرر نہیں ہیں، میں ان کا مقابلہ بلاول، زرداری، محترمہ بے نظیر بھٹو، شہباز، نواز حتیٰ کہ سعد رفیق سے بھی نہیں کر سکتا تو کس خوبی کی بنا پر ان کے سامنے پنجاب کے چیف منسٹر ہاﺅس میں داخل ہونے کے لئے ریڈ کارپٹ بچھایا جا رہا ہے۔