خبرنامہ

ڈیم فنڈ پر بلا جوازاعتراضات اور چند تجاویز…اسد اللہ غالب

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

ڈیم فنڈ پر بلا جوازاعتراضات اور چند تجاویز…اسد اللہ غالب

محترم چیف جسٹس نے ڈیم فنڈ پر اعتراضات کا سخت نوٹس لیا ہے اور یہ بے جا نہیں۔چیف جسٹس کے فنڈا ور وزیر اعظم کی طرف سے فنڈ مانگنے میں بہت زیادہ فرق ہے۔ قوم اپنے چیف جسٹس پر آنکھیں بند کر کے اعتماد کر سکتی ہے مگر ایک سیاست دان بہر حال ایک سیاست دان ہے اورا س سے اختلاف رائے کی گنجائش بہر حال موجود ہوتی ہے۔
چیف جسٹس آف پاکستان نے ملک میں پانی کی قلت پر قابو پانے کے لئے قومی لیڈرشپ کو دو ڈیموں کی تعمیر پر متفق کیا۔ فاروق نائیک نے انہیں خراج تحسین پیش کیا کہ چیف جسٹس قوم پر جوا حسان کر رہے ہیں ، اسے آئندہ نسلیں بھی یاد رکھیں گی۔پاک فوج نے سب پہ برتری قائم رکھتے ہوئے چیف جسٹس کی آواز پر لبیک کہا اور افسروں کی دو دن اور سپاہیوں کی ایک دن کی تنخواہ ڈیم فنڈ میں عطیہ دینے کا اعلان کیا۔ اس مد میں ایک چیک آرمی چیف نے چیف جسٹس کی خدمت میںپیش کر دیا ہے۔ عام لوگوںنے بھی چیف جسٹس کے اعلان کردہ فنڈمیں فراخدلی سے حصہ لیا۔ بچوں کے جوش و خروش کا عالم یہ ہے کہ میرے کم سن پوتے نے بھی میرے فون کو استعمال کرتے ہوئے چندے کا بٹن دبا دیا۔ اس نے اپنے چندے کی خبر بڑے فخر اور خوشی سے مجھے بتائی۔ سندھ کے نو منتخب چیف منسٹر نے بھی کہا کہ انہیں بھاشہ ڈیم کی تعمیر پر کوئی اعتراض نہیں ۔ عام طور پر یہ صوبہ دریائے سندھ پر ڈیم کی مخالفت میں پیش پیش ہوتا ہے مگر چیف جسٹس کے تجویز کردہ ڈیم پر اس صوبے کی مہر ثبت ہونے سے عوام نے سکون کا سانس لیا ور انہیں توقع پیدا ہوئی کہ اب چیف جسٹس کے پروگرام کے مطابق ڈیم کے رستے میں کوئی رکاوٹ پیش نہیں آئے گی۔
مگر تماشہ ا س وقت لگا جب وزیر اعظم عمران خاں نے ڈیم فنڈکا اعلان کردیااور سمندر پاکستانیوں سے اپیل کی وہ کم ا زکم ایک ہزار ڈالرکا عطیہ ضرور دیں۔ اس اعلان سے ایک ابہام سا سا منے ا ٓیا کہ جب چیف جسٹس ایک فنڈ کاا علان کر چکے ہیں تو وزیر اعظم کے الگ فنڈ کی منطق کیا ہے۔ اچھاہوا کہ وزیر اعظم نے بہت جلد اس کنفیوژن کو دور کرتے ہوئے دونوں فنڈ ایک کر دیئے۔ مگر اس دوران حکومت کے مخالفین کو موقع مل گیا کہ وہ اپنا بغض نکالیں۔ یہی وہ مرحلہ ہے جب بھیک مانگنے کا طعنہ دیا گیا اور یہ بھی کہا گیا کہ عمران خان نے ہسپتال تو چندے سے تعمیر کر لیے مگر بیس کھرب کا ڈیم محض چندوں کی بنیاد پر مکمل نہیں ہوسکتا۔
چیف جسٹس کی خفگی بہر حال جائز ہے کہ کسی سیاستدان کو اس منصوبے کی مخالفت نہیں کرنی چاہئے تھی اورا سے بھیک فنڈ کا نام بھی نہیں دینا چاہیئے تھا، اب توقع کی جا سکتی ہے کہ وزیر اعظم کے ایک طرف ہو جانے سے کسی شخص کو ڈیم پر سیاست کرنے کی جسارت نہیں ہو گی۔
چیف جسٹس کا یہ نکتہ بھی وزنی ہے کہ ڈیم کی تعمیر بنیادی حقوق کا مسئلہ ہے۔ اس بنا پر ان کی مداخلت ا ور دلچسپی کو چیلنج نہیں کیا جاسکتا۔میری ہی نہیں، ہر پاکستانی کی رائے ہے کہ چیف جسٹس کا انشی ایٹو انتہائی قابل قدر ہے۔ یہ کام تو سابقہ حکومتوں کے کر نے کا تھا جس کی طرف کسی نے بھی توجہ نہیں دی۔
میںنے کئی مرتبہ لکھا ہے کہ چیف جسٹس نے اصل میں قوم کو جگانے کی کوشش کی ہے۔ میری طرح کئی حلقوں کی رائے ہے کہ ڈیم کا منصوبہ اتنا بڑا ہے کہ اس کے لئے رقم کے حصول کے لئے کئی طریقے اختیار کئے جانے ضروری ہو جائیں گے۔ آج نہیں تو کل،عالمی مالیا تی اداروں سے بھی رجوع کیا جا سکتا ہے لیکن اس ضمن میں کچھ رکاوٹوں کا سامناہو سکتا ہے کیونکہ بھارت اور امریکہ ڈیم کے علاقے کو متنازعہ قرار دے چکے ہیں۔ اگرچہ یہ اعتراض اتنا بڑا وزنی نہیں کیونکہ عالمی بنک کے توسط سے کشمیر ہی میں منگلا ڈیم تعمیر کیا گیا۔ اس کے لئے سندھ طاس کا معاہدہ ہوا جس پر بھارت نے بھی دستخط کر رکھے ہیں۔اگر بھارت اور امریکہ ا س معاہدے کا لحاظ کریں تو انہیں بھاشہ پر کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہئے۔
ڈیم کے لئے فنڈ اکٹھا کرنے کا ایک طریقہ تو وہی ہے جو وزیر اعظم نے اختیار کیا کہ سمندر پار پاکستانی آگے بڑھیں ۔ یہ لوگ پاکستان پر جان دینے کو تیار ہیں ، رقم تو معمولی بات ہے مگر ان پاکستانیوںسے ہم نے کبھی اچھا سلوک نہیں کیا۔ قرض اتارو ملک سنوارو اسکیم کے لئے بھی بیرون ملک پاکستانیوں نے جو ش و خروش سے حصہ لیا مگر انہیںکچھ پتہ نہیں کہ ان کے عطیات کہاں گئے۔ کم از کم یہ اسٹیٹ بنک میں تو جمع نہیں کرائے گئے۔ شایدجس نے اکٹھے کئے ، وہی ہڑپ کر گیا۔ وزیر اعظم کو ایک نکتہ اور بھی ذہن میں رکھنا چاہئے کہ ڈیم کا فائدہ بیرون ملک پاکستانیوں کو براہ راست نہیں پہنچے گا ،ا س سے تو ملک کے اند رہنے والے لوگ بہرہ مند ہوں گے۔ ا س پس منظر میں وہ سوال کر سکتے ہیں کہ جو لوگ اس ڈیم سے مستفید ہوں گے وہی چندہ بھی دیں۔
فنڈ ریزنگ کا ایک طریقہ ایک بڑی ایمنسٹی اسکیم بھی ہو سکتا ہے۔ اسوقت نیب ، ایف ا ٓئی اے اور چھوٹی بڑی عدالتیں لوٹی ہوئی دولت کا سراغ لگانے میں مصروف ہیں ،انہیں خاطر خواہ کامیابی نہیںہو رہی۔ اس لئے اگر ان کرپٹ لوگوں کو پیش کش کی جائے کہ وہ لوٹی ہوئی دولت کا ایک حصہ ا س فنڈ میں دے کر اپنی جان چھڑا سکتے ہیں جیسا کہ پلی بارگین کا اصول پہلے ہی نیب میں رائج ہے۔ اس لئے حکومت کو وقت ضائع کئے بغیر اس ایمنسٹی اسکیم یا پلی بارگین اسکیم کاا علان کردینا چاہئے۔ اگر حکومت محض انتقام کی خاطر کرپشن کے خلاف مہم چلا رہی ہے تو شایدہی یہ طریقہ اختیار کرے کیونکہ اسے ایک موقع ہاتھ آیا ہے کہ وہ اپنے سیاسی مخالفیں کو زچ کر سکے۔ حکومت یا تو انتقام لے لے یا ڈیم کے لئے فنڈ اکٹھا کر لے۔ دونوں کام بیک وقت نہیں ہو سکتے۔
وزیر اعظم کئی بار ریاست مدینہ کی مثال دے چکے ہیں۔ انہیں کسی سے پوچھنا چاہئے کہ نبی کریم ؐ فنڈ ریزنگ کے لئے کیا راستہ اختیار کیا کرتے تھے۔ یہ راستہ ایک ہی تھا کہ وہ صحابہ کرام ؓ سے صدقات، خیرات، عطیات کی اپیل کرتے تھے اور ایسے ہی ایک موقع پر ان کے انتہائی با اعتماد ساتھی جناب صدیق اکبر ؓ نے اپنے گھر کا سارا سامان اٹھا کر مسجدنبوی میں لا کرڈھیر کیا تھا ۔ پیارے نبی ؐ نے پوچھا کہ گھر والوں کے لئے کیا رکھا ہے، جواب ملا کہ صدیق ؓ کے لئے خدا کا رسول کافی ہے ۔ کیا وزیر اعظم کے ساتھی اس مثال پر عمل کر سکتے ہیں۔تحریک انصاف میں ایک سے ایک بڑھ کر کروڑ اور ارب پتی موجود ہے۔ جہانگیر ترین علیم خان، چودھری سرور، اعظم سواتی چند ایک نام ہیں جن کی طرف میں بھی اشارہ کر سکتا ہوں۔ چند برس پہلے میرے گائوں کے معززین کا ایک وفد میرے پاس آیا۔ انہوں نے کہا کہ گائوں کی آبادی بڑھ گئی ہے۔ پرانی مسجد اب تنگ پڑ گئی ہے۔ اسے شہید کر کے فراخ عمارت تعمیر کرنے کا ارادہ ہے۔ ان کی خواہش تھی کہ میں لاہور میں اپنے متمول دوستوں سے عطیات مانگوں ۔ میں نے اس وفد سے کہا کہ آپ میں سے ہر شخص صاحب حیثیت ہے اور اگر کوئی بھی چاہے تو وہ تنہا مسجد بنانے کا اعزاز حاصل کرسکتا ہے۔ کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانے کی ضروت ہی نہیں اور یہ مسجد گائوں والوںنے اپنے ہی ذرائع سے تعمیر کر لی۔ میں تو وزیر اعظم سے یہی توقع رکھتا ہوں کہ وہ سب سے پہلے اپنے امیر ترین ساتھیوں کو تکلیف دیں اور جب رقم پوری نہ ہو تو پھر عام لوگوں کے سامنے ہاتھ ضرور پھیلائیں۔ نیک مقصد کے لئے ہاتھ پھیلانے یا جھولی پھیلانے میں کوئی ہرج نہیں۔ میں ایک بار نوائے وقت کے دفترمیں اداریہ لکھنے میںمصروف تھا کہ مجھے خبر ملی کہ چیئر نگ کراس پر عبدالستار ایدھی صاحب گاڑیوں والوں کے سامنے ہاتھ پھیلائے کھڑے ہیں۔ میںنے قلم وہیں روک د یاا ور ایدھی صاحب کا منظر دیکھنے چلا گیا۔ ایک عجیب منظر دیکھنے میں آیا۔زمین سے آسمان تک مجھے نور ہی نور جگمگاتا نظر آیا۔ ایدھی صاحب نے کٹے پھٹے کپڑے پہن رکھے تھے۔ پائوں میں کھڑائوں چپل۔ اڑی ہوئی ڈاڑھی، مگر ہر کار والا ان کے پاس رکتاا ور کچھ نہ کچھ ان کی جھولی میں ڈال کر آگے بڑھتا۔
بھاشہ ہی کے سلسلے میں ایک اور نکتہ پیش نظر رکھنا ضروری ہے کہ یہ منصوبہ دس بارہ برسوںمیں مکمل ہو گا۔ اس کی جھیل میں قراقرم ہائی وے کا سو ڈیڑھ سو میل حصہ ڈوب جائے گا اور یہ حصہ کسی متبادل روٹ پر تعمیر کرنا پڑے گا۔ یہ سارا پہاڑی علاقہ ہے۔ اور راتوں رات متبادل سڑک تو تعمیر نہیںہو سکے گی۔
ایک اور خطرہ جو بھاشہ سے لاحق ہو سکتا ہے کہ خدا نخواستہ یہ کبھی ٹوٹ گیا تو سار اپاکستان بہہ کر بحیرہ عرب میں جا گرے گا۔
کئی ماہرین آج بھی اڑے ہوئے ہیں کہ چیف جسٹس اگر تہیہ کر لیں تو وہ کالا باغ ڈیم تعمیر کر سکتے ہیں۔ یہ پانچ سال کے اندرمکمل ہو سکتا ہے۔اور چاروں صوبوں کو پانی بھی ملے گااور بجلی بھی جبکہ بھاشہ سے خیبر پی کے کو پانی نہیں دیا جا سکے گا۔
میں نے ابھی ایک عمر رسیدہ شخص کا فون سنا ہے۔ انہوںنے ایک ہی سوال کو بار بار دہرایا کہ آخر جنرل ضیا ،جنرل مشرف جیسے پاور فل حکمران کالا باغ ڈیم کے سلسلے میں کس سے ڈر کر اس منصوبے سے پیچھے ہٹے۔ ضیا الحق نے چام کے دام چلائے۔ بھٹو کوپھانسی دے دی، جنرل مشرف نے دو تہائی اکثریت والے وزیر اعظم نواز شریف کا تختہ الٹ دیا۔ اسے جلا وطن کر دیا ۔ ایک چیف جسٹس کے خلاف بھی کارروائی کرڈالی۔ وہ کسی سے نہیں ڈرے مگر کالا باغ بنانے سے ڈرے اور وہ کس سے ڈرے ؟ میرے پاس تو اس سوال کا جواب نہیں ہے۔
ان گزارشات کے باوجود ہمیں ایک کالا باغ اور ایک بھاشہ نہیں کئی ڈیم بنانے ہوں گے۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارت درجنوں ڈیم بنا چکا ہے۔ہمیں بھی چھوٹے بڑے سینکڑوں ڈیم بنانا ہوں گے۔
میری تجویز ہے کہ چیف جسٹس کی ریٹائر منٹ کے بعد ڈیم کے تعمیراتی منصوبے کی نگرانی کاا عزاز ا نہیں سونپا جائے۔ قوم نے انہی کی کال پر لبیک کہی ہے۔
جہاں تک وزیر اعظم کی چندہ اپیل کا تعلق ہے تو لوگ پوچھتے ہیں کہ کل کو پچاس لاکھ گھروں اور اگلے روز ایک کروڑ نوکریوں اورا س سے اگلے روز ہسپتالوںمیں ادویہ کی فراہمی اورا س سے اگلے روز اسکولوں کی اپ گریڈیشن کے لئے کیا چندے مانگے جائیں گے۔ دنیا میںکونسا ملک ہے جو چندوں کے سہارے چل رہا ہے۔ ان سوالوں کا جواب وزیر اعظم اور ان کی ٹیم کے ذمے ہے