خبرنامہ

چودھری ظہور الہی کی یاد میں۔۔اسداللہ غالب

ہم کسی کا ذکرا س کی برسی ہی پر کیوں کرتے ہیں،قائد اعظم، اقبال،بھٹو، ضیا اور ظہور الہی۔ یہ سب شخصیات ایسی ہیں کہ ان کے نام پر علمی اور تحقیقی ادارے قائم ہوتے اور وہ اکثر وبیشتر اپنی محفلیں سجاتے مگر ان مہان لوگوں کو ہم نے ایک دن تک محدود کر کے رکھ دیا۔
چودھری ظہور الہی کی برسی پر تقریب ہر سال گجرات میں ہوتی ہے، اور ظہور الہی کو یاد کرنے والے وہاں پہنچتے ہیں، میرا وہاں جانا ایک معمول تھا ، اور اکیلانہیں جاتا تھا، برادرم مجیب شامی کو ساتھ لیتا، خوبصورت شکل اور خوبصورت دل والے خواجہ افتخار کو بھی ساتھ لیتا، چھوٹی سی گاڑئی میں شعیب بن عزیز اور شفیق جالندھری بھی ہوتے۔خواجہ افتخار تو وہاں تقریر کا رنگ جماتے او رہم سب سامعین میں شامل ہوتے۔مگر ہمارا ٹولہ ظہور پیلیس میں سب سے نمایاں ہوتا۔
میں اور شعیب بن عزیز ایک بار نوائے وقت کی سیڑھیاں اتر رہے تھے کہ سامنے سے چودھری ظہور الہی سیڑھیاں چڑھتے نظر آئے، شعیب نے ان سے میرا تعارف کرایا، شعیب اور چودھری صاحب میں بے تکلفی تھی، وہ ان کے پی آر اور رہ چکے تھے، میرے تعارف پر چودھری صاحب کے ہونٹوں پر مخصوص بشاشت کھل اٹھی، کہنے لگے، ان سے توبرسوں سے مل رہا ہوں، نوائے وقت میں آنے سے پہلے میں نے زندگی اور اردو ڈائجسٹ کے لے ان کے متعدد انٹرویوزکئے تھے۔
مجھ سے پوچھاجائے کہ ظہور الہی میں کیا خوبی تھی تومیں ان کے چہرے پر ہمہ وقت کھیلتی مسکراہٹ کا نام لوں گا۔
اور اس کے علاوہ کوئی سیاسی خوبی، جی ہاں، جمہوریت کے لئے ان کی انتھک جدو جہد۔
آپ حیران ہوئے ہوں گے کہ یہ میں نے جمہوریت اور ظہور الہی کاایک ساتھ کیسے نام لے لیا۔وہ تو ایک مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کے ساتھی رہے اور انہوں نے وہ قلم بھی مانگا جس سے ضیاا لحق نے بھٹو کی پھانسی پر دستخط کئے تھے،یہی فرمائش ان کی جان لے بیٹھی، مرتضی بھٹو ان دنوں کابل میں تھا، اس نے المرتضی بنا رکھی تھی جو یوں تو مارشل لا کے خلاف سرگرم عمل تھی مگر اس کے لوگوں نے ظہور الہی کوشہید کر دیا، مرتضی بھٹو نے بی بی سی سے انٹرویو میں اس کی ذمے داری قبول کی۔تو خیر یہ جملعہ معترضہ تھا، بات کرتے ہیں مارشل کا ساتھ دینے کی اور میرا سوال ہے کہ مارشل لا کا ساتھی کون نہیں تھا، ایوب خان کے طویل مارشل لا میں بھی سیاستدان ان کے ساتھ تھے جن میں بھٹو صاحب بھی تھے، ان کی پارٹی آج آئین اور جمہوریت کا پھریرا لہراتی ہے مگر یہی بھٹو اقتدار میں آئے تو سویلین چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بن کر، یہ دنیا کا واحد عجوبہ ہے۔اور ضیاالحق کے مارشل لا کے ساتھیوں میں ظہور الہی اکیلے نہیں تھے، ہمارے آج کے وزیررا عظم نواز شریف بھی تھے اور آج کے سبھی سیاستدان ، حتی کہ جاوید ہاشمی بھی جنہوں نے اٹھاسی کی پارلیمنٹ مں ضیا کے مارشل لا کو حکم دیا، اباؤٹ ٹرن اور کوئیک مارچ۔
مارشل لا کا ساتھ دینا گالی کیسے بن گیا، سیاستدان اس مچھلی کی طرح ہیں جو پانی کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتی اور سیاستدان حکومت میں نہ ہو تو اس کی سیاست مر جاتی ہے، دیکھئے، عمران خان کس طرح وزارت عظمی کے لئے تڑپ رہے ہیں۔ ماہی بے آب کی طرح۔ میں کہتا ہوں کہ یہ سیاستدان کی خواہش نہیں، اس کا حق ہے کہ وہ لوگوں کی خدمت کرے اوریہ خدمت حکومت میں رہ کر ہو سکتی ہے، حکومت سے باہر توصرف شور شرابا مچایا جاسکتا ہے ، وہ آپ جمہوریت کے ہوتے ہوئے بھی مچاتے ہیں اور مارشل لا میں بھی مچاتے ہیں۔
اور اگر بات کرنی ہو صرف جمہوریت کے لئے جدو جہد کی تو اس مں ظہور الہی پیش پیش رہے، بھٹو کی اسمبلی میں آئین بنا تواسے متفقہ بنانے میں ان کا اہم کردار تھا اور بھٹو نے اس کا حلیہ بگاڑا تو بھی ظہور الہی نے مٹھی بھر اپوزیشن کے ساتھ ڈٹ کراس کا مقابلہ کیا، اس مقابلے میں بھٹو نے انہیں اسمبلی کے ایوان سے اٹھا کر باہر پھنکوا دیا تھا۔بھٹو نے اپنی حکومت کو فاشزم کی راہ پر ڈالا اور پہلے اپنے ہی ساتھیوں کو عقوبت کا نشانہ بنایا اور پھر عام انتخابات میں تاریخی دھاندلی کی تو اس کے مقابلے کے لئے پی این اے بنی ، اس کے اجلاس لاہورمیں ظہور الہی کی کوٹھی پر ہوتے رہے، اس کوٹھی کے اندر اور باہر ایک میلے کا سماں ہوتا تھا، یوں لگتا تھا کہ پاکستان کی کل خلقت نے ادھر کا رخ کر لیا ہو۔
جب تک ظہور الہی زندہ رہے تو ملکی سیاست کا محور و مرکز ان کی گلبرگ لاہور کی کوٹھی تھی، ان کی وفات سے فالٹ لائینوں نے اثر دکھایا اور یہ مرکز ماڈل ٹاؤن میں نواز شریف کی کوٹھی کی طرف مڑگیااور اب تک اس کا قبلہ وہیں ہے۔
کہا جاتا ہے کہ چودھری شجاعت ا ور چودھری پرویز نے بھی ایک فوجی ڈکٹیٹر کا ساتھ دیا۔ مگر یہ تو بتایئے کہ جب شریف برادران مسلم لیگ کو تنہا چھوڑ کر جدہ چلے گئے تھے تو اس مسلم لیگ کا نام و نشان بچانے کی ذمے داری کس کی تھی۔ یہ ایک علمی بحث ہے، دوسری جنگ عظیم میں فرانس پر ہٹلر کا قبضہ ہوا تو جنرل ڈیگال بھاگ کر لندن پہنچ گیا مگر مارشل پیتان نے نازی جھنڈے کے ساتھ ساتھ فرانسیسی جھنڈا بھی پیرس میں لہرائے رکھا ۔اس جرم کی پاداش میں ڈیگال نے پیتاں پر غداری کے الزام میں مقدمہ چلایاا ور پھانسی کی سزا بھی سنوا دی جس پر پیتان کے عمر رسیدہ ہونے کی وجہ سے عمل نہ ہوسکا مگر عدالت میں پیتان نے اپنے دفاع میں یہی کہا کہ میں بھگوڑا نہیں بنا، میں نے فرانسیسی پرچم سرنگوں نہیں ہونے دیا۔دل پر ہاتھ رکھ کر بتایئے کہ کیا آج کی مسلم لیگ ن انہی لوگوں سے بھری ہوئی نہیں جنہیں چودھری برادران نے مارشل لا کے سائے میں بھی زندہ ا ور متحرک رکھا۔ میں کہتا ہوں کہ مسائل کا منفی پہلو اجاگر کرنے کے بجائے اس کے مثبت پہلووں کو آشکارا کیا جائے تو یہ کج بحثیاں ختم ہو جائیں گی کہ کون فوج کا ساتھی تھا اور کون جمہوریت پسند تھا۔
سیاست میں ظہور الہی کا نام ہمیشہ بلند مقام پر فائز نظر آتا ہے ، ان کی میراث کو چودھری بردران نے آگے بڑھایا ، گلبرگ کی کوٹھی کی رونقیں ماند نہیں پڑنے دیں اور ان رونقوں کی زینت بننے والے وہ لوگ بھی ہیں جن کا کوئی نام نہیں ، یہی بے نام لوگ چودھری ظہور الہی کی شہادت پر آنسو بہاتے، سینہ کوبی کرتے، دوپٹے پھاڑتے ، سر میں خاک ڈالتے ظہور پیلس کے باہر جمع ہو گئے تھے، ان میں یتیم تھے، بے سہارا تھے، بیوائیں تھیں۔چودھری برداران نے کس حد تک اس روایت کو زندہ رکھا، یہ میں نہیں جانتا، خدا جانتا ہو گا کہ یہ ان کا نجی معاملہ ہے مگر ظہور الہی کی سیاسی روایات کے فرو غ میں بھی چودھری برادران ہمیشہ سرگرم عمل رہے، ظہور الہی صلح کل کے فلسفے کے قائل تھے، بس مٹی پاؤ کہہ کر، وہ مخالف سے بغل گیر ہو جاتے تھے ۔ چودھری برداران نے زرداری کی نحیف و نزاراور لاغر جمہوریت کو سہارا دینے کے لئے ذاتی رنجش کو بھلا کر حکومت کا ساتھ دیا۔اور یہ زرداری کی بھی فراخدلی ہے کہ اس نے قاتل لیگ کو ساتھ بٹھایا مگر دوستو!جمہوریت بچانے کے لئے ذات کو منفی کرنا پڑتا ہے، یہ ہے چودھری ظہور الہی کی اصل میراث !!
چودھری برداران سے ان کے بعض دوستوں کا یہ گلہ بجا ہے کہ وہ دشمن کو تو گلے لگاتے ہیں مگر دوستوں سے چشم پوشی کرتے ہیں، ظہور الہی ایسے تونہ تھے۔ہر گز ایسے نہیں تھے۔