خبرنامہ

ڈاکٹر آصف جاہ کے سفرنامہ ترکی کے نمناک اوراق

شام کی خانہ جنگی اور عالمی طاقتوں کی بمباری سے تباہ حال شامی لوگ جان بچا کر ترکی پہنچے ہیں جن کی امداد کے لئے ڈاکٹر آصف جاہ خصوصی طور پر ترکی گئے، انہوں نے اپنے تاثرات ایک کتاب کی شکل میں قلمبند کر لئے ہیں جن میں سے چند اوراق یہاں پیش کر رہا ہوں، اگر آپ کو ان اوراق پر نمی محسوس ہو تو سمجھ لیجئے کہ یہ میرے قلم کے آنسو ہیں۔

ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں کہ ایک خاندان کاگھر دیکھنے کا موقع ملا۔ یہاں حلب سے آیا ہوا پورا خاندان چھوٹے سے دو کمروں کے گھر میں مقیم تھا۔ خاندان کے سربراہ نے بتایا کہ انہیں اللہ پر پورا یقین ہے کہ بہت جلد امن ہوگا اور وہ اپنے گھروں کو واپس جائیں گے۔ پاکستان کا سن کر ان کے چہرے پر روشنی آگئی اور بار بار شکریہ ادا کرتے رہے۔ایک گول مٹول سے بچے کو گود میں اُٹھا کر پیار کیا تو وہ فوراً مانوس ہوگیا۔ استنبول کی سڑکوں گلیوں بازاروں میں کئی جگہوں پر شامی متاثرین نظر آتے ہیں جو مختلف جگہوں پہ کام کر رہے ہیں۔ترکی باشندوں کا کمال ہے کہ انہوں نے شام کے مسلمانوں کو نہ صرف اپنے ملک میں بسایا بلکہ ان کے لیے ملازمت کا بندوبست بھی کیا۔ دکان میں ایک ادھیڑ عمر شامی موجود تھا۔ اس نے آنسوﺅں کے ساتھ اپنی داستانِ غم سنائی کہ اس کے ماں باپ، بہن بھائی، بیوی سب حلب میں شہید کر دیے گئے۔ وہ بڑی مشکل سے اپنے دو بچوں کے ساتھ جان بچا کر اِدھر پہنچا۔ آتے ہی الحمدللہ گھر بھی مل گیا اور نوکری بھی کیونکہ اسے ترکی زبان پر مکمل عبور حاصل تھا۔ اتنا کچھ کھونے کے بعد اور اتنی جانیں قربان کرنے کے بعد ان لوگوں کے حوصلے بلند ہیں اور وہ اللہ پر یقین رکھتے ہیں۔
شام کے متاثرین کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر ابراہیم نے بتایا کہ ترکی میں شام کے 40 لاکھ سے زیادہ رجسٹرڈ مہاجرین مقیم ہیں۔ ان میں سے کچھ تو عرفہ اور دوسرے شہروں میں قائم کیے گئے کیمپوں میں ہیں جبکہ باقی ترکی کے مختلف شہروں میں مقیم ہیں۔ استنبول میں سب سے زیادہ مہاجرین ہیں۔ مقامی لوگوں نے ان کو اپنا بھائی بنا کر مواخاتِ مدینہ کی یاد تازہ کر دی ہے۔ لوگوں نے اپنے گھروں اور دل کے دروازے ان مہاجرین کے لیے کھول دیئے ہیں۔ ترکی حکومت نے شامی بچوں کی تعلیم کے لیے خصوصی انتظامات کیے ہیں۔ ترکی کے سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں شام کے ہزاروں طالب علموں کو داخلہ دیا گیا ہے۔ شامی اساتذہ کو ترکی زبان کے کورس کروائے جا رہے ہیں تاکہ ان کو ترک تعلیمی اداروں میں ملازمت دی جا سکے۔ شام سے آنے والے ڈاکٹروںکو بھی محکمہ صحت میں کھپایاجا رہا ہے۔
بلدیہ ٹاﺅن کے ایک علاقے میں گئے جہاں شام کے متاثرین جمع تھے۔ شام کی عفت مآب بیبیاں، خوبصورت بچے، بچیاں اور مرد ہمارے انتظار میں تھے۔
بلدیہ کے ناظم نے سب کے ناموں کی لسٹ بنائی ہوئی تھی۔ الحمد للہ فوڈ پیکٹس کل سے ہی بن چکے تھے۔ اس علاقے میں رہنے والے زیادہ مہاجرین کا تعلق حلب سے ہے۔ کسی کا بھائی شہید ہوگیا۔ کسی کا خاوند۔ کسی کا بیٹا اور کسی کے ماں باپ۔ عباﺅں اور سکارف میں ملبوس خواتین اور بچے آتے جا رہے تھے اور بڑی محبت سے لڑکیوں اور خواتین کو اسماءاور مردوں کو وقار، عثمان اور راقم راشن کے پیکٹس دیتے جا رہے تھے۔ خواتین اور مرد پیکٹس لے کر جزاک اللہ کہتے مسکراتے چہروں کے ساتھ واپس جا رہے تھے۔ ھدیة من الباکستان سن کر خوش ہوتے۔ ان کے اداس چہروں پہ مسکراہٹ دیکھ کر اللہ کا شکر ادا کیا جس نے اتنی دور دراز آ کر ان لوگوں کی خدمت کی توفیق دی۔ ماﺅں کے ساتھ گول مٹول سرخ چہرے والے بچے بچیاں بھی تھےں جن کو دیکھ کر اسماءنے ان میں کیش بھی تقسیم کیا۔ ان شامی بہن بھائیوں کی مدد کرکے ان کے چہروں پہ خفیف سی مسکراہٹ دیکھ کر دلی اطمینان ہوا۔ اللہ ہمارے مخیر حضرات کو جزائے خیر دے جن کی وجہ سے ادھر آنا ممکن ہوا۔
عرفہ کی صاف و شفاف سڑکوں اور بلند و بالا فلیٹس اور چند بڑے بڑے گھروں کے درمیان سے سفر کرنے کے ایک گھنٹہ بعد حدِ نگاہ تک پھیلے سفید خیموں کی ایک بستی نظر آئی جس میں پچاس ہزار سے زیادہ شامی مہاجرین مقیم ہیں۔ اس کیمپ کے قریب جب بھی کوئی گاڑی آتی ہے۔ بچے اس کا گھیراﺅ کر لیتے ہیں۔ یہاں آ کر اندازہ ہو گیا کہ شام کی سالہا سال کی خانہ جنگی اور اب اس میں عالمی طاقتوں کی شمولیت کی وجہ سے لاکھوں لوگ متاثر ہوئے ہیں۔ کیمپ میں مقیم ہر خاندان اپنی داستانِ غم سنا رہا تھا۔ کوئی دو سال سے دربدر ہے۔ کسی کو اپنے گھر سے نکلے پانچ سال بیت گئے۔ کسی کا بیٹا شہید ہو گیا۔ کسی کا سہاگ اُجڑ گیا۔ کسی کے خاندان کے چار افراد اور کسی کا پورا خاندان جنگ کی نذر ہو گیا۔ جس کیمپ میں جاتے اداسی، تباہی اور بربادی کی غم ناک داستانیں سننے کو ملتی ہیں لیکن آفرین ہے اس خیمہ بستی کے مکینوں پر کہ جونہی ان کے خیمے میں داخل ہوئے۔ انہوں نے خوشی سے اہلاً و سہلاً اور مرحبا کہہ کر استقبال کیا۔ پاکستان کا نام سن کر ان کے چہرے پہ چمک آگئی اور پاکستان سے آئے ہوئے تحفے پا کر وہ اور ان کے بچے خوشی سے پھولے نہ سمائے۔ ایک ٹینٹ میں ایک مختصر سی شامی فیملی مقیم ہے۔ عبد اللہ فرانس سے گریجوایٹ انجینئر ہے۔ روحہ نے قانون کی تعلیم حاصل کی ہے۔ ان کے دو پیارے بچے احمد اور آمنہ ہیں۔ روحہ نے انگریزی میں ہمیں اپنے ٹینٹ میں خوش آمدید کہا اور بتایا کہ ہمیں گھر سے در بدر ہوئے دو سال ہونے کو ہیں۔ اس سے پہلے کسی اور جگہ شام کے اندر رہتے رہے اور اب چھ ماہ سے یہاں مقیم ہیں۔ اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے روحہ بولی انشاءاللہ ہماری مصیبت کے دن ضرور کٹیں گے ۔روحہ کی ایمان افروز باتیں سن کر ایمان تازہ ہوگیا۔ شام انبیاءکی سرزمین ہے اور زیادہ تر لوگ صحابہ کرام ؓ کی اولاد سے ہیں۔روحہ کہنے لگی کہ میں عرفہ کے ترک بھائیوں اور پاکستان کے لوگوں کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتی ہوں کہ آپ نے ہمارا خیال رکھا۔نامساعد حالات کے باوجود روحہ اور عبداللہ کے حوصلے بلند ہیں۔ دونوں پر امید ہیں کہ ان شاءاللہ جلد ہی خانہ جنگی ختم ہو گی اور وہ اپنے گھروں کو واپس پلٹیں گے۔
ہم ایک یتیم خانے میں بھی گئے ۔ یہاں مجھے اپنا گوہر مقصود مل گیا۔ میں کئی دن سے ترکی میں ایک پیاری سی راج دلاری سی خوبصورت شامی بچی کی تلاش میں تھا کیونکہ اس پر کتاب مکمل ہونے کا دارومدار تھا۔ دوسرا یتیم خانہ ایک شامی تنظیم کے تعاون سے چل رہا تھا۔ اور حیرة فاﺅنڈیشن بھی ان کی مدد کر رہی تھی۔ یتیم بچے اور بچیاں آئےں۔ آتے ہی خوشی سے السلام علیکم و رحمة اللہ، اہلاً و سہلاً مرحبا کہا۔ ان کے سر پر ہاتھ پھیرا، پیار کیا۔ بچوں میں تحائف تقسیم کیے۔ بچوں کے لیے سکول بیگس کے اندر ڈرائنگ کاپی، رنگین پنسلیں اور ڈرائنگ بورڈ رکھے تھے۔ بچوں کو جب وہ ملے تو ان کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا۔ وہ خوشی کے مارے اُچھل کود رہے تھے۔ اپنے اپنے بیگ کی چیزیں کھول کر دوسروں کو دکھا رہے تھے۔ ان بچوں کو خوش دیکھ کر اپنا دل بھی خوش ہوگیا۔ بچوں میں سکول بیگ تقسیم ہو رہے تھے مگر میں نے دیکھا کہ ایک پیاری سی ننھی سی بچی مجھے کن انکھیوں سے دیکھ رہی ہے اور دیکھتی جا رہی ہے۔ اس کو بیگ دیا۔ پیار کیا تو اور قریب آگئی۔ گود میں بیٹھ گئی۔ خوش ہوگئی۔ بیگ سے نکال کر چیزیں دیکھنے لگی اپنی سہیلیوں اور اپنی مما کو دکھانے کے لیے بھاگی۔ مجھے اس کی تلاش تھی۔ اسی کی جستجو تھی۔ شام کی اس یتیم بچی کا تذکرہ حرا کی طرح ہوتا رہے گا۔ شام کی یہ شہزادی ان شاءاللہ ایک دن اپنے گھر لوٹے گی اور وہاں ہم اسے ملنے جائیں گے۔ الیسرہ نے اپنی مما سے بھی ملوایا۔ جانے لگے تو الیسرہ دور تک ہاتھ ہلاتی رہی۔ الیسرہ سے مل کر ایسے لگا کہ میں جون دو ہزار چودہ میں واپس آگیا ہوں اور حرا ہمارے کیمپ میں آگئی ہے ۔اس کے آنے سے پورے کیمپ میں چمک اور روشنی پیدا ہوگئی ہے۔ الیسرہ کو میں نے اور اسماءنے خوب پیار کیا۔ اسماءنے عبد اللہ کی نیک دل اور نیک سیرت بیوی کے ساتھ مل کر تمام کمروں میں جا کر عورتوں اور لڑکیوں میں عبایا، حجاب، سکارف اور سوٹ تقسیم کیے۔کھانے کے بعد حیرة کے دفتر میں ظہر اور عصر کی نمازیں اکٹھی ادا کیں۔ اللہ کا شکر ادا کیا۔
حیرة فاﺅنڈیشن والوں نے شامی مہاجرین کی لسٹیں بنائی ہوئی ہیں۔ ان لسٹوں کے مطابق وہ سب رجسٹرڈ اور لسٹ میں شامل خاندانوں کو باقاعدگی سے راشن وغیرہ بہم پہنچاتے ہیں۔ شامی مہاجرین کے محلوں میں جا کر ایک ایک گھر میں فوڈ پیکٹس کپڑے اور عبایا جات تقسیم کیے جس جگہ بھی گئے وہاں بچوں کا ہجوم اکٹھا ہو گیا۔ ان پھول جیسے بچوں میں لاہور سے لائے ہوئے تحائف تقسیم کیے۔ بچے خوبصورت تحائف اور کھلونے حاصل کر کے بہت خوش ہوئے۔ بچوں کو کھلونے اور کھانے پینے کی اشیاءمل جائیں تو ان کی عید ہو جاتی ہے۔ یہاں آ کر اندازہ ہوا کہ دنیا کے کسی ملک میں چلے جائیں۔ بچوں کی حرکات اور انداز ایک جیسے ہوتے ہیں جس طرح تحائف لے کر جنوبی وزیرستان کے بچے خوش ہوا کرتے تھے۔ اسی طرح شام کے بچے بھی کھلونے اور تحائف لے کر خوشی سے اُچھل کود رہے تھے۔ شام کے متاثرین کے پاس جا کر انہیں عزت و اکرام اور توقیر کے ساتھ اشیائے ضروریہ فراہم کر کے دلی مسرت ہوئی۔ پاکستان سے ترکی اس کام کے لیے آئے تھے۔تقبل اللہ یعنی اللہ قبول کرے۔ نماز مغرب مسجد خلیل اللہ میں ادا کی۔حضرت ایوبؓ کے نام سے منسوب کنوئیں پر کھڑا گردشِ ایام کو تصور میں لا رہا تھا ۔