خبرنامہ

ڈرون حملوں کی نئی امریکی پالیسی

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

ڈرون حملوں کی نئی امریکی پالیسی

میرے لیئے یہ خبر حیرت کا باعث ہے کہ امریکہ نے بڑی مہربانی کی اور پاکستان میں الیکشن کے دوران کوئی ڈرون حملہ نہیں کیا۔ اس کا فائدہ کس جماعت کو پہنچا، لازمی طور پر ان جماعتوں کو جوڈرون حملوں کے خلاف ہیں مگر میں اس سے یہ نتیجہ اخذ کرنے کے حق میں نہیں ہوں کہ امریکہ نے کسی خاص پارٹی کو جتوانے کے لیئے ایسا کیا۔
عمران خان نے ڈرون حملوں کے خلاف احتجاجی جلوس بھی نکالا اور میاں نواز شریف نے انتخابی مہم کے دوران وعدہ کیا ہے کہ وہ ڈرون حملہ رکوانے کے لیئے امریکہ سے بات کریں گے یا پھر ان کی کمان پاکستان کے حوالے کرنے کا مطالبہ کریں گے۔ پشاور ہائی کورٹ ڈرون حملوں کو غیر قانونی قرار دے چکی ہے، اس نے حکم دیا ہے کہ امریکہ کو پہلے تو وارننگ دی جائے اور حملے پھر بھی نہ رکیں تو ڈرون مار گرائے جائیں، یہ مسئلہ سلامتی کونسل میں لے جایا جائے اور ڈرون متاثرین کے لیئے معاوضہ طلب کیا جائے۔ ڈرون حملوں کے خلاف ایک درخواست جماعت الدعوہ کے حافظ محمد سعید بھی لاہور ہائی کورٹ میں دائر کر چکے ہیں جس پر کارروائی کوئی زیادہ آگے نہیں بڑھی۔ یہ مطالبہ بھی کیا جارہا ہے کہ اگر اب ڈرون حملہ ہوتا ہے تو اگلی حکومت کے خلاف توہین عدالت کے تحت کارروائی کی جائے۔
ان سطور کی اشاعت کے ساتھ ہی ممکنہ طور پر صدر اوبامہ کی نئی ڈرون پالیسی کے نکات اخبارات میں آ جائیں گے بلکہ ہمارے درجنوں ٹی وی چینلز ساتھ ہی ساتھ اس کے گھر چلا دیں گے۔ میں اس وقت اس ماحول کی بات کرسکتا ہوں جو تقریر سے پہلے امریکہ میں دیکھنے میں آرہا ہے۔ ڈرون حملوں کی قانونی حیثیت پر بہت سے سوالات اٹھائے جارہے ہیں۔ لوگ جاننا چاہتے ہیں کہ یہ حملے اپنے اخراجات کے مقابلے میں لئے موثر ثابت ہوئے ہیں۔ بڑا سوال یہ بھی ہے کہ کیا ڈرون کے ذریعے حقیقی دہشت گردوں کو ٹارگٹ کیا گیا ہے یا بے گناہوں کا خون کیا گیا ہے، امریکہ میں یہ بحث بھی چل رہی ہے کہ اب تک کم از کم چار امریکی شہریوں کوبھی ڈرون کا نشانہ بنایا گیا ہے، ان پر حملے یمن میں ہوئے، امریکی حکومت کا دعوی ہے کہ ان کا تعلق القائدہ سے تھا اور انہوں نے امریکہ میں دہشت گردی کی بعض کارروائیاں کیں یا ان کی منصوبہ بندی میں حصہ لیا۔ امریکیوں کا یہ کہنا ہے کہ ڈرون حملوں میں اگر کمی دیکھنے میں آرہی ہے تو اس کی کئی ایک وجوہات ہیں، ایک تو امریکہ کے خلاف ایک فضا بن رہی ہے، خاص طور پر ایٹمی طاقت سے لیس ملک پاکستان میں۔ امریکہ اس نفرت کو بڑھانے کا خطرہ مول نہیں لینا چاہتا۔ دوسری وجہ یہ بتائی جارہی ہے کہ القاعدہ کی کمر توڑ دی گئی ہے۔ تیسری وجہ بے گناہوں کی ہلاکت ہے جس پر بعض امریکیوں کی رائے ہے کہ ان کی تعداد بڑھا چڑھا کر بیان کی جاتی ہے لیکن اگر سینکڑوں ڈرون حملوں میں ایک بھی بے گناہ کی ہلاکت کو تسلیم کر لیا جائے تو یہ اقوام متحدہ کے اس چارٹر کے سراسر خلاف ہے جوہرشخص کو زندہ رہنے کی ضمانت فراہم کرتا ہے۔
تبدیلی کا نعرہ بڑا خوش کن ہے۔ حالیہ پاکستانی الیکشن میں بھی یہ نعرہ جوش وخروش سے لگایا گیا ہے، اس نعرے کا پہلی بار استعال براک اوبامہ نے دو ہزار آٹھ کے الیکشن میں کیا۔ وہ اپنے پیش روصدر بش کی پالیسیوں کو بدلنا چاہتے تھے مگر ہوا کیا، پرانی پالیسیاں ان کے پاؤں کی زنجیر بن کر رہ گئیں، اوبامہ نے اپنے پہلے دور صدارت میں عالمی میدان جنگ کو وسیع کیا اور تھانی اور ہلاکت کے کھیل کوسنگین بنادیا۔ دو ہزاردس کا سال ڈرون حملوں میں سب سے زیادہ تیزی لایا۔ وائٹ ہاؤس کی پالیسیاں زمینی حقائق کے اس قدر منافی تھیں کہ پاکستان اور افغانستان میں متعین امریکی سفیروں کو استعفا دینا پڑا۔ امریکی افواج کے کمانڈر میک کرسٹل کو بھی حکومتی پالیسیوں پرنکتہ چینی کی وجہ سے استعفا دیناپڑا۔
تبدیلی کے نعرے پرعمل کا وقت شاید اب آ گیا ہے اور وہ بھی حالات کی مجبوری ہے۔ امریکہ کے خلاف عالمی سطح پر نفرت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ عافیہ صدیقی کے خلاف کیس اور فیصلے سے پاکستان میں امریکی مقبولیت کا گراف انتہائی نچلی سطح تک گر گیا ہے۔ گوانتاناموبے کے عقوبت خانے کی داستانوں نے انسانیت کی چیخیں نکلوا دی ہیں۔ امریکی نظام انصاف بھی اس عقوبت خانے کو جواز دینے سے انکاری ہے۔ بگرام جیل میں مظالم پر بھی عالمی ضمیر سراپا احتجاج بنا ہوا ہے۔ امریکہ اپنے جارحانہ رویے پر کس حد تک نظرثانی کرتا ہے، اس کی خبرتو اس کالم کے ساتھ ہی شائع ہو جائے گی لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ جو ممالک امریکی جارحیت کا نشانہ بن رہے ہیں، ان کی لیڈرشپ کس طرح خم ٹھونک کر میدان میں کھڑی ہوتی ہے۔ پاکستان میں میاں نواز شریف اور عمران خان کو ایک سخت امتحان در پیش ہے۔ عمران خان کو اس صوبے میں دھکیل دیا گیا ہے جو براہ راست ڈرون حملوں کا نشانہ بنارہا، وفاق میں نواز شریف کو اقتدار مل رہا ہے جنہوں نے پاپولرنعرے لگانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی لیکن ان نعروں کو عملی شکل کیسے دی جائے گی، میں کوئی قبل از وقت تبصرہ کرنے کے شوق میں مبتلا نہیں، جو ہوگا، سب دیکھیں گے۔ نعرے لگانا آسان ہے۔ کشمیر پر ہزار سال تک جنگ لڑیں گے۔ بڑا پاپولر نعرہ تھا اور یہی کشمیر آج پس پشت دھکیل دیا گیا ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ کشمیر پر کسی مہم جوئی کے حق میں ہمارا بہترین دوست عوامی جمہوریہ چین بھی نہیں جس کے وزیر اعظم نے گزشتہ روز پاکستان کی سرزمین پر اترتے ہی کہا تھا کہ وہ اسٹریٹیجک تعلقات کومستحکم بنانے کے لئے آئے ہیں۔ بی تعاون بھارت کے خلاف تو ہمیں مل سکتا ہے۔ شاید امر یکہ کے خلاف نہیں، اس سلسلے میں ہمیں صرف اور صرف اپنے زور بازو پر انحصار کرنا ہوگا۔
اہمیت اس بات کی نہیں کہ صدر اوبامہ نے نئی ڈرون پالیسی کیا دی ہے، اہم بات یہ ہے کہ ہماری قیادت ڈرون حملوں پر کیا پالیسی اختیارکرتی ہے۔ امریکہ کوخونریزی کے کھیل میں کتنی آزادی دی جاتی ہے اور مشرف کی طرح ڈالروں سے غیرملکی اکاؤنٹ بھرنے کو ترجیح دی جاتی ہے یا مر مٹنے کا عزم کر کے پاکستانی قوم کو عالمی استعمار کے خلاف ناقابل تسخیر دیوار بنادیا جاتا ہے۔ (24 مئی 2013ء)