خبرنامہ

کائنات حفیظ تائب…..اسدالللہ غالب

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

کائنات حفیظ تائب…..اسدالللہ غالب
میں یہ کالم قبلہ حفیظ تائب سے تعلق نبھانے کے خاطر لکھنا چاہتا تھا، پھر اس میں ان کے برادر محترم مجید منہاس کے محبت بھرے تقاضے شروع ہو گئے۔ مجھے سمجھ نہیں آتی تھی کہ میں ایک ہزار سے زائد صفحات پر مشتمل حفیظ تائب کی نعتوں ، منقبتوں، نظموں اور غزلوں کا مطالعہ کیسے کروں اور اگر مطالعہ کئے بغیر لکھ دوں تو یہ نعت گوئی کے مقدس فن سے بد دیانتی ہوتی، اسی لئے میں مجید منہاس کے ہر فون کے جواب میں ایک ہی جواب دے رہا تھا کہ ضرور لکھوں گا،ذرا کتاب پڑھ لوں مگر اب انہوں نے ایک ایسی بات کہہ دی ہے کہ میں وفور شوق میں کالم لکھنے بیٹھ گیا ہوں۔
جناب مجید منہاس کل عمرہ کے لئے روانہ ہو رہے ہیں ، میں چاہتا ہوں کہ وہ مجھ عاصی کی یہ تحریر روضہ رسول پر پیش کریں۔میں تین چار مرتبہ حضور کے در پر حاضر ہوا ہوں مگر میرا دل کہتا ہے کہ صرف ایک بار حضوری نصیب ہو سکی تھی، مجھے یوں لگا کہ جناب رسالت مآب نے میری طرف مسکرا کر دیکھا ہے۔
حفیظ تائب سے میرا تعلق میرے بڑے بھائی میاں محمد کے توسط سے استوار ہوا، دونوں میو ہسپتال کے سامنے بھارت بلڈنگ میں واقع واپڈا کے دفتر میں کام کرتے تھے،وہ کبھی کبھار ہمارے گھر بھی تشریف لاتے رہے، پھر وہ پنجاب یونیورسٹی سے وابستہ ہو گئے اور ان کی اگلی وابستگی اس کائنات کی عظیم ترین ہستی سے ہو گئی، حفیظ تائب نے نعتیں لکھیں، اردو اور پنجابی دونوں زبانوں میں ، ان کی نعتوں کا ہر شعر محبت اور عشق سے معمور تھا۔ میں بدنصیب گناہوں سے لتھڑا ہوا ان سے دور ہوتا چلا گیا۔مگر اب کئی برسوں سے ان کے بھائی مجید منہاس نے میرے دل میں ایسے کچوکے لگائے ہیں کہ میں حفیظ تائب کی شخصیت سے وہی محبت رکھتا ہوں جو ایک عاشق رسول سے ہونی چاہئے، شاید یہ میرا خوش بختی کے دن ہیں۔
جمعرات کو میری دونوں آ نکھوں کا آپریشن ہوا ہے، ڈاکٹر کی سخت ہدایت ہے کہ میں چند روز لکھنے پڑھنے سے پرہیز کروں مگر میرا دل چاہتا ہے کہ جناب مجید منہاس مدینہ منورہ پہنچیں تو ان کے ہاتھ میں میرا یہ محبت نامہ ہو اور حضور ایک بار پھر مسکرا دیں۔ میں اپنی آ نکھوں کی بیماری بھول گیا ہوں۔مجھے آنکھوں کی پروا نہیں، میرا سب کچھ نبی پاک پر قربان۔پہلی بات یہ ہے کہ حفیظ تائب کی نعتوں اور شاعری کے بہت سے مجموعے شائع ہوئے، کلیات تک چھپ چکی مگر ان کے ہونہار نواسے نعمان نے مزید تحقیق کی تو پتہ چلا کہ یہ سب کچھ ادھورا تھا ، سو کائنات حفیظ تائب میں سب کچھ جمع کر دیا گیا ہے، یہ ایک گرانقدر کاوش ہے جس کے لئے اس نوجوان محمد نعمان تائب کو داد دی جانی چاہئے، انہوں نے اپنے نانا کا نہیں، تاریخ کا ایک قرض چکایا ہے اور ادب عالیہ کا ایک مرقع تیار کیا ہے۔
میں نہ تو شاعر ہوں ، نہ ادیب اور نہ فن نعت گوئی کی باریکیوں سے ذرہ بھر آشنا۔ اس لئے جو لوگ اس میدان کے شناور ہیں، ان کے خیالات کا حاصل پیش خدمت ہے،۔ گر قبول افتد زہے عزو شرف!
احمد ندیم قاسمی نے کیا کہہ دیا: میں نعت کے اس دور کی خوش قسمتی سمجھتا ہوں کہ اس دور کو حفیظ تائب کا سا نعت گو نصیب ہوا۔چنانچہ بیسویں صدی کی نعت کا عنوان حفیظ تائب کی نعت ہے۔ اور دیگر سب نعت گو ان کے خوشہ چین اور مقلد ہیں۔
مشفق خواجہ لکھتے ہیں: میری نظر میں ایسا کوئی اور مجموعہ نعت نہیں ہے۔
حافظ لدھیانوی خود نامی گرامی نعت گو تھے، وہ کہتے ہیں: اہل علم و ادب کا متفقہ فیصلہ ہے کہ حفیظ تائب عصر حاضر کے سب سے عظیم نعت نگار ہیں۔
ڈاکٹر سلیم اختر کی تحقیق ملاحظہ ہو، اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم نعت گو حفیظ تائب کے عہد میں نعت گوئی کر رہے ہیں۔
ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا فرماتے ہیں کہ حفیظ تائب نے صنف نعت کو جس طرح اپنایا اور اسے ثروت مند کیا، اس کا جواب پوری اردو شاعری میں نہیں ملتا۔
ڈاکٹر خورشید رضوی بھی فن نعت گوئی کا بڑا نام ہے، وہ کہتے ہیں:ہمارے معاصرین میں جناب حفیظ تائب کو صنف نعت کا نمایاں ترین شہ سوار تسلیم کیا گیا ہے۔
عطاا لحق قاسمی کہتے ہیں کہ تائب صاحب جدید نعتیہ شاعری کی عمارت کے اولیں معمار ہیں۔
امجد اسلام امجد یوں خراج عقیدت پیش کرتے ہیں کہ مدح رسول سمندر کو قطرے میں اور کل کو جزو میں محدود کرنے کا نا ممکن عمل سہی مگر نعت کے آئینے میں اس کے جس قدر عکس حفیظ تائب نے جمع کئے ہیں، ہمارے دور کے کسی بھی نعت گو سے نہیں بن پائے۔
ڈاکٹر تحسین فراقی یوں گویا ہوئے ہیں ، اگر ہم سے پوچھا جائے کہ تخلیق پاکستان کے بعد اردو کا ممتاز ترین نعت گو کون ہے تو میں بلا تامل جناب حفیظ تائب کا نام لوں گا۔
ڈاکٹر احسن عزیز رقم طراز ہیں کہ حفیظ تائب کی شعری جمالیات میں لفظوں کو برتنے کا فن نمایاں ہے۔ان کی نعتوں میں صوتی حسن بھی ہے اور معنوی جمال بھی۔
پروفیسر فیض رسول فیضان لکھتے ہیں کہ حفیظ تائب کی نعتوں میں لفظی شا ن و شکوہ اور لفظیاتی طنطنہ و طمطراق اپنے جوبن اور عروج پر نظر آتا ہے۔ لیکن یہ لفظی شکوہ و جمال کسی مرحلے پر مشکل گوئی یامشکل پسندی کے سانچے میں نہیں ڈھلتا۔
ڈاکٹرآٓفتاب نقوی کہتے ہیں کہ ثنائے رسول اول و آخر کے حوالے سے بلاشبہ یہ عہد جناب حفیظ تائب کا ہے۔ اور آنے والی صدیوں میں بھی عروس سخن کی حنا بندی کا فریضہ حفیظ تائب کا یہی شعور ثنا اوریہی انداز نعت سر انجام دے گا۔
عاصی کرنالی کی رائے ہے کہ حفیظ تائب ہمارے ادب کی تاریخ ہیں اور ہمارا نہایت وقیع ادبی سرمایہ ہیں۔آپ نے نعت کی جو روشنی پھیلائی ہے وہ صدیوں نسل آئندہ کو راستہ دکھاتی رہے گی اور منزلوں کو چہرہ کشا کرتی رہے گی۔
ممتاز شاعر شہزاد احمد کہتے ہیں کہ اس گئے گزرے دور میں بھی نعت گوئی کا جو ذوق و شوق پایا جاتا ہے اس میں تائب کا حصہ کسی سے کم نہیں۔بلکہ وہ نعت گوئی کی پہچان ہیں۔
ڈاکٹر انور سدید کہتے ہیں کہ حفیظ تائب نے عقیدت کا اظہار اس گہرائی اور گیرائی سے کیا کہ نعت نگاری میں انہیں عروج لا زوال نصیب ہوا۔انہیں اس دور کے نعت نگاروں کا سردار تسلیم کیا گیا۔
پروفیسر انور مسعود کہتے ہیں کہ حفیظ تائب نے نعت گوئی کی تحریک کا آغاز کیا۔
ڈاکٹر اجمل نیازی لکھتے ہیںکہ حفیظ تائب ایک فقیر بے نوا تھا۔مگر سب سے زیادہ تابناک زندگی والا شخص نکلا۔
ممتاز نعت گو ریاض حسین چودھری کہتے ہیں کہ نعت کے حوالے سے اقبال کے بعد نظر انتخاب حفیظ تائب پر آ کر رک جاتی ہے۔
پروفیسر جلیل عالی کا کہنا ہے کہ نعت گوئی کے سلسلے کو وسعت دینے اور آگے بڑھانے میں حفیظ تائب نے اتنااہم کردار ادا کیاکہ احمد ندیم قاسمی نے انہیں نعت گوئی کا امام قرار دیا۔
ایک جہان ہے جو حفیظ تائب کا مداح ہے، کس کا حوالہ دوںا ور کس کا نہ دوں۔ حفیظ تائب خوش قسمت ہیں کہ ان کے سبھی معاصر ان کے مداح اور قدرداں ہیں۔
اللہ سب کو مجید منہاس جیسے بھائی عطا کرے ۔ انہوںنے حفیظ تائب کو لافانی بنانے میں کلیدی کردار اد اکیا ہے، حفیظ تائب فاﺅنڈیشن ہر سال ان کی یاد تازہ کرتا ہے اور کائنات حفیظ تائب کی اشاعت تو مجید منہاس کا اردو ادب پر بہت بڑا احسان ہے۔ خدا انہیں اجر عظیم عطا کرے کہ انہوںنے عہد حاضر کے ایک عظیم نعت گو کی مقدور سے بڑھ کر خدمت کی، ان سے خدا بھی خوش اور خدا کا رسول بھی خوش۔کاش! وہ روضہ رسول پر میرا بھی سلام پہنچائیں اور حضور پاک کے روضے پر میری اس التجا کے ساتھ عرض پرداز ہوں کہ
دے تبسم کی خیرات ماحول کو ۔۔۔مجھ۔۔ کو درکار ہے روشنی یا نبی۔
٭٭٭٭٭