خبرنامہ

کافر اعظم سے گدھے تک۔۔الیکشن کاؤنٹ ڈاؤن….اسد اللہ غالب

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

بسم اللہ
انداز جہاں ۔۔۔اسد اللہ غالب

کافر اعظم سے گدھے تک۔۔الیکشن کاؤنٹ ڈاؤن….اسد اللہ غالب

عمران خان کو زبان درازی مہنگی پڑ گئی اورآئندہ کے لئے اچھا بچہ بننے کی یقین دہانی کرا دی، انہوں نے نواز شریف کے استقبال کرنے والوں کو گدھا کہہ ڈالا۔ یہ تو معمولی غلطی ہے، وہ پارلیمنٹ پر لعنت بھیج چکے ہیں، مخالفوں کو سڑکوں پہ گھسیٹنے اورا ڈیالہ میں بند کرنے کی دھمکیاں دے چکے ہیں، عمران خان اس طبقے سے تعلق رکھتے ہیں جسے اپنی زبان اور اپنے اعمال پر قابو نہیں اور نہ ہو سکے گا، یہ یقین دہانیاں وقت گزاری کا بہانہ ہیں۔
الیکشن کمیشن نے آخر انگڑائی لے لی۔ اسے ٹی وی پر اربوں کے اشتھار نظر نہیں آئے مگر گندی زبان کی طرف اس کا دھیان چلا گیا، چلیں یہ بھی غنیمت ہے ۔ الیکشن کمیشن نے اپنے وجود کا احسا س تو دلایا۔
سیاست میں پہلی گالی جمعیت علمائے اسلام کے ایک لیڈر نے قائد اعظم کو دی اور انہیں کافراعظم کہہ دیا۔ کافرا عظم کی گالی دینے والے ا ور بھی تھے۔ پاکستان بن گیا تو قائد اعظم کو گالی دینے والے کا ٹرائل ہوا۔ یہ مقدمہ سپریم کورٹ نے سنا ور گالی دینے والے سے پوچھا گیا کہ کیا آپ نے یہ گالی دی ا ور اسے دہر اسکتے ہیں، اس نے کہا کہ میں نے یہ گالی لاکھوں کے مجمع میں دی تھی، آپ چند ججوں کے سامنے اسے دہرانے سے مجھے کیا ہچکچاہٹ ہے۔یہ واقعہ مولانا سمیع الحق نے ہو بہو اپنی کئی جلدوں پر مشمل کتاب خطبات مشاہیر میں نقل کیا ہے اور انہیں اسے نقل کرتے ہوئے کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں ہوئی۔ ان مولانا صاحب کو عمران خان کی حکومت نے کروڑوں کی گرانٹ سے نواز ا۔اور اس نوازش کا دفاع بھی کیا۔
سیاسی کھاڑے میں گالیوں کے جدید دور کے بانی بھٹو صاحب تھے۔ انہوں نے نور خان، قیوم خان اور اصغر خان کو ایسے خطابات سے نواز ا جنہیں سننے والوں نے تالیان لگائیں اور رقص کیا۔ اصغر خان کو پی این اے کی تحریک میں موقع ملا تو ناصر باغ میں تقریر کرتے ہوئے ایک ٹنڈ منڈدرخت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اس پر بھٹو کو پھانسی دیں گے۔ اس سے پہلے ستر کے الیکشن میں انہی بھٹو صاحب نے ڈھاکہ قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لئے جانیو الوں کی ٹانگیں توڑنے کی دھمکی دی۔ احمد رضا قصوری واحد رکن قومی اسمبلی تھے جو بھٹو کی دھمکی کو خاطر میں نہ لائے اور ڈھاکہ چلے گئے مگر بھٹو کو موقع ملا تو ان پر گولی چلو ادی جس میں احمد رضا قصوری تو نہیں ا؛بتہ اس کے والد شہید ہو گئے اوراس جرم میں بھٹو کو پھانسی ہو گئی۔
ستر ہی کے الیکشن میں بھٹو کے دانشور صحافیوں نے ایک اخبار میں مولانا مودودی کا چہرہ ایک رقاصہ کے نیم برہنہ جسم پر سجا دیا۔دوسری طرف مشرقی پاکستان کے طول و عرض میں بھاشانی ا ور شیخ مجیب کی طرف سے ہر ایک کوہر طرح کی گالیوں سے نواز جا رہا تھا ، آج بھی دعوی یہ ہے کہ ستر کے الیکشن صاف اور ذفاف تھے۔ اس قدر غلاظت سے لتھڑا الیکشن پاکستان کو دوٹکڑے کرنے کا باعث بن گیا مگر ہمارے نومولود ٹی وی اینکر آج بھی کہتے ہیں کہ یہ الیکشن مکمل غیر جانبدارانہ اور فیئر اور فری تھا۔ کیا کہنے اس فری اور فیئر الیکشن کے جس نے پاکستان کے نقشے پر سیاہی مل دی۔ سیاہی سے یادآیا کہ مشرف دور میں عدلیہ تحریک شروع ہوئی تو وکلا نے احمد رضا قصوری کے چہرے پر کالک مل دی۔ کالک ملنے کا یہ سلسلہ ایکسپورٹ ہو کر بھارت جا پہنچا اور خورشید قصوری نے اپنی کتاب کی افتتاحی تقاریب وہاں رکھیں تو ان کے میزبان کے چہرے پر سیاہی مل دی گئی۔ کالا باغ ڈیم کی بد قسمتی ہے کہ یہ متنازعہ بنا دیا گیا اور خان غفار خان، ولی خان اورا سفد یار خاں نے کئی بار کہا کہ اس ڈیم کو بم سے ا ڑا دیں گے ، یہ بھی کہا کہ ا سے بلا ٹکٹ بحیرہ عرب پہنچا دیں گے، ابھی چیف جسٹس نے کا لا باغ ڈیم بنانے کی ٹھانی تو خورشید شاہ نے کہا کہ یہ ڈیم ان کی لاشوں پر سے گزر کر ہی بن سکتا ہے، گالیاں کئی قسم کی ہوتی ہیں ۔ میاں نواز شریف نے سیفما کے اجلاس میں کہا کہ یہ واہگہ کی لکیر کیوں ہے۔ ایک موقع پر انہوں نے کمنٹ کیا کہ جو دال بھات ہم کھاتے ہیں ، وہی سرحد پار کے لوگ کھاتے ہیں ، پھر دونوں میں دوری کیوں۔ نواز شریف نے ایک عملی مظاہرہ بھی کر دکھایا اور اپنی نواسی کی شادی میں بھارتی وزیر اعظم مودی کو مدعو کر لیا۔ عمران ا ور قادری نے دھرنا دیا تو جو کچھ سننے اور دیکھنے میں آیا ،اس پر قوم کی گردن شرم سے جھک گئی۔بھٹو نے الیکشن سے قبل دھمکی دی کہ اقتدار میں آکر زیڈ اے سلیری کو فکس اپ کر دوں گا، اور پھر یہی ہوا ۔ سول چیف مارشل لا ایڈ ٖمنسٹریٹر بن کر ان کا پہلا حکم یہی تھا کہ سلیری صاحب کو پریس ٹرسٹ سے فارغ کر دیا گیا۔ حال ہی میں فوجی ترجمان کی بریفنگ میں ایک میڈیا پرسن نے کہا کہ عمران خان کینستر بنتا جا رہا ہے۔ اسے سوشل میڈیا کے مطابق اگلے ہی روز نوکری سے نکلوا دیا گیا۔ عمران خان اقتدار میں آنے سے قبل ہی فکس اپ کرنے میں مصروف ہیں۔ لیکشن میں آکر وہ کیا کیا کر گزریں گے، اسکے تصور ہی سے کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ میں نے لکھا تھا کہ الیکشنن کی کیاضرورت ہے قفاق اورپنجاب میں تو ان کی پارٹی کی شیڈوحکومت قائم ہو چکی ہے۔ ہم نے اس کے ہاتھ دیکھ لئے۔ جس غریب کے گھر پر ن لیگ کا پرچم لہرا رہا تھا،اسے گرفتار کر لیا گیا۔ شہباز شریف ابھی پشاور میں کہہ رہے ہیں کہ شوکت جاوید نگران و زیر داخلہ باقاعدہ پی ٹی آئی میں شامل ہوئے تھے۔ صوبائی وزیر اطلاعات کے بارے میں بھی لکھ چکا ہوں کی کس طرح اقتدار میں آنے سے دو تین ماہ قبل مجھے کہہ رہے تھے کہ میں عمران خان سے ملاقات کروں اور ان کے حق میں لکھوں۔ ریکارڈ کی خاطر میں کہنا چاہتا ہوں کہ میں نے انہیں کہا تھا کہ عمران خان کوئی اچھا کام کریں گے تو اسے اچھا کہوں گا لیکن برے کاموں کو اچھا نہیں کہہ سکتا۔ پنجاب کی نگران حکومت کے ذہن رسا کا اندازہ کیجئے کہ اس کے یہی نگران وزیر داخلہ کہہ رہے تھے کہ ایئر پورٹ کے گرد تاروں میں بجلی چھوڑ دی گئی ہے۔ عوام کے خلاف ایسے ہتھکنڈے تو گسٹاپو نے بھی اختیار نہیں کئے۔ یہی ہیں وہ روایات جو پنجاب کی نگران حکومت نے جسے شہباز شریف نے بھی پشاور کی جمعہ کے روز کی بریفنگ میں پی ٹی آئی کی حکومت کہا ہے۔ اس نے ایسی روایات قائم کر دی ہیں جنہیں عمران نے اقتدار میں آکر فالو کیا تو پاکستان جو آج گرے لسٹ میں ہے، اسے پہلے ریڈ لسٹ اور پھر بلیک لسٹ میں ڈال دیا جائے گا۔ سیاست دانوں کو اور نگرانوں کو ایسے اندیشے دور کرنے چاہیءں۔ اور پاکستان کو پاکستان ہی رہنے دیں،نیا پاکستان نہ بنائیں ، پرانے پاکستان کو ایک بار بھٹو نے نیا پاکستان بنایا تھا،ا س نئے پاکستان کے نقشے مین کہیں بھی قائد اعظم کے پاکستان کی جھلک دکھائی نہیں دیتی تھی،ا ب اسے پھر سے نیابنانے کی کوشش کی گئی تو پاکستان کو خدا نخواستہ جغرافیئے سے تلاش کرنا ہی نا ممکن نہ ہو جائے۔ یہ اندیشہ ہائے دور دراز ہیں اور خدا کرے یہ اندیشے ہی رہیں ، حقیقت کا روپ نہ دھاریں ، اس کے لئے الیکشن کمیشن کو بھر پور کردار ادا کرنا چاہئے اور طے شدہ ضابطہ اخلاق کی پیروی کروانی چاہئے۔ گالیوں کی زبان لوگوں نے پسند نہیں کی۔ یہی لوگ پاکستان کے ساتھ کسی بد سلوکی کو برداشت نہیں کر سکیں گے، سیاست دانوں کو یہ نکتہ ذہن نشین کر لینا چاہیئے۔من مانی کرنے کے لئے کسی بھی پارٹی کو دو تہائی اکثریت درکار ہے اور حالات یہی رہے تو کوئی پارٹی سادہ اکثریت بھی حاصل نہیں کر پائے گی تو پھر یہ اکڑ فوں کس بل بوتے پر۔ورلڈ کپ کا مینڈیتٹ اور شوکت خانم کامینڈیٹ الیکشن کے مینڈیٹ کے مساوی کیسے ہو گیا۔