خبرنامہ

کالا باغ ڈیم ، پاکستان کے لئے سونے کی کان۔۔اسداللہ غالب۔۔انداز جہاں

بسم اللہ..میں برکت علی لونا صاحب کا تعارف کرانا تو بھول ہی گیا، وہ ورلڈ بنک کے سابق مشیر رہے ہیں اور ان دنوں نیشنل ڈیولیپ منٹ کنسلٹنٹس پرائیویٹ لمیٹڈ کے چیئر مین کے فرائض ادا کر رہے ہیں، ان کی زیر نظر کتاب چند ماہ قبل سال گزشتہ کے آخری دنوں میں منصہ شہود پرآئی ۔
میں نے پہلی قسط میں یہ واضح کرنے کی کوشش کی تھی کہ کالا باغ ڈیم کی تجویز یا اس کی منصوبہ بندی میں پنجاب کا کوئی عمل دخل نہیں تھا، صوبہ سرحد سے تعلق رکھنے والے ایک فوجی ڈکٹیٹر ایوب خان نے واشنگٹن میں ورلڈ بنک کے حکام کو اس کے بارے میں قائل کیا اور یوں اس پر سوچ بچار کا سلسلہ شروع ہوا۔میں یہ بھی واضح کر چکاہوں کہ جن دنوں ہمیں پانی کی ضرورت نہیں ہوتی، تب پانی وافر دستیاب ہوتا ہے اور یہ فالتو پانی بحرہ عرب کی نذر ہو جاتا ہے اور جب ہمیں پانی کی اشد ضروت ہوتی ہے تب پانی میسر نہیں ہوتا اور ہمارے کھیت سوکھ جاتے ہیں، بجلی کی پیداور گھٹ جاتی ہے اور لوڈ شیڈنگ کے اندھیرے چھا جاتے ہیں۔
اب آپ یہ نکتہ ضرور ذہن نشین کر لیجئے کہ کوٹری سے نیچے آبی حیات کے لئے بھی ہمیں پانی کی اشد ضروت ہے مگر یہ پانی تبھی میسر ہوتا ہے جب ملک سیلاب کی زد میں آ جائے ، سیلاب نہ آئے تو کوٹری سے نیچے کی آبی حیات پیاسی تڑپتی رہ جاتی ہے،اس آبی حیات ہی کا ہمیں کوئی خیال ہو تو ہم ایسے ڈیم بنا لیں جو وافر پانی کو سیلابی موسم میں ذخیرہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں، صرف اسی صورت میں آبی حیات کو سال بھر پانی میسر آ سکتا ہے ورنہ آبی حیات کے نام پر آپ لاکھ شور مچاتے رہیں، پانی کی بوند بوند تک کو آپ ا ور آپ کے ساتھ یہ آبی حیات بھی ترستی رہے گی، اوپر سے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے یہ حکم سنا دیا ہے کہ وہ بھارت کے عوام کے منہ سے پانی کا ایک قطرہ بھی چھین کرپاکستان کو دینے کے لئے تیار نہیں۔
اب آیئے برکت علی لونا صاحب کی کتاب کے اگلے ابواب کی طرف جس میں ہماری قومی غلطیوں اور ہٹ دھرمیوں کی طرف باربار نشاندہی کی گئی ہے ۔
میں ایک بات یاد دلاتا چلوں کہ پاکستان کو قدرت نے 114 لاکھ ایکڑ فٹ پانی کی نعمت عطا کی ہے مگر ہم اس میں سے صرف گیارہ لاکھ ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ کرنے کے قابل ہیں جو کہ دستیاب پانی کا صرف آٹھ فی صد بنتا ہے، دوسری طرف آپ مصر کے اسوان ڈیم پر نظر ڈالئے ،ا س میں132 لاکھ ایکڑ فٹ پانی کا ذخیرہ موجود رہتا ہے جو دستیاب پانی کا350 فی صد ہے۔ اگر آپ میں سننے کا حوصلہ ہے تو یہ تلخ حقیقت سن لیجئے کہ ہم نے صرف پچھلے چونتیس برس میں 1040 لاکھ ایکڑ فٹ پانی ضائع جانے دیا ہے۔
کالاباغ نہ بننے سے ہم روز بروز در آمدی بل میں اضافہ کر رہے ہیں۔ہمیں پندہ لاکھ ٹن کھانے پینے کی چیزیں درکار ہوتی ہیں۔ایک سو بیس لاکھ ٹن گنادر آمد کرنا پڑے گا، سترہ لاکھ ٹن خوردنی تیل کی ضرورت ہوگی،اور یہ در آمدات 2025 تک دو سو ارب سے تجاوز کر جائیں گی۔
کالاباغ ڈیم سے بجلی کی سالانہ پیداوار کے برابر بجلی کے حصول کے لئے ہمیں تھرمل پاورز کے لئے بیس لاکھ بیرل تیل کی ضرورت پڑے گی۔اس سے قومی معیشت کو سالانہ ایک سو ارب کا ٹیکا لگے گا۔
اگر اب تک کالا باغ ڈیم بروقت بن چکا ہوتا تو اس سے ہمیں بیس لاکھ یونٹ دستیاب ہو جاتے جن کی قیمت فی یونٹ صرف ڈیڑھ روپیہ ہوتی، مگر ڈیم نہ بنانے سے ہم 220 ارب کا سالانہ نقصان اٹھا رہے ہیں۔
اسوقت بنوں اور ڈیرہ اسماعیل خان میں ڈیڑھ لاکھ رقبہ بنجر پڑا ہے جو کالاباغ ڈیم سے سیراب ہو جاتا تواس علاقے کی تقدیر بدل جاتی۔
سندھ کو کالا باغ ڈیم سے سب سے زیادہ فائدہ پہنچنا تھا، اس لئے کہا اے بائیس لاکھ ایکڑ فٹ فالتو پانی دستیاب ہو جاتا، جس سے خریف ا ور ربیع دونوں فصلیں لہلہا رہی ہوتیں مگر ڈیم میں رکاوٹ ڈالنے سے اب سندھ ہی کو سب سے زیادہ نقصان پہنچ رہا ہے۔
بلوچستان کوبھی ذخیرہ شدہ پانی سے بارہ فی صد حصہ یقینی طور پر مل جاتا جس سے کچھی کینال اورپٹ فیڈر میں خوش حالی آ جاتی۔
اب یہ سب مل بیٹھ کر روتے رہیں ان عناصر کو جنہوں نے فتنہ و فساد ڈال کر کالا باغ ڈیم نہیں بننے دیا۔
در اصل کچھ لوگ چاہتے ہیں کہ ہم بھارت کے دست نگر بنے رہیں، وہیں سے آلو ، پیاز،کیلے اور دالیں آ جائیں اور عوام کو من مانی قیمتوں پر یہ سب کچھ بیچ کر منافع خوری کی جاسکے۔مڈل مین تو کبھی گھاٹے میں نہیں رہتا۔سندھ کا کیلا ساٹھ روپے درجن اور امرتسر کاکیلا تین سو روپے درجن، لاہور کی مارکیٹ سندھ کے کھیتوں کے قریب ہے یا امرتسر کے،ا سکا فیصلہ کون کرے گا۔
کالا باغ ڈیم کے رستے میں پندرہ برسوں سے روڑے اٹکا کر آج اس کے اخراجات کا تخمینہ چالیس ارب ڈالر تک پہنچ گیا ہے جبکہ اسے صرف چھ ارب ڈالر میں تعمیر کیا جا سکتا تھا۔
تخت پشاور کو اس ڈیم پر ایک ہی اعتراض ہے کہ اس سے نوشہرہ ڈوب جائے گا، تخت پشاور کااگر حافظہ کمزور نہیں تو نوشہرہ پچھلے ایک سو برس میں دو مرتبہ ہی ڈوبا ہے اور یاد رکھئے دونوں مرتبہ کالا باغ ڈیم موجود نہیں تھا۔ ابھی دو ہزار دس میں کونسے کا لا باغ ڈیم میں نوشہرہ غرق ہو ا۔ نوشہرہ کی تقدیر میں لکھ دیا گیا ہے کہ جب کبھی سیلاب آئے گا توا سے ڈوبنا ہی ڈوبنا ہے ا ورا سے بچانے کے لئے کالا باغ ڈیم رکوانے کی ضرورت نہیں، اس کے بالائی علاقوں میں سیلابی پانی کو ذخیرہ کرنے کے لئے ڈیم کا بننا ضروری ہے اور اطلاع یہ ہے کہ واپڈا کے موجودہ چیئر مین نے اس ڈیم پر کام شروع کر دیا ہے۔
پاکستان پہلے دن سے بھارت کی آبی جارحیت کا بھی شکار ہے، فوجی جارحیت سے تو بار بار واسطہ پڑ ااور پاکستان کو دو لخت بھی کر دیا گیا۔بھارت کے فوجی خطرے سے نبٹنے کے لئے ہماری مسلح افواج مستعد اور چوکس ہیں مگر ملک کی واٹر سیکورٹی کے تحفظ کے لئے ہمارے ہاں کوئی میکن ازم موجود نہیں ہے، کوئی ضرب عضب ، کوئی ردا لفساد اس خطرے کے ازالے کے لئے تشکیل نہیں دی گئی، بھارتی شردھالو دندناتے پھرتے ہیں، وہ ملک کے فوجی ڈکٹیٹروں سے بھی زیادہ مؤثر ہیں۔ نہ ضیاالحق کو کالاباغ ڈیم بنانے دیا گیا، اس کا اپنا ماتحت پشاور کا فوجی گورنر فضل حق اس ڈیم کا سب سے بڑا مخالف بن گیا، ا سکی دیکھا دیکھی سیاسی لیڈروں کو بھی کہنے کاموقع ملا کہ کالا باغ ڈیم بنا تو اسے بم سے اڑا دیں گے، ایک صاحب نے در فنطنی چھوڑی کہ اسے بلا ٹکٹ بحیرہ عرب میں پھینک دیں گے، جنرل مشرف سیاہی سفیدی کا مالک تھا، اس نے اعلان بھی کیا کہ کالا باغ ڈیم بنائے گا مگرا س کی کسی نے ایک نہ چلنے دی، یہی کچھ ایک جمہوری ،دو تہائی اکثریت کے حامل، منتخب وزیر اعظم نواز شریف کے ساتھ ہوا، انہوں نے دھماکے کئے ا ور ایک تقریر کی کہ کالاباغ ڈیم بنائیں گے مگرا سکے بعد چراغوں میں جیسے روشنی نہ رہی۔ اب ان کی پھر حکومت ہے، کوئلے سے بجلی کشید کی جارہی ہے،سورج کی بجلی کو قید کرنے کوشش ہو رہی ہے اور اگر کوئی منصوبہ زیر غور نہیں توو ہ ہے کالاباغ۔بھاشہ ڈیم کا ذکر سننے کو ملتا ہے مگر کام کیا ہو رہا ہے، کوئی نہیں جانتا۔نواز شریف چاہیں تو وہ یہ سب کچھ کر گزرنے کی قدرت رکھتے ہیں، فوجی عدالتیں بنوا سکتے ہیں تو سستی ہائیڈل بجلی بناناان کے بائیں ہاتھ کا کمال ہے، سوال یہ ہے کہ یہ ان کا یایاں ہاتھ حرکت میں کب آئے گا۔ فوری آ جانا چاہئے۔ا س سے پہلے کہ مزید دیر ہو جائے۔
ملکی میڈیا کو اقبال چیمہ صاحب کا پیغام یہ ہے کہ وہ کالا باغ ڈیم دشمن سیاسی پارٹیوں کے انتخابی بائیکاٹ کے لئے ووٹروں میں شعور پیدا کریں۔ یہ لوگ کالا باغ ڈیم کے نہیں، میرے اور آپ کے دشمن ہیں، یہ پاکستان کے مستقبل اور آنے والی نسلوں کے دشمن ہیں۔
مجھے ابھی بنوں سے انور خان صاحب کا فون آیا ہے وہ اس وقت مردان ریسٹ ہاؤس میں تھے جب فروری اڑتالیس میں قائد اعظم وہاں تشریف لائے تھے ، ان کے سامنے اور خان قیوم خان کی موجودگی میں یہ فیصلہ ہوا کہ کالا باغ ڈیم کی تعمیر کا آغاز کیا جائے۔ وائے افسوس! قائد کی سنی ان سنی کر دی گئی۔
برکت علی لونا صاحب کی کتاب ابھی ختم نہیں ہوئی، یہ زیادہ ضخیم نہیں مگر ا سکی ایک ایک سطرا س لائق ہے کہ میں اسے آپ تک پہنچاؤں۔ کوشش کروں گا کہ اس کا خلاصہ جلد مکمل ہو جائے۔ کوئی صاحب دل ا سکا اردو ترجمہ کروا کر وسیع پیمانے پر عوام میں تقسیم کریں۔