خبرنامہ

کاروان علم کاا ولین راہرو…اسد اللہ غالب

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

کاروان علم کاا ولین راہرو…اسد اللہ غالب

مجھے ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی کا بھاری قرض اداکرنا ہے مگر میں اس کی ادائیگی کی استطاعت نہیں رکھتا۔ میں جب ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی کو پہلی مرتبہ ملا تھا تو ان کی دو لحاظ سے پہچان تھی۔وہ پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ تاریخ میں سینئر پروفیسر کے طور پر خدمات انجام دے رہے تھے ۔ ڈاکٹر صاحب کا خاندان1947ءکی ہجرت میں لٹ پٹ کر پاکستان پہنچ پا یا تھا۔تاہم لیاقت اور صلاحیت اس خاندان سے کوئی نہ چھین سکا۔ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی اور ان کے چھوٹے بھائی الطاف حسن قریشی نے اردو ڈائجسٹ کی اشاعت سے پاکستانی صحافت کو نئے معیاری رجحانات سے روشناس کرایا تھا۔
قصور کے سرحدی گاﺅں گنڈا سنگھ والا سے میٹرک پاس کرنے کے بعد میں بڑی آسانی سے گورنمنٹ کالج میں داخل ہوگیا تھا لیکن محض داخلہ مل جانا تعلیم کی تکمیل کی ضمانت نہ تھا۔لاہور میں کسی سے جان پہچان نہ تھی لیکن سمن آباد سے ملحق اسلامیہ پارک کی ایک مسجد کا حجرہ مل جانے سے پہلی رکاوٹ دور ہوگئی تھی۔ فارغ اوقات میں اردو ڈائجسٹ کے دفتر جا پہنچتا جہاں زیادہ تر الطاف حسن قریشی سے ملاقات رہتی۔ ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی ادارے کے انتظامی امور ہی کی طرف توجہ دیتے تھے۔ ابتدائی میل ملاقات کے بعد انہوں نے اپنے ادارے کی طرف سے میرے لئے 25 روپے ماہوار کا وظیفہ جاری کردیا جو مجھے چھ برس تک مسلسل ملتا رہا۔میرے مالی بوجھ میں کمی کے لیے ڈاکٹر صاحب نے یہ وعدہ بھی کیا کہ وہ میری کالج فیس بھی معاف کروا دیں گے۔اس کے لیے انہوں نے فیس معافی کے لئے چیئرمین ڈاکٹر عبدالحمید سے بات بھی کرلی تھی۔ڈاکٹر عبدالحمید اپنی ذات میں ایک انجمن تھے۔وہ بھی تاریخ کے استاد تھے اور اپنے شعبے کے چیئرمین ایسے قد آور استاد خال خال کسی ادارے کو نصیب ہوتے ہیں۔ اس قدر بلند منصب پر فائز ہونے کے باوجود عجز و انکساری کا نمونہ تھے۔ میں ان کی ہدایت پر فیس معافی کے لیے کمیٹی کے سامنے پیش ہوا تو انٹر ویو بورڈ نے معذرت سے کہا کہ بیٹا تم سرکاری وظیفہ بھی حاصل کررہے ہو اس لیے قواعد کے مطابق دوسری مالی رعایت کے لیے مستحق نہیں۔اگر مجھے ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی کی ہدایت نہ ہوتی کہ میں انہیں کمیٹی کے فیصلے سے فوری طور پر آگاہ کروں تو شاید میں ان کے پاس واپس نہ جاتا لیکن ٹکا سا جواب پاکر میرا دل کچھ ٹوٹا ہوا تھا ۔میں اولڈ کیمپس کے شعبہ تاریخ میں ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی صاحب کے پاس گیااور انہیں کمیٹی کے فیصلے سے آگاہ کیا۔ان کے تو جیسے تن بدن میں آگ لگ گئی۔ انہوں نے مجھے ساتھ لیا اور اولڈ کیمپس کے پہلو میں گورنمنٹ کالج کے شعبہ تاریخ کا رخ کیا۔ ڈاکٹر عبدالحمید اپنی کرسی سے اچھلے، وہ طول قامت تو تھے ہی لیکن کوشش کرکے لمبے لمبے ڈگ بھرتے،جی سی کے مین کیمپس کی طرف چل دیئے۔میں تقریباً ان کے پیچھے بھاگ رہا تھا۔جن صاحب نے میرا انٹر ویو لیا تھاوہ شعبہ ریاضی کے چیئرمین تھے۔ ڈاکٹر عبدالحمید نے آﺅ دیکھا نہ تاﺅ،کہنے لگے،میں نے اس طالب علم سے وعدہ کرلیا تھا،آپ کو بتا بھی دیا تھا، اب رکاوٹ کیا ہے۔ پروفیسر صاحب نے کہا کہ ہمارے قواعد ان کو رعایت دینے میں رکاوٹ ہیں۔ ڈاکٹر عبدالحمید نے پوچھا کہ یہ قواعد کس نے بنائے ہیں۔پروفیسر صاحب نے بتایا کمیٹی نے خود یہ قواعد مرتب کیے ہیں۔
ڈاکٹر عبدالحمید نے اگلا سوال داغا، ان میں ترمیم ہوسکتی ہے؟ پروفیسر صاحب نے کہا کہ آپ اس کمیٹی کے چیئرمین ہیں میںسیکرٹری ہوں اور ہمارے ساتھ ایک ممبر اور ہیں،اکثریتی رائے سے قواعد بدلے جا سکتے ہیں۔ ڈاکٹر عبدالحمید نے تحکم سے کہا کہ ہم دو تو موجود ہیں،میری تو رائے ہے کہ یہ رکاوٹ ہٹا دی جائے۔پروفیسر صاحب بھی جھٹ بولے مجھے اس پر کوئی اعتراض نہیں ڈاکٹر عبدالحمید نے کہا کہ آپ ہم دونوں پر مشتمل کمیٹی کے اجلاس کی کاروائی ریکارڈ کر لیں کہ ہم نے اتفاق رائے سے یہ فیصلہ کیاہے۔کہاں میںایک غریب و بے نوا پینڈو طالب علم۔یہ سارا منظر دیکھ کر کانپ اٹھا،میری آنکھیں آنسوﺅں سے لبریز تھیں۔یا خدا!یہ استاد ہیں یا فرشتے۔میری حیثیت بھی کیاہے۔جو یہ مجھ پر اس قدر مہربان ہوگئے ہیں۔
یہ کہانی ختم نہیں ہوئی۔دسمبر گزر رہا تھا اور ٹھٹھرتا ہوا نیا سال طلوع ہونے کو تھا۔میری کلاس میں غضنفر علی گل بھی تھے، اجمل نیازی بھی اسماعیل قریشی بھی تھے اور چیف جسٹس کے خلاف خط لکھنے کی شہرت پانے والے نعیم بخاری، ظہور الحق شیخ تھے جن کی طرح کا اصول پسند بیورو کریٹ اور کیسے پیدا ہوسکتاہے۔نیشنل بنک کے سابقہ صدر سید علی رضا بھی تھے۔ اور مخدوم زادہ حسن محمود کے داماد بننے والے شبیر عباس بید بھی تھے اور بورڈ آف ریونیو کے سابق سینئر ممبر اور اب مرحوم ظفر چوہدری بھی تھے۔پورے خاندان سمیت ہلاک ہوجانے والے انکم ٹیکس کمشنر ذوالفقار بھی تھے۔ملک غلا م نبی کے صاحبزادے ساجد نبی ملک،ممتاز صحافی قدرت اللہ چودھری ،کس کس کے نام گنواﺅں،کس کا چھوڑوں،گنڈا سنگھ والا اور گورنمنٹ کالج کی فضاﺅں میں زمین و آسمان کا فرق تھا۔ستاروں کی ایسی کہکشاں میں میرے جیسے دیہاتی طالب علم بوکھلا کر رہ جاتے تھے۔لیکن ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی کے لطف و کرم نے مجھے کم مائیگی کا احساس تک نہ ہونے دیا۔
لاہور میں پہلا دسمبر گزر رہا تھا۔نئے سال کی ٹھٹھرتی ہوئی صبح طلوع ہونے کو تھی۔ تاریخ کا پیریڈ ختم ہوا تو میرے پروفیسر نے مجھے روک لیا۔ان کا نام میں جان بوجھ کر مخفی رکھ رہاہوں۔ مگر اتنا بتا دیتاہوں۔کہ وہ مولانا صلاح الدین احمد کے عزیز تھے اور اسی خاندان کے صبیح الدین احمد بھی میری کلاس میں تھے وہ سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس بنے۔اب اللہ کو پیارے ہو چکے،پروفیسر صاحب نے پوچھا کیا تمہیں سردی نہیں لگتی،گرم کپڑے کیوں نہیں پہنتے،میں نے کندھے اچکاتے ہوئے کہا کہ ہم دیہات میں سردی سے بچنے کے لیے”کھیس“ اوڑھ لیتے ہیں لیکن کالج میں تو میں ”کھیس“ کے ساتھ نہیں آسکتا۔ویسے یہ کھیس بھی ہم رات کو اوڑھتے ہیں۔پروفیسر صاحب نے کہا کہ کالج کی ایک یونیفارم سرخ کوٹ تو آپ کو پہننا چاہیے اور اس کے ساتھ گرم پینٹ کا رنگ بھی مخصوص ہے،کچھ سوچتے ہوئے بولے،ابھی نئی انارکلی میں فلاں درزی کے پاس جاﺅ۔اسے ماپ دے دو۔وہ کوٹ پینٹ آپ کے لیے تیار کردے گا۔
میں سوچتا ہوں کہ تاریخ کے استاد اس قدر نرم دل کیوں ہوتے ہیں،ویسے تو میں شعبہ اردو کے پروفیسر خواجہ سعید کو بھی نہیں بھول سکتا جنہوں نے مجھے مجلس اقبال کا مسلسل دو برس تک سیکرٹری جنرل بنائے رکھااور پھر تین برس تک کالج کے ادبی مجلے راوی کا ایڈیٹر بھی منتخب کیا۔وہ مجھ پر اس قدر مہربان تھے کہ اپنے مخصوص دفتری کمرے کی چابی مجھے دے رکھی تھی،میں واپس مڑ کر دیکھتا ہوں تو مجھے قیوم نظر بھی رہ رہ کر یاد آتے ہیں۔جن کے قہقہوں نے دکھوں اور غموں کا احساس تک نہ ہونے دیا۔تاریخ کے ہی ایک اور استاد میرے ساتھ19 نمبر ڈبل ڈیکر بس میں سمن آباد آیا کرتے تھے۔ایک طرف کا کرایہ صرف دس پیسے ہوتا تھا۔میں نے ایک روز ان کی ٹکٹ کے پیسے بھی دینا چاہے تو پروفیسر صاحب نے اپنی گھنی مونچھوں کے نیچے ہونٹوں کا ایک بڑا سا گول دائرہ بناتے ہوئے کہا۔
No Gentleman! it is privlege of elders. میں اپنا سا منہ لے کے رہ گیا۔
بات ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی سے شروع کی تھی۔لیکن قلم کی نوک پر کتنے ہی اساتذہ کرام کی مہربانیوں کا تذکرہ آگیا مگر ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی صاحب کا کریڈٹ یہ ہے کہ انہوں نے نیکی میں پہل کی۔ایک بیج کو پودا بننے اور پھر اس کی نشو ونما کے لیے پورا ماحول فراہم کیا۔ مجھے نہیں معلوم کہ ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی نے خاموش انداز میں کس کس طالب علم کی سرپرستی کی اور کب انہیں خیال آیا کہ اب انہیں اس مقصد کے لیے ایک ادارہ تشکیل دے لینا چاہئے۔میں کاروان علم فاﺅنڈیشن کی تہہ تک نہیں جانا چاہتا لیکن اس ادارے سے فیض پانے والے طالب علموں کی تعداد لاکھوں سے تجاویز کرچکی ہے اور ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی کے طفیل کتنے ہی خاندانوں کے دن سنور گئے۔میں کاروان علم فاﺅنڈیشن کے اولین راہ رو ہونے کے ناطے اپنا فرض سمجھتا ہوں کہ ان کی نیکیوں کا اقرار کروں۔ میں نے پچھلے برس ایک کالم میں خادم اعلیٰ پنجاب سے اپنی اولیںمادر علمی پرائمری اسکول مہالم کلاں کے لیے لکڑی کے بنچوں کی اپیل کی تھی۔اگلی صبح سویرے کاروان علم فاﺅنڈیشن سے فون آیا۔ڈاکٹر صاحب پوچھتے ہیں کہ کتنے بنچ درکار ہیں اور سکول کا ایڈریس کیا ہے۔یہ سننا تھا کہ دل سے دعا نکلی خدایا!ایسے فرشتوں کا سایہ ہمارے سروں پر قائم رکھ۔ان کی شفقت کے چشمے سدا پھوٹتے رہیں تاکہ میرے جیسے بے نوا اور بے وسیلہ طالب علم عزت سے روٹی کمانے کے قابل ہوسکیں۔میری زندگی کا کل اثاثہ ایک قلم ہے،میں سرجھکا کر اس قلم کو کاروان علم فاﺅنڈیشن کے” سالار اعلیٰ“ کے لیے وقف کرتاہوں۔