خبرنامہ

کشمیریوں کے ساتھ یوم یک جہتی کے حقیقی تقاضے…اسد اللہ غالب

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

کشمیریوں کے ساتھ یوم یک جہتی کے حقیقی تقاضے…اسد اللہ غالب

مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کی فائرنگ سے شہید ہونے والوں کی تعداد پچیس سے بڑھ گئی ہے اور پوری وادی گزشتہ دو روز سے سراپا احتجاج بنی ہوئی ہے۔ پاکستان میں عوامی ضمیر بھی کسی حد تک جاگا ہے۔ مگر افسوس کہ کشمیر کمیٹی گہری نیند کے مزے اڑا رہی ہے۔ مگر وفاقی کابینہ نے اپنی ذمے داری کا ثبوت فراہم کیا ہے اور ایک ہنگامی اجلاس میںبھارتی مظالم کی شدید مذمت کی ہے۔ وزیر خارجہ خواجہ آصف نے بھی بھارت کی ننگی دہشت گردی کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی ہے۔حکومتی سطح پر فیصلہ کیا گیا ہے کہ جمعہ کو کشمیہریوںکے ساتھ یوم یک جہتی منایا جائے گاا ور ممکنہ طور پر بھارتی مظالم پر غو رو خوض کے لئے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بھی بلایا جاسکتا ہے۔
اگرچہ دفاع کی پالیسی بنانے کا اختیار حکومت ا ور مسلح افواج کو حاصل ہے مگر ہر ملک میں ایک قومی پالیسی بھی ہوتی ہے۔ آج جب ہم اپنے مرشد محترم مجید نظامی کا یوم ولادت منا رہے ہیںتومجھے جنرل پرویز مشرف کی وہ میڈیا بریفنگ یادا ٓتی ہے جس میں مشرف نے کشمیریوں کی تحریک آزادی کی حمائت کو دہشت گردی قرار دیا اور اس سلسلے میں کابینہ کا فیصلہ سنایا تھا۔ اس پر ایوان صدر کا ریکارڈ گواہ ہے ، اس کی وڈیو یا آڈیو ٹیپ سن لی جائے، میرے مرشد مجید نظامی نے وفور جذبات میں اپنا مکہ ہوا میں لہراتے ہوئے آرمی چیف جنرل مشرف سے کہا تھا کہ گرا ٓپ نے کشمیر سے غداری کی تو اس کرسی پر قائم نہیں رہ سکیں گے، میں بھی اپنے مرشد نظامی کے یہ الفاظ یاد دلاتے ہوئے عرض کرنا چاہتا ہوں کہ جب کسی خطے کی جدو جہد کو آپ تحریک حریت مان رہے ہیں تو پھر اس تحریک کی حمائت بھی جائز ہو نی چاہئے ۔میں سابق آرمی چیف جنرل پرویز مشرف ہی کی ایک نشری تقریر کا حوالہ دوں گا جو انہوںنے صدر کلنٹن کی نشری تقریر کے جواب میں کی تھی۔ صدر کلنٹن نے اسلام آباد میں اپنے مختصر قیام کے دوران پاکستانی عوام سے براہ راست خطاب میں وارننگ دی تھی کہ موجودہ دور میں طاقت کے بل پر سرحدیں نہیں بدلی جا سکتیں تو اس کے فوری بعد جنرل مشرف نے بھی نشری خطاب کیا اور کہا کہ کشمیری مسلمان لائن آف کنٹرول کے دونوں جانب موجود ہیں اور پاکستان بھر میں پھیلے ہوئے ہیں ، جب وہ دیکھتے ہیں کہ بھارتی فوج مقبوضہ کشمیر میں ان کے بھائیوں پر جبر کے پہاڑ توڑ رہی ہے تو حکومت پاکستان ان کی حمائت کے لئے کسی کا راستہ نہیں روک سکتی، یہ نشری خطاب بھی ایوان صدر اور جی ایچ کیو کے ریکارڈ میںموجود ہونا چاہئے۔ اس کے پیش نظر حکومت پاکستان اپنی کشمیر پالیسی میں ترمیم نہیں کر سکتی یا پھر واضح اعلان کیا جائے کہ ہم کمزور قوم ہیں اور کشمیریوں کے ساتھ کھڑا ہونا ہمارے لئے خطرناک ہے۔ مگر اس ضمن میںواضح اعلان کیا جائے بلکہ قومی کشمیر پالسی میں ترمیم کے لئے ملک میں ریفرنڈم کروایا جائے۔ اب دیکھنا یہ ہو گا کہ قومی کشمیرپالیسی کیا ہے۔ اس ضمن میں بانی پاکستان قائد اعظم کا قو ل پیش کرتا ہوں جس میں انہوں نے کشمیر کو پاکستان کی ا قتصادی شہہ رگ قرار دیا تھا۔ گزشتہ روز سپریم کورٹ میں میرے مرشد نظامی کا ایک آرٹیکل زیر بحث آیا جس میں انہوں نے واٹر ٹیرر کی تشریح کرتے ہوئے کہا تھا کہ بھارت پہلے ہی پاکستان کے دو دریائوں پر قابض ہے ۔ ان میں ستلج اور راوی شامل ہیں اور اب وہ پاکستان کے حصے کے دو دریائوں جہلم اور چناب پر بھی قابض ہونے کی کوشش کر رہا ہے، یہی آبی دہشت گردی ہے جس کی و جہ سے پاکستان بنجر ہورہا ہے ا ورا س کا مقابلہ کرنے کے لئے ہمیں دریائے سندھ پر کالا باغ ڈیم بنانا ہو گا۔بد قسمتی سے یہ ڈیم بھی بھارتی ایجنٹوں نے جو ہماری صفوں میں ہر جگہ گھات لگائے بیٹھے ہیں، نہیں بننے دیا، جس کے نتیجے میں پاکستان کی زرخیز تریں زمینوں میں خاک اڑ رہی ہے۔ یہی وہ اقتصادی شہہ رگ ہے جسے بھارت نے دبا رکھا ہے ۔ وادی کشمیر اس کے ہاتھ سے نکل گئی تو پاکستان کی اقتصادی شہہ رگ بھی بھارت کے شکنجے سے آزاد ہو جائے گی مگر بھارت کشمیریوں کی جدو جہد آزادی کو ہر قیمت پر کچل کر پاکستان کی اقتصادی شہہ رگ کو کاٹ کر رکھ دینا چاہتا ہے، قائد اعظم ہی کا دوسرا قول وہ حکم ہے جو انہوںنے مسلح افواج کو دیا تھا کہ کشمیر کو بھارتی فوج کی محکومی سے آزاد کرایا جائے۔ اس حکم سے ثابت ہو گیا کہ کشمیر کی آزادی کے لئے پاکستان کی فوجی مداخلت ایک جائز اقدام ہے، اب آگے بڑھیئے ، ہمارا ایک قومی لیڈر بھٹو ہے جس نے اعلان کیا تھا کہ کشمیر کے لئے ہزار سال تک لڑیں گے۔پاکستان کی ایک ا ور قومی لیڈر محترمہ بے نظیر بھٹو ہیں جنہوںنے دیوار برلن کے انہدام کے بعدکشمیر میں چلنے والی تحریک آزادی کی حمایت میں کنٹرول لائن کا دورہ کیا تھا اور جذبات میں بہہ کر اپنا سفید دو پٹہ سر سے ا تار کر ہوا میں لہراتے ہوئے نعرے لگائے کہ آزادی ! آزادی، پاکستان کاایک قومی لیڈر نواز شریف ہے جو دو برس پہلے جنرل اسمبلی کے اجلاس میں کشمیریوں کے حق میں ایک انتہائی جذباتی ، اور زورد ار تقریر کر چکے ہیں ۔نواز شریف کی کشمیر پالیسی کی گواہی چند روز پہلے سابق سیکرٹری خارجہ شمشادا حمد نے بھی میرے ساتھ گفتگو میں دی کہ جب انہوںنے اپنا منصب سنبھالاا ور وزیر اعظم نواز شریف سے پوچھا کہ سر ! میرے لئے کیا حکم ہے تو انہوںنے واضح الفاظ میں کہا تھا کہ آپ ،کشمیر پر کسی سودے بازی کو ہرگز قبول نہ کریں۔
اب یہی قومی پالیسی ہے جس کے تحت ہم ہر سال یوم یک جہتی کشمیر مناتے ہیں، کشمیر پر بھارتی قبضے کے روز کو یوم سیاہ کے طور پر مناتے ہیں ۔ اور ہم نے نوجوان کشمیری برہان وانی کی شہادت کا ماتم کیا تھا ، میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ جب ہماری قومی کشمیر پالیسی واضح اور غیر مبہم ہے اور ہم کشمیریوں کے ساتھ زبانی کلامی بھی کھڑے ہیں تو بھارت ، امریکہ اورا قوام متحدہ اسے بھی دہشت گردی قرار دے سکتے ہیں تو پھر ہمارا راستہ کیا ہو گا ، کیا ہماری زبانیں بھی مظلوم کشمیریوں کی حمایت میں بند ہو جائیں گی۔اس لئے خدا نخواستہ ہماری کشمیر پالیسی ڈانواں ڈول نہیں ہونی چاہیے ، مبہم نہیں ہونی چاہئے، غیر واضح نہیں ہونی چاہئے ،منافقت اور مصلحت پر مبنی نہیںہونی چاہئے۔ یہ کشمیریوں کے ساتھ بھی ایک ناقابل معافی دھوکا ہو گا۔
میں اپنے اس اطمیان کا اظہار کروں گا کہ فی الحال ہم کشمیریوں کی اخلا قی اور سفارتی حمایت میں مکمل طور پر سرگرم عمل ہیں، ہماری حکومت اور ہماری سیاسی اور ہماری مذہبی جماعتیں مکمل طور پر یک سو ہیں اور کشمیریوں کے ساتھ دل و جان سے کھڑی ہیں۔ گزشہ روز جب کشمیر میں دو درجن لاشیں گریں تو آزادی کشمیر کے حامی حافظ محمد سعید نے جو ا س وقت پابندیوں کا شکار ہیں، تمام خطرات سے بالاتر ہو کر کشمیریوں کی آزادی کی حمائت کی ، بھارتی دہشت گردی کی مذمت کی ا ور ان کے کارکنوں نے ملک بھر کے بڑے شہروں اور قصبوں میں بھارتی جارحیت کی مذمت کے لئے جلوس نکالے ۔ یہ بھی شکر ہے کہ ہمارے میڈیا نے بھی بھارت کی ریاستی دہشت گردی کے خلاف آواز ا ٹھائی، آج ایساکوئی ایک پاکستانی نہیںجو بھارت کے حق میں بول رہا ہو مگر ایسابھی کوئی شخص موجود نہیں جو قائد اعظم کے حکم کی تعمیل میں کہہ رہا ہو کہ کشمیر کو ہماری فوج بھارت کی غلامی سے نجات دلائے۔ شاید ہم لوگ بھارتی ، امریکی پروپیگنڈے سے ڈر گئے ہیں کہ اگر کشمیریوں کی عملی حمایت کا اعلان کیا تو پاکستان کو دہشت گرد قرار دے دیا جائے گا۔ مگر یہ خوف نہ قائد اعظم کو لاحق تھا، نہ بھٹو کو۔ نہ بے نظیر کو اور نہ نواز شریف کو تو پھر ہم میں سے وہ کون ہے جو کشمیریوں کی لاشیں گرنے پر صرف زبانی کلامی احتجاج اور مگر مچھ کے آنسو بہانے پر اکتفا کرنا چاہتا ہے ۔ اس طرح تو بھارت کو معلوم ہو جائے گا کہ کشمیری بالکل تنہا ہیں۔ وہ ان کو مارے گا، اورمارے گا ور مارتا چلا جائے گا، جس طرح اسرائیل نے فلسطینیوں کی نسل کشی کی ہے اور انہیں دو میونسپل کمیٹیوں کے رقبے میں محدود کر دیا ہے، اسی طرح خدا نخواستہ پاکستان کی بے حسی کی وجہ سے بھارت اس صورت حال کا پورا فائدہ ا ٹھائے گا، وہ کشمیریوںکی نسل ختم کر دے گا۔ اور پھر وہ ہمیں نشانہ بنانے سے گریز نہیں کرے گا، بھارت نے اسپین کے مسلمانوں کی نسل کشی پر تحقیق کی ہے اورا س کابنیادی نکتہ ہسپانوی مسلمانوں اور ارد گرد کے مسلم ممالک کی بے حسی اور بے اعتنائی تھی۔ہمارے بارے میں بھارتی وزیر اعظم واضح دھمکی دے چکا ہے کہ وہ بلوچستان ، کشمیرا ور گلگت بلتستان کے عوام کو ان کے حقوق دلوائے گا جس طرح اکہتر میںمشرقی پاکستان کے لوگوں کوان کے حقوق دلوائے تھے تو نوشتہ دیوار پڑھنے میں کوئی غلطی نہیں ہو سکتی، یہ بربادی اور خود کشی کا راستہ ہے، آج ہم مظلوم کشمیریوں سے صرف زبانی کلامی اظہار ہمدردی کریں گے تو کل کو عالم ا سلام ہماری ابتلا پر ایسے ہی زبانی کلامی ہمدردی کا اظہار کرے گااور بس!
ہمیں منافقت اور بے حسی اور دوغلی پالیسی کے بجائے واضح طور پر کشمیریوں کا ساتھ نبھانا چاہئے ، ہم نے افغانستان پر روسی قبضے کے خلاف کھلم کھلاجہاد کیا تھا، آج ہم اس کردار پرا وراس جہاد پر فخر کرتے ہیں اور روس کی شکست و ریخت پر بغلیں بجاتے ہیں تو کشمیر کو بھارتی قبضے سے آزاد کرانے سے ہم کیوں ہچکچا رہے ہیں، کس کے کہنے پر ہچکچا رہے ہیں۔ اگر ہم ڈرتے ہیں کہ کشمیر میں عملی مداخلت کرنے سے موت ملے گی تو جناب آپ کو حیات ابدی مبارک ہو ! مگر جو پاکستانی موت سے نہیں ڈرتے اور میرے مرشد مجید نظامی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے یہ رضاکارانہ پیش کش کرنے کو تیار ہیں کہ ا نہیں ایٹمی میزائل کے ساتھ باندھ کر جموں کی بھارتی فوجی چھائونی پر گرا دیا جائے تو ان کی ا س پیش کش کو تو قبول کیا جائے۔یہی تقاضہ ہے کشمیریوں کے ساتھ اظہار یک جہتی کا!!!