خبرنامہ

کالا باغ ڈیم ۔ واٹر سیکورٹی کی ضمانت ۔۔ اسداللہ غالب۔۔۔انداز جہاں

بسم اللہ.. انجییئر محمد اقبال چیمہ نے مجھے سنگین امتحان میں ڈال دیا ہے، وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ میں کوئی کتاب پڑھنے سے معذور ہوں۔ پھر بھی برسٹل ،برطانیہ سے ان کے تین فون آ چکے ہیں کہ ایک عرصے کے بعد پاک بھارت سندھ طاس کمیشن کے مذاکرات ہو رہے ہیں ، اس موقع پر ضروری ہے کہ میں انجینیئر برکت علی لونا کی کتاب ۔۔کالا باغ ڈیم ، پاکستان کے لئے سونے کی کان۔۔ کا مطالعہ کروں اورا س کے مندرجات کا خلاصہ قارئین کی نذر کروں۔ میں نے بار بار اپنی معذوری کا ذکر کیا مگر انجینیئر صاحب جو ایک زمانے میں فوجی رہ چکے ہیں، میری کوئی معذرت یا مجبوری کو خاطر میں لانے کو تیار نہ تھے، آخر وہ جیت گئے، میں ہا رگیا، مگر ٹیکنالوجی میں تو مجھے کوئی شکست نہیں دے سکتا۔میں نے کتاب کو اسکینر پر رکھا، ایک ایک صفحہ اسکین کیا، پھر ا سکی پی ڈی ایف فائل بنائی ، اب میں کتاب کے الفاظ کو جس قدر مرضی بڑا کر سکتا ہوں ، اللہ کاشکر یہ ہے کہ ابھی موٹے الفاظ پڑھنے کی صلاحیت رکھتا ہوں۔
ادھر ایک اور صاحب جان کو آ گئے تھے اور وہ تھے افتخاراحمد سندھو صاحب، ان کا اصرار تھا کہ بھارتی آبی جارحیت اورا سکی سیکورٹی کا مسئلہ چھیڑا ہے اور اس پر تحریک چلانے کی ضرورت کا احساس دلایا ہے تویہ کام آگے بڑھاؤں، انہوں نے ایک روز نتھیا گلی سے فون کر دیا کہ انجینیئر اقبال ا ور شمس الملک جو آبی تحریک چلانے کا اعلان کر رہے ہیں ، وہ اس میں ایک رضا کار کے طور پر کردار ادا کریں گے۔ انہوننے بھی کہا کہ پاک بھارت آبی مذاکرات کے موقع پر قوم کو واٹر سیکورٹی کا احساس دلاؤں۔
انجینیر برکت علی لونا صاحب بڑے پائے کے آدمی ہیں، ان کی کتاب کے پیش لفظ میں شمس املک صاحب نے انہیں بے حد خراج تحسین پیش کیا ہے، انہیں استاد نہیں بھی کہا تو ایک سینئر کا درجہ ضرور دیا ہے، لونا صاحب چوراسی پچاسی کے پیٹے میں ہیں اور ان کے پیٹ میں پاکستان کی سکورٹی کا مروڑ اٹھتا رہتا ہے، کالا باغ ڈیم پر کتاب ان کاایک حالیہ معرکہ ہے، ا س کتاب میں ایک لفظ یا ایک شوشہ تک فالتو اور بے مقصد نہیں اور عجیب بات یہ ہے کہ اس میں کہیں سیاست نہیں ، بس یوں سمجھئے کہ حب الوطنی سے لبریز ایک پاکستانی نے ملک و قوم کی ضروریات اور مفادات او رتقاضوں کے پیش نظر قلم اٹھایا ہے۔اپنا جگر چیر کر لوگوں کو دکھا دیا ہے۔
لونا صاحب نے اس امر پر شدید احتجاج کیا ہے کہ بر صغیر کے تین دریا کلی طور پر بھارت کے تصرف میں دے دینا آبی تقسیم کے عالمی قوانیں کی کھلی خلاف ورزی ہے کیونکہ کوئی بھی دریا جب تک سمندر میں نہیں جا گرتا، اسکے راستے میں آنے والے تما م ممالک اس کے پانی کے استعمال کاحق رکھتے ہیں، خواہ اس کی شرح کتنی ہی تھوڑی یا زیادہ کیوں نہ ہو لیکن کسی ملک کو ان کے پانی سے یکسر محروم نہیں کیا جاسکتا ، اس لحاظ سے وہ سندھ طاس معاہدے کو ظالمانہ ا قدام سمجھتے ہیں۔اور جن لوگوںے نے ا س معاہدے کو قبول کیا، وہ قائد اعظم ک جسی بصیرت سے محروم تھے۔ لونا صاحب کا فرمانا ہے کہ قائد اعظم جیسے لیڈر صدیوں میں بھی پیدا نہیں ہوتے ، انہوں نے ایک جانگسل سیاسی جدو جہد کے ذریعے اسلامیان ہند کو سیاسی آزادی تو دلوا دی لیکن ان کی اچانک رحلت کے بعد معاشی آزادی کو یقینی بنانے کے لئے قائد جیسا دبنگ اور صاحب بصیرت لیڈر ہمیں دستیاب نہ رہا،اور یوں ہم بھارت کی آبی جارحیت کا شکار ہوتے چلے گئے۔
بہر حال سندھ طاس معاہدہ پاکستان کی آبی سیکورٹی کے لئے حرف آخر نہیں تھا، کس قدر چونکا دینے والے ہیں یہ الفاظ لونا صاحب کے، انہوں نے کہا کہ ہمیں اس کے بعد ہاتھ پہ ہاتھ باندھے بیٹھ نہیں جانا چاہئے تھا، صد شکر کہ ہم نے تربیلا بنا لیا مگر منگلا اور تربیلا دونوں ملا کر نوے کے عشرے تک کی قومی ضروریات پوری کر سکتے تھے،اسکے بعد آبادی میں اضافے کی وجہ سے ہمیں لا محالہ گھریکو، زرعی،کاروباری اور صنعتی ضروریات کے لئے نئے آبی منصبوں کی ضرورت تھی مگر ان کی طرف سے ہم نے مجرمانہ غفلت برتی۔
پانی ایک قدرتی نعمت ہے جوانسانی زندگی کیلئے لازم و ملزوم ہے۔ پانی کو آپ کسی دوسرے ملک سے تیل ، گیس، فولاد، تانبے، کوئلے وغیرہ کی طرح در آمد نہیں کر سکتے۔اگر یہ آپ کومیسر ہے تو اس کو ذخیرہ کر کے ہی آپ اپنی روز مرہ کی ضروریات پوری کر سکتے ہیں۔اگر آپ نے پانی ذخیرہ نہ کیا اورا سے سمندر کی طرف بے کار بہنے دیا تو مسجھ لیجئے کہ آپ قحط اور لوڈ شیڈنگ جیسے عذاب کو دعوت دے رہے ہیں۔
کسی نہ کسی سطح پر نئی آبی منصوبہ بندی کی سوچ چلتی رہی۔کالا باغ ڈیم کے منصوبے کی اسٹڈی کا آغاز اسوقت ہوا جب ا یوب خان1963 میں واشنگٹن گئے تو انہوں نے ورلڈ بنک کے حکام کو تربیلہ ڈیم سے بعد کی آبی ضروریات کی تکمیل کے لئے قائل کر لیا۔ورلڈ بنک نے عالمی آبی ماہرین پر مشتمل ایک تحقیقاتی گروپ تشکیل دیا ۔تین برس کی محنت شاقہ کے بعد ورلڈ بنک کے ماہرین نے ایک رپورٹ تیار کی جس میں مغربی پاکستان کی آبی ضروریات کا بھر پور جائزہ لیا گیا تھا اور ان کی تکمیل کے لئے سفارشات پیش کی گئی تھیں۔
کیا میں یہاں بتاتا چلوں کہ ورلڈ بنک کی اس رپورٹ کی تیاری میں پنجاب تو کیا ، پاکستان کاکوئی نمائندہ شامل نہیں تھا۔ عالمی ماہرین کی رپورٹ کے اہم نکات یہ تھے:
۱۔منگلا اور تربیلا ڈیم 1990 کے بعد کے پاکستان کی آبی، معاشی، زرعی، صنعتی ضروریات کی کفالت کے قابل نہیں رہیں گے۔
۲۔اگر پاکستان اس کے بعد اپنی ترقی کی رفتار کو برقرار رکھنے کا خواہاں ہو تو اسے 1992 تک نئے آبی ذخیرے کی ضرورت ہو گی اورا سکی تعمیر کا آغاز لازمی طور پر 1977 میں ہو جانا چاہئے۔
۳۔یہ نیاا ور تیسرا ڈیم کالا باغ کے مقام پر تعمیر کیا جائے اورا سکے بعد بھاشہ ڈیم پر کام شروع کر دیا جائے۔
پاکستان کو یہ رپورٹ 1967 میں موصول ہو گئی تھی، یہ رپورٹ واپڈا کو تھماد ی گئی ، جس نے کالاباغ ڈیم کی فیزیبلٹی دو مرتبہ تیار کی، اور اسے 1988 تک ہر لحاظ سے مکمل کر دیا۔ ورلڈ بنک کے نمائندے لاہور آئے اور انہوں نے اس ،مصوبے پر کامل اطمیان کا اظہار کیا مگر اس دوران یہ منصوبہ سیاست کا شکار ہو گیا اور اسے کھٹائی میں ڈال دیا گیا۔
یہاں کچھ اہم تریں نکات اور بھی ذہن نشین کر لیجئے۔
دریاے سندھ اور ا س سے متعلقہ آبی ذخائرپاکستان کو 137 لاکھ ایکڑ فٹ پانی فراہم کرتے ہیں۔موسم گرما میں اس سے تراسی فیصد یعنی ایک سو چودہ لاکھ ملین ایکڑ فٹ اور موسم سرما میں صرف سترہ فی صد یعنی تیئیس لاکھ ایکڑ فٹ پانی دستیاب ہوتا ہے۔خریف کی فصل کے لئے ہمیں صرف 79 ملین ایکڑ فٹ پانی کی ضرورت پڑتی ہے جبکہ دستیاب پانی کی مقدار 114 ملین ایکڑ فٹ تک پہنچ جاتی ہے ، مطلب یہ ہوا کہ وافر پانی کی مقدار 35 لا کھ ایکڑ فٹ سمندر میں گر کر ضائع چلی جاتی ہے۔مگر ربیع کی فصل کے دوران 23 لاکھ ایکڑ فٹ پانی دستیاب ہوتا ہے ا ور ضروت ہوتی ہے35 لاکھ ایکڑ فٹ پانی کی، اس طرح ہم ربیع کے موسم میں15 لاکھ ایکڑ فٹ پانی کی قلت کا شکار ہوتے ہیں۔
یہ بھی یاد رکھئے کہ بارشوں کے موسم میں پانی بہتات سے ہم سیلاب کی بھینٹ چڑھ کر20 ارب ڈالر کے نقصان سے دوچار ہوتے ہیں۔جیسا کہ 2010 کے سیلاب میں ہمارا حشر نشر ہو گیا۔
تاریخ سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ ہم پانی کو اسوقت ذخیرہ کر سکتے ہیں جب یہ ہماری ضرورت سے زاید ہو تاکہ جب پانی کی کمی ہو جائے تو ہم اپنے آبی ذخائر کو بروئے کار لا سکیں ۔دنیا نے بیسویں صدی میں بیالیس ہزار بڑے ڈیم تعمیر کئے ہیں جن میں سے صرف پچھلے پچاس برس میں چین نے بائیس ہزار ڈیم بنائے ہیں اور بھارت نے بائیس سونئے ڈیم بنائے۔پاکستان صرف دو ڈیموں تک محدود رہا۔
کالا باغ نہ بنا کر ہم ہر سال180 روپے کا نقصان برداشت کر رہے ہیں۔یہ بھی یاد رکھئے کہ کالا باغ ڈیم بن جاتا تو یہ ہمیں سالانہ بارہ ارب یونٹ کی بجلی مہیا کرتا جس کی فی یونٹ قیمت صرف ڈیڑھ روپیہ ہوتی۔پاکستانیوں کی قیادت اس قدر دانش مند ہے کہ وہ ڈیڑھ روپے فی یونٹ کے بجائے ساڑھے سولہ روپے فی یونٹ کی بجلی زبردستی ٹھونس رہی ہے یعنی فی یونٹ پندرہ روپے فالتو اور غیر ضروری طور پر اینٹھے جا رہے ہیں۔
یہ ہے سیاستدانوں کی لوٹ مار اوردن دیہاڑے ڈ کیتی کی ایک سفاک تریں جھلک۔
قارئین! آپ کا سر چکرا کر رہ گیا ہو گا اور میری آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھاتا جا رہا ہے، محترم برکت علی لونا کے زریں خیالات اور رشحات فکر اگلی قسط میں کل پیش کر سکوں گا۔ انشا اللہ !!اس وقت آپ بائیس مارچ کو عالمی یوب آب کے موقع ہر کیا گیا یہ اکشاف ضرور از بر کر لیجئے کہ صرف آٹھ سال بعد دنیا پانی کی قلت اورقحط کی نذر ہو جائے گی۔
کیا اب بھی آپ کے ذہن میں یہ امنگ نہیں جاگی کہ ہمیں نئے سے نئے آبی ذخائر کی اشد ضرورت ہے۔