خبرنامہ

کس شیر کی آمد ہے کہ رن کانپ رہا ہے..اسداللہ غالب

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

کس شیر کی آمد ہے کہ رن کانپ رہا ہے

میں اس کے سوا اور کیا سرخی جماتا ۔لندن سے دو مسافر آرہے ہیں ایک اڑسٹھ سال کا بوڑھا جس کے دل کے دو آپریشن ہوچکے ہیں ساتھ اس کے بیٹی جو نانی کی عمر کو پہنچ چکی ہے ۔ایک مسافر کی بیوی اور دوسرے مسافر کی ماں لندن کے ہسپتال میں موت و حیات کی کش مکش میں مبتلا ہے وینٹی لیٹر پر ہے، کئی ہفتوں سے بے ہوش ہے مگر دونوں مسافر اسے اللہ کے حوالے کر کے واپس آنے پر مجبور کردیئے گئے ہیں۔ خود نہ آتے تو ان کے ریڈ وارنٹ جاری ہو جاتے اور انٹرپول کے بھیڑئیے ان کا تعاقب کرتے ۔عام حالات میں ان دو مسافروں کو گرفتار کرنے کے لیے صرف ایک پولیس کانسٹیبل کافی تھا جو طیارے کے انجن بند ہونے پر سب سے پہلے سیڑھی پھلانگتا ہوا جہاز کے اندر جاتا اور دونوں کو ہتھکڑی لگاکر جہاں حکم ہوتا وہاں کسی کھٹارہ جیپ میں ڈال کر انہیں لے جاتا مگر منظر نامہ اتنا سادہ نہیں۔ پورے ملک پر جنونی کیفیت طاری ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے ریاستی مشینری پانی پت کے میدان جنگ میں کودنے والی ہو ،دوسری طرف ان مسافروں کی سیاسی پارٹی کے لیڈر اور کارکن بظاہر پھولوں کا ہار لیے ان کے استقبال کے لیے جوق در جوق ایئر پورٹ کی طرف جانے والے تمام راستوں پر رواں دواں ہیں۔ مگرممکن ہے انہوں نے دل میں یہ بھی ٹھان رکھی ہو کہ ضرورت پڑی تو ترکی کے عوام کی طرح ٹینکوں کے سامنے لیٹ جائیں گے ۔یہ میں اپنی طرف سے نہیں کہہ رہا بلکہ جب ترکی میں فوجی بغاوت ہوئی تو عوام ٹینکوں کے سامنے سینہ تان کر کھڑے ہو گئے اور یوں فوجی انقلاب کو ناکام بنا دیا ،اس پر نواز شریف اور شہبازشریف دونوں نے اردوان کو مبارکباد کا پیغام بھیجا اور اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ پاکستان میں بھی عوامی طاقت کے بل بو تے پر جمہوریت کا دفاع کریں گے۔نواز شریف ایک بہادر انسان ہیں ۔میں ذاتی طور پر گواہ ہوں کہ وہ انیس سو پچاسی میں بھی ایک فائیٹر نظر آئے اور وہ آج بھی اسی صلاحیت کا مظاہرہ کر رہے ہیں، وہ سلطان میسور کی طرح جانتے ہیں کہ شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سالا زندگی سے بہتر ہے ۔وہ تمام خطرات کی پرواہ کیے بغیر وطن واپس آرہے ہیں۔ وہ خود کہتے ہیں کہ مجھے جیل کی کوٹھری اور لوہے کی سلاخیں نظر آرہیں ہیں جس میں مجھے بند کیا جائے گا۔ نواز شریف ان آزمائشوں کا پہلے بھی سامنا کر چکے ہیں۔ ننانوے میں انہیں سیف ہائوسوں کے اندھیروں میں بند کیا گیا۔ اٹک جیل میں قید کیا گیا ۔جہاز کی سیٹ پر زنجیر کے ساتھ باندھا گیا، دہشت گردی اور غداری کے مقدمے چلے مگر ان کے پائے استقلال میں لغزش نہیں آئی ،انہوں نے جلا وطنی کا عرصہ بھی بڑی بہادری اور دلیری سے کاٹا اور پھر وطن واپس آکر تیسری بار وزیر اعظم بن کر دکھایا۔نواز شریف کے ساتھ سختی کا ہر برتائو کیاجا سکتا ہے مگر ان پر سختی کرنے والیاس زعم میں نہ رہیںکہ وہ نوا شریف کو چت کر سکتے ہیں ۔سارے مقدموں اور تمام سزائوں کے باوجود تاریخ میں انہی کانام زندہ رہے گا۔سقراط کو زہر دینے والی جیوری کے نام کوئی نہیں جانتا، مگر سقراط کا نام ہزاروں سال گزرنے کے باوجود زندہ و پائندہ ہے ۔بھٹو کو پھانسی دے دی گئی۔ کس نے دی ۔کون جانتا ہے مگر بھٹو کا نام زندہ ہے بھٹو ہر دل میں، ہر جھونپڑی میں ،ہر گوٹھ اور ہر گھر میں روشنی بن کر چمک رہا ہے۔ نواز شریف پاکستان میں جمہوریت کے دفاع کی جنگ کو فیصلہ کن مرحلے میں داخل کر چکے ہیں۔ جمہوریت کے خلاف سازش ضروری نہیں کہ پاکستان کے اندر سے ہو رہی ہو ،بیرونی طاقتیں بھی پاکستان میں جمہوریت کے عشق میں مبتلا نہیں ہیں۔جب بھی فیصلے کی گھڑی آئی تو بیرونی قوتوں نے غیر جمہوری حکومتوں کا ساتھ دیا ایوب خان کو گیارہ سال تک پاکستان پر مسلط رکھا ،ضیا الحق کی ڈکٹیٹر شپ کو بھی گیارہ سال تک دودھ پلا کر پروان چڑھایا اور مشرف کی فوجی آمریت کو ڈالروں سے مالامال کر کے پاکستان میں جمہوریت کا بیڑا غرق کئے رکھا۔ آج بھی بیرونی طاقتیں پاکستان میں عدم استحکام کے لیے کھلے عام کوشاں ہیں۔ دو روز بیشتر پاک فوج کے ترجمان نے بھی تسلیم کیا ہے کہ وہ غیر ملکی سازشوں سے با خبر ہیں۔ ہم سب جانتے ہیں کہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی دھمکی دے چکے ہیں کہ جس طرح ان کے ملک نے بنگلہ دیشی عوام کو ان کے حقوق دلوائے، اسی طرح اب وہ بلوچستان، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے عوام کو بھی ان کے حقوق دلوائیں گے ۔یاد رہے کہ بھارت کو بنگلہ دیش میں کامیابی اس وقت ملی جب ہم نے اپنے الیکشن میں اکثریت حاصل کر نے والی پارٹی کو اقتدار منتقل نہیں کیا اور ملک میں فساد برپا ہو گیا جس کا فائدہ بھارت نے اٹھایا ۔ آج ہم اس سے بڑی غلطی کا ارتکاب کر رہے ہیں۔ملک کی سب سے بڑی اور اکثریتی پارٹی کو الیکشن لڑنے سے روکا جارہا ہے اور دوسری پارٹی کا بھی ناطہ بند کر دیا گیا ہے۔ یوں میدان صرف تیسری پارٹی کے لیے خالی رہ گیا ہے۔اس پس منظر میں جو بھی الیکشن ہوگا، اس کے نتائج کو اگر سیاسی پارٹیوں کی اکثریت نے مسترد کر دیا تو جو بھیانک نتیجہ نکل سکتا ہے اس کا اندازہ کرنا مشکل نہیں ہونا چاہئے۔ ستر میں جیتنے والی پارٹی کے لیڈر کو الیکشن کے بعد گرفتار کیا گیا ،اب موجودہ الیکشن میں جو پارٹی جیت سکتی تھی، اس کے لیڈر کو پہلے ہی ہتھ کڑیاں پہنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اس بحث سے کچھ باتیں بڑی واضح ہیں، نواز شریف کا انتخابی نشان ہی شیر نہیں، وہ خود بھی شیر جیسے کردارکا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ایسے شخص کو گیدڑ بنانے کا خیال دل سے نکال دینا چاہئے دوسرا نکتہ بھی بڑا واضح ہے۔ جو شخص لیڈر نہیں ہے اور جس کی پارٹی کو ملک میں کبھی اکثریت حاصل نہیں رہی تو اس لیڈر اور اس کی پارٹی کے غبارے میں ضرورت سے زیادہ ہوا بھرنے کا نتیجہ یہ ہوگا کہ غبارہ پھٹ جائے گا اور اس کا بیک بلاسٹ بھی خطر ناک ہو سکتا ہے۔ نواز شریف ایک مسلمہ لیڈر ہے اور جو شخص اس کی جگہ لینے کے خواب دیکھ رہا ہے، اس کے بارے میں فوجی ترجمان کی بریفنگ میں ایک صحافی نے کوئی لفظ بولا تو اسے سوشل میڈیا کے مطابق ملازمت سے نکلوا دیا گیا۔جس لیڈر میں اتنی بھی قوت برداشت نہیں کہ وہ اپنے خلاف ایک لفظ تک سن سکے ،وہ کل کو جمہوری لیڈر کیسے بن پائے گا ۔بحث کا نتیجہ یہ نکلا کہ نہ تو مصنوعی ہتھکنڈوں سے کسی شخص سے لیڈر شپ چھینی جا سکتی ہے اور نہ کسی دوسرے شخص کومصنوعی ہتھکنڈوں سے اس کی جگہ لیڈر بنایا جاسکتا ہے۔۔۔ تو اس بے مقصد ایکسرسائیز کا کیا فائدہ۔