خبرنامہ

ڈاکٹر جس کے ہاتھ میں شفا ہے اور امید کا سورج بھی

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

ڈاکٹر جس کے ہاتھ میں شفا ہے اور امید کا سورج بھی

میں انہیں اللہ، کعبہ اور بندہ کے حوالے سے جانتا ہوں۔ اس کتاب کا مطالعہ کرتے ہوئے مجھے محسوس ہوا کہ یہ ایک ایسا بندہ ہے، اللہ خود جس کے انتہائی قریب ہو گیا ہے۔ اللہ اپنے رب سے ان بندوں کونوازتا ہے جو اللہ کے بندوں کے قریب ہوتے ہیں۔
ڈاکٹر آصف محمود جاہ ہیں تو کسٹم میں ایک اعلی افسرلیکن وہ ایک انسانیت نواز شخص ہیں۔ ان کا دل بھی لوگوں کے لیے تڑپتا ہے، اور ان کاذہن لا چاروں کی دستگیری کی سوچ میں ہمہ وقت مصروف رہتا ہے۔
ان دنوں آپریشن ضرب عضب کی وجہ سے نو لاکھ مہا جر ین کا ایک جم غفیر سے نکل کر بنوں اور ڈیرہ اسماعیل خاں کے نواح میں آباد ہے۔ ابھی آپریشن کا آغاز بھی نہیں ہوا تھا کہ ڈاکٹر صاحب کی تنظیم کسٹمز ہیلتھ کیئر سوسائٹی نے میران شاہ کے عین قریب ایک میڈیکل کیمپ جا قائم کیا، نیت یہ تھی کو جولوگ گھروں سے نکلیں، انہیں ضروری دوا دارو فوری طور پر فراہم کر دیا جائے۔ ڈاکٹر صاحب ہر آفت میں متحرک رہے، دو ہزار پانچ کا زلزلہ، دو مرتبہ قیامت خیز سیلاب، آواران کا زلزلہ اور پھر تھر میں قحط سے بچوں کی ہلاکت، ہر جگہ ڈاکٹر صاحب کے نقش قدم دیکھے جاسکتے ہیں۔ مجھے تجسس ہی تھا کہ ایک کسٹم افسرذاتی طور پر کتنا کمالیتا ہوگا۔ اتنی بڑی خدمت و تنہا تو انجام نہیں دے سکتا۔ مجھے دو روز پہلے اپنے اس سوال کا جواب مل گیا، اقبال ٹاؤن کے ایک شادی ہال میں انہوں نے دعوت افطار کا اہتمام کیا، ہال کے اندر میلے کا سماں تھا۔ تین سو سے زائد مہمان انتہائی مہذب انداز میں بیٹھے تھے، یہ خاموشی جامعہ اشرفیہ کے مولانافضل الرحیم نے ایک دعا سے توڑی، وہ گریہ وزاری کررہے تھے کہ یہ وقت دعا ہے، جنت کے دروازے کھلے ہیں اور ان پران لوگوں کی صفات لکھی ہیں جو بلا روک ٹوک اندر جا سکتے ہیں، ان میں وہ بھی ہوں گے جواللہ کی مخلوق سے مہربانی سے پیش آتے ہیں، کرومہربانی تم اہل زمیں پر خدا مہرباں ہوگا عرش بریں پر۔
اس تقریب کی ایک خصوصیت یہ تھی کہ پروفیسرمحفوظ قطب یہاں اپنی خطاطی کے بیس نمونے لائے تھے اور یہ ان نیک بندوں کو پیش کیئے جانے تھے جنہوں نے پچاس ہزار سے زائد کے عطیات دیئے ہوں یا دینا چاہتے ہوں، دیکھتے ہی دیکھتے سترہ عطیات کا اعلان ہوگیا، تین پینٹنگز باقی تھیں، ایک کے لیئے ایک لاکھ روپے کا اعلان ہوا، دوسری کے لیے پچاس ہزارکا، تیسری کے لیئے میں نے تجویز دی کہ یہ کسی بچے یا بچی کو پیش کی جائے جو سب سے کم عطیہ دے ایک بچے نے بیس روپے دیئے اور جنت کی ٹکٹ کے ساتھ اسے اسم محمد ﷺکی خوبصورت خطاطی کی پینٹنگ بھی مل گئی، یہ بچہ خوشی سے پھولے نہیں سمارہا تھا۔ جیسے دو جہاں کی نعمتیں مل گئی ہوں۔ پروفیسر قطب ٹیکسٹائل انجنیئر نگ کے استاد ہیں، ملک کی بڑی بڑی ٹیکسٹائل ملوں کی بنیاد میں ان کی مشاورت اورفنی مدد شامل ہے مگر وہ ذوق لطیف کے مالک ہیں، اور فارغ وقت میں اسمائے حسنی اور اسمائے رسولﷺکی خطاطی کرتے ہیں، ان کی ایک خطاطی کی کلر اسکیم، دوسری خطاطی سے مختلف ہوتی ہے، میں فائن آرٹ کا طالب علم بھی نہیں کہ اس پر تبصرہ کر سکوں مگر ان کے فن پاروں کو چوم لینے کو جی چاہتا ہے۔ یہ خطاطی نہیں، رنگ و نور کی قوس قزح ہے جسے وہ برش سے ایک کینوس پر منتقل کر دیتے ہیں۔ یہ ان کا روشن جذبہ ہے جو اچھل کر ہمارے سامنے موجزن ہوجاتا ہے۔
میں کدھر نکل گیا، میں نے تذکرہ کرنا تھا ان روحانی شخصیتوں کا جو دکھی لوگوں کا سہارا بننے کے لیئے ہمہ وقت مچلتے ہیں، ان کی پہلی اور آخری امنگ یہ ہوتی ہے کہ وہ کسی کی شکستہ امنگوں کو جوڑ سکیں۔ اللہ نے ان کو بہت دیا ہے اور وہ دل کھول کر اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں۔
کسٹمز ہیلتھ کیئر سوسائٹی کی سالانہ افطاری میں، میں نے ایسے ہی نورانی چہرے دیکھے، وہ طمانیت کی دولت سے سرشار تھے، اور اپنی دنیوی دولت مستحقین پر نچھاور کر رہے تھے، اعجاز سکانے تین پینٹنگز لیں تو میں نے حیران ہو کر ڈاکٹر آصف جاہ سے پوچھا کہ یہ کیا ماجرا ہے، اکیلے کو تین تحفے، کہنے لگے، ان کا پورا خاندان الگ الگ ہمارے ساتھ تعاون میں پیش پیش ہے، ایاز سکا کو میں، اس سے پہلے آواری ہوٹل کی ایک افطاری میں مل چکا تھا۔ وہ نام ونمود کی خواہش نہیں رکھتے، کوشش کرتے ہیں کہ لینے والے ہاتھ دینے والے ہاتھ کا پتا نہ چل سکے۔ لیکن میں نے ڈاکٹر صاحب سے خصوصی اجازت لے کر ان کا تذکرہ کیا ہے، میں کسٹمز ہیلتھ کیئر سوسائٹی کے دیگر نمایاں ڈونرز کا بھی یہاں تذکرہ ضروری سمجھتا ہوں کیونکہ اس سے معاشرے میں نیکی کی تقلید کی روایت مستحکم ہوتی ہے۔
اس تقریب میں شمولیت سے مجھے ایک سبق ملا ہے کہ ہم جس قدر بھی محفوظ اور مامون ہیں، یہ ان لوگوں کی برکت ہے جو اللہ کی راہ میں طوفان بلاخیز بن کر خرچ کرتے ہیں۔ وہ آندھی کی طرح خیرات کا جھکڑ چلا دیتے ہیں۔ میں کس کا نام لکھوں اورکس کانہ لکھوں، یہ ایک طویل فہرست تھی لیکن میرے حافظے میں جو نام رہ گئے۔ ان میں سید محبوب علی، افتخار بشیر، عدیل ہاشمی، علامہ شاہد، عامر ملک، پروفیسر خالد مسعود گوندل، پروفیسر ندیم حیات ملک، میاں ارشاد، اشرف النسا بیگم، عظمی عاقب شامل ہیں، سعودی عرب سے ڈاکٹر جنید اصغراور آسٹریلیا کے فضل چودھری بھی اس فضل و کرم کے منصوبے کا قابل قدر کردار ہیں۔ فیڈرل بورڈ آف ریوینو کے چیئر مین طارق باجوہ اور چیف کلکٹر کسٹمز لا ہور روزی خاں برکی کا سرگرم تعاون اور سرپرستی بھی ڈاکٹر صاحب کو حاصل ہے۔ میں ڈاکٹر صاحب کی ماضی کی گراں قدر خدمات کا یہاں احاطہ نہیں کر سکتا، اس پر تو انہوں نے درجنوں کتابیں خود لکھ دی ہیں، مگر حالیہ بحران میں وہ جس طرح پیش پیش ہیں، اس پر انہیں بے اختیار ہو کر خراج تحسین پیش کرنے کو جی چاہتا ہے۔ وہ پچھلے ایک ماہ میں پچاس لاکھ روپے کی اشیا وزیری مہاجرین میں تقسیم کر چکے ہیں ، ان کے میڈیکل کیمپ ہمہ وقت کام کر رہے ہیں، بنوں میں قائم ہسپتال میں انہوں نے 23 ہزار مریضوں کو مفت طبی امداد فراہم کی ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے خصوصی طور پر اپیل کی ہے کہ مہاجرین کو سولر پنکھوں کی اشد ضرورت ہے یا واپڈا والے کم از کم بنوں شہر کو لوڈ شیڈنگ سے مستثنی قرار دیں۔ انہوں نے بتایا کہ وزیری مہا جر ین بڑے خوددار واقع ہوئے ہیں، وہ خیموں میں رہنا پسندنہیں کرتے، اول تو انہوں نے خود ہی گھر کرائے پرلے لئے ہیں ور نہ اہل بنوں نے اپنے گھروں کے دروازے ان کے لیے کھول دیئے ہیں۔ اہل بنوں نے انصار مد ینہ کی یاد تازہ کردی ہے۔
ڈاکٹر صاحب محض علاج معا لجے تک محدود نہیں ہیں، وہ امید کی شمعیں بھی روشن کرنے میں مگن رہتے ہیں، انہوں نے بتایا کہ وزیری مہاجرین کے بچوں کوتحائف ملتے ہیں تو وہ اچھل اچھل کر پاکستان زندہ باد کے نعرے لگاتے ہیں۔ اور ان نعروں کے عقب سے وہ سورج جھانک رہا ہے جو ہمارے وطن کے کل کو جگمگائے گا۔ (20 جولائی 2014)