خبرنامہ

چین سراسر مغالطے کا شکار ہے….اسد اللہ غالب….انداز جہاں

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

چین کا کہنا ہے کہ اس نے ہانگ کانگ کے لئے پچاس سال تک انتظار کیا، بالآخر ہانگ کانگ پکے ہوئے پھل کی طرح اس کی جھولی میں آ گرا۔
چین اپنے آپ کو غیر ضروری طور پر عقل مند سمجھتا ہے، عقل کا تعلق نہ تو رقبے سے ہے، نہ اربوں کی آبادی سے اور نہ ایک بڑی معیشت سے، ویسے کہاوت تو یہی ہے کہ جنہاں دے گھر دانے ، اوہناں دے کملے وی سیانے۔مگر ہر کہاوت پورا سچ نہیں ہو تی۔
چین میں بڑے بڑے دانا ہو گزرے ہیں مگر میں جس قوم سے تعلق رکھتا ہوں ، وہ کوئی احمقوں کی قوم نہیں، اس کے حکما، فیلسوف، منطقی دنیا میں صف اول میں شمار کئے جاتے ہیں۔ وہ علم وحکمت کے استاد تھے ، اس لئے مجھے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ چین ہمیں کشمیر پر جو مشورہ دے رہاہے وہ سراسر مغالطے کا شکار ہے۔
اور اس مؤقف کے لئے میرے پاس ٹھوس اور ناقابل تردیددلائل ہیں۔
ہانگ کانگ اور کشمیر کے مسائل میں کوئی مماثلت ہی نہیں، ہانگ کانگ پر کسی بیرونی طاقت نے بزور طاقت قبضہ نہیں جما رکھا تھا۔ یہ برطانوی کالونی تو تھا مگر محض ایک ڈھیلا ڈھالا انتظام ، ہا نگ کانگ مکمل طور پر اندرونی معاملات میں خود مختار تھا۔
کشمیر پر بھارت کی جارح افواج نے تسلط جما رکھا ہے۔یہ جارح افواج صرف قبضے تک محدود نہیں ہیں بلکہ ستر برس سے انہوںنے جبر، ستم اور ظلم کا بازار گرم کر رکھا ہے۔
ہانگ کانگ میں کوئی آزادی کی تحریک نہیں چل رہی تھی، کوئی کاغذی تنظیم بھی ایسی نہیں تھی جو ملکہ برطانیہ کی علامتی غلامی سے ا ٓزادی کا مطالبہ کر رہی تھی جبکہ کشمیر میںعوام کی اکثریت بھارت کے ناجائز قبضے سے نجات کے لئے جدو جہد کر رہی ہے۔
ہانگ کانگ پر چین کی معیشت کاانحصار نہ تھا، چین کو روزی روٹی کے لئے ہانگ کانگ کی طرف نہیں دیکھنا پڑتا تھا۔ چین بذات خود ایک بڑی معیشت کا ملک تھا، اسے ہانگ کانگ سے ایک دھیلہ تک لینے کی آرزو نہیں تھی۔جبکہ پاکستان کی ساری معیشت کاانحصار ہی کشمیر پر ہے، پاکستان کی زمینوں کو سیراب کرنے والے پانچ دریا کشمیر سے نکلتے ہیں جن کے دہانے بھارت کی فوج کے تصرف میں ہیں، انہی دریائوں کے پانی کو استعمال کر کے پاکستان سستی بجلی کے منصوبے بنا سکتا تھا مگر کشمیر کے دریائوں پر پاکستان کوکوئی کنٹرول نہیں تھا ،اس لئے ہم نہ نئی نہریں نکال سکے، نہ نئے ڈیم تعمیر کر سکے، نہ ہائیڈل بجلی کے منصوبے شروع کر سکے اور اس کے لئے ہمیں تھرمل اور اب کوئلے کے منصوبے بنانے پڑے جو کہ مہنگی بجلی مہیا کرتے ہیں، یہ مہنگی بجلی عوام خریدنے کی سکت نہیں رکھتے، صنعتیں ہر قیمت دے سکتی ہیں مگر ان کی مصنوعات مہنگی ہو جاتی ہیں جو عوام کی قوت خرید سے باہر ہو جاتی ہیں ،آج ڈھاکے کی ململ تو شاید سستی ہو اور چین کا ریشمی سوٹ بھی سستا ہومگر پاکستانی کاٹن کا سوٹ خریدنا کسی سفید پوش کے لئے بھی ممکن نہیں۔ کشمیر کے دریائوں کاکنٹرول بھارت کے پاس ہونے کاایک نقصان یہ ہے کہ جب کبھی بارشیں زیادہ ہو جائیں تو بھارت ان دریائوںکافالتو پانی بلاا طلاع چھوڑ دیتا ہے اور پاکستان کے وسیع علاقے سیلاب میں ڈوب جاتے ہیں، بستیوں کی بستیاں ڈوب جاتی ہیں۔اور پاکستان ایک بار پھر پتھر کے زمانے میں دھکیل دیا جاتا ہے۔
ہانگ کانگ پر ملکہ برطانیہ کے راج کی وجہ سے چین کو بجلی کے قحط کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ چین کبھی اس بنا پر اندھیروں میںنہیں ڈوبا۔ نہ چین میں ہانگ کانگ کا کنٹرول نہ ہونے کی وجہ سے قیامت خیز لوڈ شیڈنگ ہوئی،۔ جبکہ پاکستان کشمیر پر بھارتی تسلط کی وجہ سے اندھیروں میں ڈوبا ہوا ہے۔
چین جب ہمیں یہ مشورہ دیتا ہے کہ ہم اسی طرح کشمیر کے لئے پچاس برس انتظار کریں جس طرح اس نے ہانگ کانگ کا کیا، اول تو پچاس نہیں، ستر برس تک انتظار ہو چکا، کشمیر پکے ہوئے پھل کی شکل میں ہماری جھولی میںنہیں گرا بلکہ بھارتی سنگینوں۔، توپوں۔ پیلٹ گنوں کی وجہ سے لہو لہان ہو اپڑا ہے،چین ہمار ابڑا مخلص دوست ہے، اس کی پاکستان کے ساتھ دوستی پہاڑوں سے اونچی ، سمندروں سے گہری اور شہد سے میٹھی ہے مگر کیا کشمیر پر اس کا مشورہ اس طرح کا دوست دے سکتا ہے۔
چین کے علاقے سنکیانگ میں تو چند پٹاخے پھٹے ا ور چینی صدر نے دھمکی دے ڈالی کہ خنجراب کے اوپر آسمانوں کی بلندیوں تک کنکریٹ کی دیوار چن دی جائے تاکہ پاکستان سے کوئی دہشت گرد چین میں داخل ہونے میں کامیاب نہ ہو سکے لیکن کیا جب کل بھوشن جیسے سینکڑوں ہزاروں دہشت گرد،دن کی روشنی میں پاکستان میں دندناتے پھرتے ہیں، مودی جیساموذی وزیر اعظم کھلے عام دھمکیاں دیتا ہے کہ وہ پاکستان کے مزید ٹکڑے کرے گا، وہ سینہ چوڑا کر کے کہتا ہے کہ اسے مشرقی پاکستان کی علیحدگی پر خوشی ہوئی تھی اور ہر بھارتی شہری نے بنگلہ دیش کی تخلیق میں تعاون کیا تھا۔ تو کیا ہانگ کانگ کے کسی شہری، کسی حکمران نے چین کواس طرح کی دھمکیاں دی تھیں اور کیا کبھی چین نے سوچا تک بھی تھا کہ ہانگ کانگ اور چین کے درمیان کنکریٹ کی سر بفلک دیوار تعمیر کر دی جائے ۔
تو جناب ! ہانگ کانگ اور کشمیر میں کوئی مماثلت نہیں ، کوئی مشترکات نہیں، چین کا مشورہ لائق توجہ نہیں ہے، ناقابل عمل ہے ۔ منطق سے سراسر عاری ہے۔
چین کے مفادات جس قدر پاکستان سے وابستہ ہیں، جس طرح شاہراہ ریشم اس کے لئے ضروری ہے ا ور جس طرح سی پیک کی تکمیل اس کے لئے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے تو پاکستان کے لئے کشمیر بھی اسی طرح ضروری ہے، اس کی زندگی ا ور موت کا مسئلہ ہے۔ پاکستان اگر سی پیک کی تکمیل کے لئے ڈویژن نئی فوج کھڑی کر سکتا ہے تو چین کی دو ڈویژن فوج کشمیر کے حصول کے لئے پاکستان کی مدد کیوںنہیں کر سکتی۔
کشمیر پر انتظار کی صورت میں پتہ ہے کیا ہو گا، اگلے پچاس برس نہیں ،صرف دس برس میں جارح بھارتی فوج ایک ایک کشمیری نوجوان کوکیمیاوی اسلحے سے راکھ بناڈالے گی۔ کشمیر کی وادی میں پنڈتوں کو اسی طرح دھڑا دھڑ آباد کر دیا جائے گا جیسے جموں میں کیا گیا ہے، جموں کبھی ہندو اکثریتی علاقہ نہیں رہا، اور سری نگر کی و ادی ہمیشہ سے مسلم اکثریتی علاقہ ہے، اب تک جموں میں لاکھوں ہندو پنڈت آباد کئے جا چکے ہیںا ور اگلے دس برس میں وادی کشمیر بھی پنڈتوں سے بھر جائے گی، پھر شاید بھارت کو استصواب کرانے میں کوئی ہچکچاہٹ نہ ہو، کیونکہ نتیجہ اسی کے حق میںہو گا، کوئی کشمیری ووٹر تو تب تک ووٹ دینے کے لئے بچے گا ہی نہیں۔
یہ ہے چین کا دانائی سے معمور مشورہ کہ جس طرح اس نے ہانگ کانگ کے لئے صبر کیا، پاکستان بھی کشمیر کے لئے صبر کرے، پاکستان صبر تو کر رہا ہے، بڑے فارمولے بھی بنتے ہیں کہ کشمیر کوکچھ عرصے تک بھلا دیا جائے مگر کون نہیں جانتا کہ پاکستان کے صبر کا پھل میٹھا نہیں کڑو اہو گا، سو چین کے دانائوں سے معذرت کے ساتھ، میںاس مشورے کو مسترد کرتا ہوں اور پوری قوم بھی اگر میرے دلائل سے متفق ہے تو انتہائی احترام کے ساتھ چین کا یہ مشورہ مسترد کر دے۔
ویسے سی پیک کی سکیورٹی سے پاک فوج دست بردار ہو جائے تو چین کو پھر صرف ہانگ کانگ کی آمدنی ہی پر گزارا کرنا ہو گا۔ ون بیلٹ ون روڈ کے منصوبے کے ذریعے تین براعظموں پر اس کی معاشی حکمرانی کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکے گا۔