خبرنامہ

’’کام یاب لوگ‘‘ کیسے کامیاب ہوئے! اسداللہ غالب۔۔۔اندازجہاں

بسم اللہ..میں ڈیل کارنیگی کی نہیں، امجد ثاقب کی بات کرنے والاہوں۔انہوں نے ہمارے معاشرے کو مد نظر رکھ کر بات کی ہے اور قابل عمل سنہری نتائج اخذ کئے ہیں۔
ڈاکٹر امجد ثاقب کو میں پاکستان کا ابن بطوطہ سمجھتا ہوں۔ اس لئے نہیں کہ وہ دنیا بھر میں بہت زیادہ سفر اختیار کرتے ہیں اور ابن بطوطہ کی طرح نت نئے علاقے‘ تہذیبیں اور مقامات دریافت کرتے ہیں بلکہ اس لئے کہ وہ مسلسل اس کھوج میں مگن ہیں کہ اس پاک دھرتی کے زیادہ سے زیادہ کامیاب اور معروف لوگوں کو دریافت کریں اور انہیں دنیا کے سامنے لائیں ۔ ان کی حالیہ تصنیف ’’کام یاب لوگ ‘‘ ان کی اس سلسلے میں کام یاب کاوش ہے جس میں انہوں نے چنیوٹ کی شیخ برادری کے تیس کے قریب حضرات کا ذکر کیا ہے جو اپنے شہر چنیوٹ سے نکلے اور پورے برصغیر میں پھیل گئے۔ یہ سفر1850ء کے بعد شروع ہوا اور تقسیم ہندوستان تک جاری رہا۔ ڈاکٹر صاحب کے مطابق یہ ان لوگوں کی کہانی ہے جو نئی دنیا کا خواب دیکھتے ہیں۔
نئی دنیا کا خواب کون نہیں دیکھتا‘ زندگی کے مہ و سال میں وہ کون سا لمحہ ایسا ہوتا ہے جب کوئی انسان یہ خواہش نہیں کرتا کہ وہ بھی دیگر لوگوں کی طرح کامیابی اور شہرت کی بلندیوں پر پہنچ جائے ۔ اس کے لئے ہر کوئی جتن کرتا ہے لیکن چونکہ خدا نے ہر ایک کا رزق مقرر کیا ہوا ہے اور اس کا فیصلہ زمین پر نہیں بلکہ آسمانوں پر ہوتا ہے چنانچہ کوئی شخص سخت محنت کر کے بمشکل دو وقت کی روٹی ہی کما پاتا ہے لیکن ایسے بھی ہیں جو اپنی سات سات نسلوں کے لئے ایمپائر کھڑی کر جاتے ہیں جس کی چکا چوند سے پوری دنیا حیران رہ جاتی ہے۔ڈاکٹر امجد ثاقب نے کامیاب لوگ کا انتساب ان لوگوں کے نام کیا ہے جو رزق حلال کماتے ہیں اور پھر اس کا کچھ حصہ بانٹ دیتے ہیں۔ڈاکٹر صاحب خود بھی اخوت کے نام سے ایسی ہی نیکی برسوں سے سر انجام دے رہے ہیں جس میں چھوٹے بلا سود قرضے غربت کی چکی میں پسے افراد میں بانٹے جا رہے ہیں اور لوگ بھیک مانگنے اور جرائم اختیار کرنے کی بجائے حق حلال کی روزی کما رہے ہیں۔ قرض دینے کے حوالے سے یہاں مجھے ایک حدیث یاد آ رہی ہے۔ حضرت ابو امامہؓ سے روایت ہے’’ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ایک آدمی جنت میں داخل ہوا تو اس نے دیکھا کہ جنت کے دروازے پر لکھا ہوا ہے صدقہ کا اجر و ثواب دس گنا ہے اور قرض دینے کا اجر و ثواب اٹھارہ گنا‘‘۔ اس حدیث میں خوشحال مسلمانوں کو ترغیب دی گئی ہے کہ وہ خوشدلی سے قرض دینے کی عادت ڈالیں تاکہ اسلامی معاشرے میں سہولت کے ساتھ ضرورت مندوں کو قرض مل سکے۔ قرض دینے کا اجر و ثواب صدقہ سے اس لئے زیادہ ہے کہ صدقہ لینے والا تو اس وقت بھی قرض لیتا ہے جب اس کے پاس کچھ ہوتا ہے مگر قرض مانگنے والا اسی وقت قرض مانگتا ہے جب اس کے پاس کچھ نہیں ہوتا۔ قرض دینا نفس پر زیادہ شاق گزرتا ہے لیکن خدا کے ان بندوں کے لئے نہیں جن کی نظر آخرت کی جزا و سزا پر ہوتی ہے۔
ڈاکٹر امجد ثاقب نے اس کتاب میں جن کامیاب چنیوٹی شیوخ کا ذکر کیا ہے ان میں سے شاذ و نادر ہی کوئی ایسا ہو گا جس نے اپنی دولت کو صرف اپنی فلاح تک محدود رکھا ہو۔ ڈاکٹر صاحب نے جن حضرات کا ذکر کیا ان میں سے بیشتر حضرات سے میرا برسوں کا یارانہ ہے لیکن ان کے کئی در مجھ پر آج کھلے جب میں نے ان کا تفصیلی ذکر ڈاکٹر امجد ثاقب کی زبانی سنا۔ ڈاکٹر امجد ثاقب نے پہلی کہانی ایس ایم منیر کی لکھی ہے جسے لوگ کاروبار کا بے تاج بادشاہ کہتے ہیں۔ ایس ایم منیر نے پاکستان کی کاروباری برادری میں جس قدر شہرت سمیٹی ہے وہ شاید ہی کسی کے حصے میں آئی ہو۔ چمڑے کے کاروبار کے آغاز میں ہی انہیں نقصان ہوا تو انہوں نے غلط طریقوں سے کاروبار کو سہارا دینے سے انکار کر دیا۔ ان کا کہنا تھا مجھے دیوالیہ ہونا منظور ہے لیکن اپنی زبان اور ساکھ پر حرف نہیں آنے دوں گا۔ نتیجہ صاف ظاہر تھا۔ ان کا سارا اثاثہ اصول کی نذر ہو گیا۔ صرف ایک گھر اور کچھ زیور باقی بچا لیکن ان کے والد نے جو اصول انہیں سکھائے تھے ان کی بدولت ایس ایم منیر کو دوبارہ سہارا ملا اور آج دین گروپ کا شمار پاکستان کے چوٹی کے کارباری گروپس میں ہوتا ہے۔ ایس ایم منیر نے غریب طلبا کی تعلیمی کفالت کا ایک پروگرام بھی شروع کیا ہوا ہے۔ گزشتہ نو برس میں ایک ہزار سے زائد نادار طلبا کو پروفیشنل تعلیم کے حصول کے لئے بلا سود قرضے دئیے گئے ہیں اور یہ طلبا آج لاکھوں کما رہے ہیں اور معاشرے کا ایک مثبت جزو بن چکے ہیں۔میں کس کس کا ذکر کروں۔ سینیٹر اعجاز شیخ اور گوہر اعجاز کی کاروباری ترقیاں اور فلاحی کام کس سے چھپے ہوئے ہیں۔ گوہر اعجاز اپنے والد کے نقش قدم پر چل رہے ہیں بلکہ ان سے بھی آگے ہیں اور گردے کے ڈائلسز کا علاج جو انتہائی مہنگا ہے اور جس بیماری کا شکار زیادہ تر غریب افراد ہوتے ہیں اس کے سلسلے میں انہوں نے ڈائلسز سنٹرز قائم کر رکھے ہیں جہاں ماہانہ سینکڑوں افراد مفت ڈائلسز کی سہولت حاصل کرتے ہیں اور گوہر اعجاز اور ان کے والد کو دُعائیں دیتے چلے جاتے ہیں۔
مجھے اندازہ ہے ڈاکٹر امجد ثاقب نے یہ کتاب صرف امرا کے لئے نہیں لکھی بلکہ جس انداز سے انہوں نے اسے تحریر کیا ہے یہ ان نوجوانوں کے لئے مشعل راہ ہے جو مشکلات سامنے دیکھ کر ترقی اور کامیابی کا خیال چھوڑ دیتے ہیں اور دل ہار جاتے ہیں۔ ان میں سے کچھ کاروباری خاندان ایسے تھے جنہیں ورثے میں بنی بنائی ایمپائر ملی لیکن کثیر تعداد ایسے حضرات کی ہے جنہوں نے سکریچ سے کام شروع کیا اور پھر اسے بلندیوں پر لے گئے۔ جن حضرات کو بنی بنائی ایمپائر ملی ان کے لئے بھی اسے چلانا اور برقرار رکھنا آسان نہ تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ قیام پاکستان کے بعد ملک میں کئی عشروں تک سیاسی عدم استحکام رہا‘ کبھی فوجی حکومت تو کبھی سیاسی۔ کبھی مشرقی پاکستان کا سانحہ تو کبھی بار بار فوج کی مداخلت۔ ایسے میں کاروبار کرنا اور وہ بھی ایسے حالات میں جب آپ کے پاس آج کی طرح نہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے جدید وسائل موجود ہوں اور نہ ہی نقل و حمل کے تیز ترین ذرائع میسر ہوں۔ بلند ہمتی کی یہ داستانیں اگر رقم کی گئیں تو ان کے پیچھے بے پناہ صلاحیت اور اس سے بھی زیادہ حوصلہ اور برداشت کا مادہ درکار تھا جو آج کل کے نوجوانوں یا نئے کاروباری افراد میں کم ہی پایا جاتا ہے۔
میں کام یاب لوگ کو صرف ایک کتاب نہیں سمجھتا بلکہ یہ کامیابی کا راز پانے کی ایک پوری ڈکشنری یا انسائیکلو پیڈیا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے چنیوٹی کاروباری افراد کے بزنس ماڈل ‘ ان کے اوصاف اور کامیابی کے لئے درکار لوازمات کا تفصیلی ذکر کیا ہے اور باقاعدہ زائچے بنا کر کیا ہے۔چنیوٹ برادری کے سماجی منصوبوں کا بھی ذکر ہے کہ کس طرح معاشرے کو اس کا حق لوٹانے کی کوشش کی گئی ہے۔ کسی نے ہسپتال بنایا تو کسی نے تعلیمی ادارے۔
کتاب کا آخری باب سب سے اہم ہے۔ اس کا عنوان ہے کیا میں اس کتاب سے کچھ سیکھ سکتا ہوں؟ کہا جاتا ہے تجربہ سب سے اچھا استاد ہے لیکن اس کی اجرت بہت زیادہ ہے۔ڈاکٹر صاحب نے اس باب میں یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ اگر ہم کامیاب لوگوں کے تجربات کا گہرائی سے تجزیہ کر لیں تو ہم بہت سی مشکلات سے بچ سکیں گے جو ہر کام میں درپیش ہوتی ہیں۔کتاب کا حاصل یہی ہے کہ کوئی بھی کاروبار کتنا ہی ترقی کر جائے اس کے مالک کے پاس دنیا بھر کی چیزیں آ جائیں گی وہ دولت طاقت شہرت میں خودکفیل ہو جائے گا لیکن اگر وہ خدمت کا جذبہ بھی اپنی ایمپائر میں شامل کر لے تو اسے اطمینان قلب بھی نصیب ہو جائے گا اور یہ حقیقت ہے کہ ایک عام نوکری پیشہ شخص سے لے کر بزنس ٹائی کون تک سب کی زندگی کا اولین مقصد دل کا سکون ہی ہوتا ہے۔ اگر سکون نہ ملے تو دولت‘ کاروبار اور شہرت کوئی فائدہ نہیں دیتی۔ ڈاکٹر امجد ثاقب کی تصنیف ’’کام یاب لوگ‘‘ کا حاصل بھی یہی ہے۔
اس کتاب میں سفائر گروپ کے عبداللہ صاحب کا بھی ذکر ہے، یہ ایک اتفاقیہ امر ہے کہ میں نے اپنے جوڑوں کے علاج کے لئے کسی سوئمنگ پول میں جانا شروع کیا تو وہاں میری ملاقات عبداللہ صاحب سے ہو گئی، یہ صبح سویرے کا وقت تھا اور پول میں ہم دونوں تھے، انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ کیا کسی ڈاکٹر کے مشورے پر یہاں آیا ہوں میں نے کہا کہ ہاں کسی فزیو تھراپسٹ کے پاس جاتا تھا، انہوں نے یہ نسخہ آزمانے کی ہدایت کی، عبداللہ صاحب نے بتایا کہ وہ سنگا پور کے ایک ہسپتال میں گئے تھے، وہاں سے مشورہ دیا گیا کہ فی الحال ہائیڈرو تھیراپی سے کام چلائیں۔ میں نے اللہ کا شکر ادا کیا کہ مجھے یہ نسخہ سات سو میں ملا اور عبداللہ صاحب کو لاکھوں میں پڑا۔بہر حال میں نے محسوس کیا اس شخص کی شکل، گفتگو یا چال ڈھال سے نہیں لگتا کہ وہ اربوں کھربوں کامالک ہے، وہ مجھے انتہائی شفیق انسان لگے، انہیں میری تکلیف سن کر پریشانی لاحق تھی۔ میرے جیسے بے مایہ شخص کے لئے ان کی درد مندی کا اظہار۔یہی وہ راز ہے جو بڑے انسانوں کی کامیابی کے پیچھے پنہاں ہوتا ہے۔