خبرنامہ

ڈاکٹر آصف جاہ نے نیکیاں لوٹ لیں

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

ڈاکٹر آصف جاہ نے نیکیاں لوٹ لیں

وہ اکیلے نہیں ہیں لیکن قوت متحرکہ وہی ہیں، ان کے پیچھے مخیر خواتین و حضرات کا انبوہ کثیر ہے، اور کسٹمر ہیلتھ کیئر سوسائٹی کے بے لوث جذبوں سے سرشار ور کر۔ ایف بی آر کے سربراہ بذات خود اس نیک کام کی سر پرستی میں جوش وخروش کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ لاہور کے ریجنل کلکٹر کسٹم تو ذاتی جیب سے عطیات سے نوازتے ہیں اور صنعتکاراعجاز سکا کی کیا بات ہے کہ اکیلے ہی کافی ہیں، وہ تو سیدنا ابو بکر صدیق کی مثال پرعمل کرتے ہیں کہ صدیق کے لیے ہے خدا کا رسول بس۔ وہ آقائے دو جہان رحمت اللعالمینﷺ کی سیرت طیبہ کی پیروی میں انسانیت کی خدمت میں ہمہ وقت پیش پیش رہتے ہیں۔
رمضان کا آخری عشرہ نیکیوں، بخششوں اور مغفرتوں کی ضمانت ہے، وزیر اعظم اس کے لیئے مکہ اور مدینہ سدھارے۔ دنیا بھر کے کروڑوں مسلمان اعتکاف میں بیٹھ گئے اور طاق راتوں میں جی بھر کے نیکیاں کمانے میں مصروف ہوگئے لیکن ڈاکٹر آصف محمود جاہ نے نیکی کی تلاش میں بنوں کا رخ کیا جہاں شمالی وزیرستان بے خانماں لاکھوں افرادزندگی کی ہر ضرورت کے لیے ترستے ہیں، انہوں نے اپنا گھر بار اس لیے چھوڑا کہ پورا پاکستان سکون اور ان سے ہمکنار ہو سکے ان کی یہ ابتلا مہینوں کی ہے یابرسوں کی، اس کی انہیں پرو انہیں، بنوں کے لوگوں نے دل کے دروازے ان پر کھول دیئے، کسی نے اپنا آدھا گھر ان کے تصرف میں دے دیا، کسی نے اپنا حجرہ پیش کر دیا، بہت کم لوگ ٹینٹ سٹی میں ہیں بلکہ نہ ہونے کے برابر، یہ واقعی غیرت مند ہیں اور کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانے سے گریز کرتے ہیں۔ اکثریت نے تو اپنی جیب سے مکان کرائے پر لے لیے ہیں مگر وہ ہجرت کے دوران گھر کا سارا سامان تو ساتھ نہیں لا سکے، نہ ایسا ممکن تھا، ان کے مال مویشی بھی وہیں کھیتوں میں کھلے پھرتے ہیں اور پانی اور چارے کو ترستے ہیں۔
سرکاری ملازم ہو کر انسانی فلاح کے کاموں کی طرف متوجہ ہونا ایک معجزہ ہے، عام سرکاری ملازم تو صرف دفتر میں حاضری لگانے کو کافی سمجھتا ہے یا پھر سارا دن اندرون خانہ سازشیں اور سائلوں کی فائلیں خراب کرنے کا مشغلہ۔ اس ماحول میں ڈاکٹر آصف محمود جاہ کبھی آزادکشمیر اور بالا کوٹ کے زلزلہ زدگان کی امداد کے لیئے کمرکس لیتے ہیں،کبھی ملک بھر میں سیلاب کے ماروں کے چارہ گر بنتے ہیں اور کبھی آواران کی تباہی کا شکار ہونے والوں کا سائبان بنتے ہیں اور کبھی تھر میں میٹھے پانی کے کنویں کھدوانے میں جت جاتے ہیں۔ یہ سب اس تڑپ کا نتیجہ ہے جوان کے دل میں بھی انسانوں کے لیئے موجزن ہے۔ وہ خودخلوص سے خدمت میں مشغول رہتے ہیں، اس لئے انہیں پرخلوص دوستوں اور سرپرستوں کا تعاون بھی میسر آ جاتا ہے۔
میں لکھتا ہی رہ جاتا ہوں کہ چودھری شجاعت حسین اور چودھری پرویزالہی بنوں جائیں اور بے گھروں کے سر پر ہاتھ رکھیں، کوئی سوچتا ہے کہ یہ کام عمران خان کو کرنا چاہیے۔ کوئی سراج الحق کی طرف دیکھتا ہے اور کوئی زرداری کی طرف مگر انہیں کیا پروا، ایک شہباز شریف جاتے ہیں لیکن ان کے دو تین دوروں کا نقصان یہ ہوا کہ خیبر پی کے حکومت نے سرکاری اسکولوں کونوٹس دے دیا ہے کہ وہ ایک معین تاریخ کو مہاجرین کو باہر دھکیل دیں تا کہ بچوں کی پڑھائی شروع ہو سکے۔ یہ ہے عمران کی تحریک انصاف کی گورنس اور انسان دوستی کا ایک نمونہ۔
بنوں ملک کا دوسرا گرم ترین شہر ہے اور کے یخ بستہ ماحول سے ہجرت کرنے والوں کا یہاں کی گرمی نے برا حال کر چھوڑا ہے، علاقے کے لوگ بار بار مطالبہ کرتے ہیں کہ کم از کم بنوں اور اس کے نواح کو چند ماہ کے لیئے لوڈ شیڈنگ سے مستثنی قرار دیا جائے لیکن نقارخانے میں طوطی کی کون سنتا ہے۔ ڈاکٹر آصف جاہ نے دیگر ضرورت کی اشیاء کے علاوہ اس سفر میں سولر سے چلنے والے پنکھوں کے حصول اور پھران کی حاتم طائی کی طرح تقسیم پر خصوصی دھیان دیا بعض پنکھے بیٹری سے چلتے ہیں اور کچھ ایسے بھی ہیں جوبجلی پر بھی کام دینے ہیں، بنوں میں ان ملٹی پرپز پنکھوں کی بے پناہ مانگ ہے، شاید اگلے پھیرے میں ڈاکٹر آصف جاہ صرف انہی کے ٹرک بھر کے لے جائیں۔ اعجاز سکا کی سخاوت کا ایک بار پھر امتحان ہے۔
گرمی کی شدت بیماریوں کا باعث بھی بن رہی ہے، بچے بخار سے تپ رہے ہیں، بوڑھے اپنے جسم میں پانی کی کمی کا شکار ہو کر لاغری کا شکار ہیں۔ اسہال اور پیٹ کی وبا پھیل رہی ہے،ڈاکٹر آصف جاہ کے ہمراہ بہت بڑی ٹیم ڈاکٹروں اور نرسوں کی بھی تھی اور فلاحی کارکنوں کی بھی، انہوں نے کیمپ کیمپ پھر کر مریضوں کا علاج معالجہ کیا۔ ایک طرف روزے، دوسری طرف پردیس، تیسری طرف سورج سوا نیزے پر، ایسے میں مسیحا خودکسی کی مسیحائی کی تلاش میں رہتا ہے مگر آفرین ہے ڈاکٹروں کی اس ٹیم کے جن میں ڈاکٹر ندیم، ڈاکٹر حسین، ڈاکٹر بلال، ڈاکٹر ظفر، ڈاکٹر محمد اویس، ڈاکٹر مقبول حسین او در جنوں دوسرے ڈاکٹر۔ ایک ایک اور دومل کر گیارہ ہو جاتے ہیں، میری دعا ہے کہ اللہ تعالی ڈاکٹر آصف جاہ کی نیکیوں کے جذبے، فرواں کرے وہ ان نفوس قدسیہ میں سے ہیں جن کو ستائش کی تمنا ہے،نہ صلے کی پروا۔
ملک میں ایک طرف ہنگامی صورت حال بنی ہوئی ہے کسی کو اپنے مرنے والوں کی دو ماہ بعد قرآن خوانی یا دآ گئی ہے کسی کو سواسال بعد الیکشن دھاندلی کا رونا یاد آ گیا ہے۔ اور کوئی ڈھائی ٹوٹرو بارات میں شامل باجہ بنے نظر آتے ہیں۔ اور دوسری طرف ہماری مسلح افواج سردھڑ کی بازی لگا کر ملک میں قیام امن کے لیئے کوشاں ہیں۔
مگر ڈاکٹر آصف محمود جاہ اس افراتفری سے بے نیاز اور بالاتر ہو کر خدمت انسانیت میں منہمک ہیں۔
میں ان کے تازہ سفر کا احوال سنتے سنتے تھک گیا اور میرا سانس پھول گیا مگر وہ ایک طولانی حکایت سنانے کے بعد بھی تروتازہ تھے، ان پھولوں کی طرح جن کا علاج انہوں نے مہاجر کیمپوں میں بڑی توجہ سے کیا، ان میں نیلی سبز سنہرے بالوں اور گلابی گالوں والی معصوم چاند سی گڑیا حرا بھی تھی جوعید رات ہاتھوں میں چوڑیاں پہن کر خوشی سے پھولے نہیں سماتی تھی۔ اس بچی کی چمکتی روشن نورانی آنکھوں اور معصوم پیارومحبت سے بھر پور اداؤں نے پورے کیمپ کو اپنا گرویدہ بنالیا تھا، وہ نتلی کی طرح ہر طرف بہراتی، چوڑیاں چھنکاتی عید کے گیت گانے میں مگن تھی۔
پردیسیوں کے ساتھ عید یا تو آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے شمالی وزیرستان میں ادا کی یا پھر ڈاکٹر آصف جاہ اور ان کے فرشتہ صفت ڈاکٹروں اور فلائی ورکروں نے یہ عید بنوں کے کیمپوں میں ادا کی، ایسی عید پر ہزاروں عیدیں نثار!!(6 اگست 2014)