خبرنامہ

کشمیری شہیدو ، ہم تمہارے لئے تو رو بھی نہیں سکتے۔۔۔اسداللہ غالب۔

کشمیر میں ایک اوربچے کو گولیوں سے چھلنی کر دیا گیا۔ اس شہید بچے کا جنازہ اٹھا تو اس پر بھی بھارتی فوج نے گولیوں کی بوچھاڑ کر دی، نجانے کتنے زخمی ہوئے، کشمیر میں شہیدوں اور زخمیوں کی اب گنتی بھی مشکل ہو گئی ہے۔
ان شہیدوں اور زخمیوں کے لئے تو اب رونابھی مشکل ہو گیا ہے، نہ جانے پارلیمنٹ کی کسی کمیٹی کا کوئی چیئرمین اس رونے دھونے کو بھی دہشت گردی نہ قرار دے ڈالے۔پہلے پہل جنرل مشرف نے کشمیر جہاد کو دہشت گردی کہا تھا، میرے مرشد مجید نظامی شور مچاتے رہ گئے کہ کشمیر سے غداری کرو گے تو اس کرسی پرنہیں رہ سکو گے مگر وہ کشمیر کاغدار اگلے نو سال تک کرسی پر دھڑلے سے براجمان رہاا ور کشمیری بے چارے بھارتی فوج کے رحم کرم پر چھوڑ دیئے گئے ۔پتہ نہیں یہ آرمی چیف اس قدر بزدل کیوں واقع ہوا، اسی مشرف کو صرف دو سال قبل صدر کلنٹن نے یہ دھمکی دی تھی کہ پاکستان کی سرزمین کو دہشت گردی کے لانچنگ پیڈ کے لئے مت استعمال ہون دو،ا سنے یہ بھی کہا کہ آج کے دور میں طاقت کے بل پر سرحدیں نہیں بدلی جاسکتیں، مگر مشرف نے اس کی نشری تقریر کے جواب میں اپنے خطاب میں کہا تھا کہ کشمیری کنٹرول لائن کے آر پارا ور پورے پاکستان میں پھیلے ہوئے ہیں،اور مقبوضہ کشمیر میں ان کے بہن بھائیوں پر ستم ڈھایا جائے تو ان کی مدد سے کسی کو روکا نہیں جا سکتا۔میرے مرشد نظامی کا جگرا اس قدر مضبوط کیسے تھا کہ انہوں نے کہا کہ میں کشمیریوں کی مدد کروں گا، جس نے انہیں دہشت گرد قرار دیناہو ، اپنا شوق پورا کر لے۔ہر کوئی گواہ ہے کہ مرشد نظامی کھلے عام کشمیریوں کے لئے اسلحہ بھی فراہم کرتے رہے اور ان کے کھانے پینے کی اشیا بھی بھجواتے رہے اور دو ادارو کا سامان بھی۔
اب کسی نے کہا ہے کہ حافظ سعید کون سے انڈے دیتا ہے کہ ہم اسے پال رہے ہیں، یہی کچھ بھارت کہتا ہے ا ور بھارت کے پروپیگنڈے میں امریکہ کہتا ہے۔بھارت بھی کہتا ہے کہ ممبئی حملے، پٹھانکوٹ حملے کے مجرموں کو پھانسی دو، کشمیر میں در اندازی بند کرو ونہ پاکستان کو تنہا کر دوں گا، بھارت نے پاکستان کو تنہا کرنے کی پوری کوشش کر دیکھی، اوڑی حملے کا ٖڈرامہ رچا کر پاکستان کو بدنام بھی کر لیا مگر ابھی تین دن پہلے پاکستان نے سکوک بانڈز فروخت کر کے ایک ا ورب ڈالر کما لئے، کیا یہ ہے پاکستان کی تنہائی جس سے پاکستان کے سیکرٹری خارجہ ا ور کسی پارلیمانی کمیٹی کے سربراہ نے ہمیں ڈرانے کی کوشش کی ہے۔عمران پھر ٹھیک ہی کہتا ہے کہ بسم اللہ! پاکستان کو تنہا کردو ، میں بیرونی قرضوں اور امداد سے ملنے والی رقم سے دوگنا چندہ ملک کے اندر سے اکٹھا کر دوں گا۔
کیا ستم ظریفی ہے کہ اسوقت بھارت کھلی ریاستی دہشت گردی کا ارتکاب کر رہا ہے ا ور ہم حافظ سعید کے پیچھے لٹھ لے کر پڑ گئے ہیں اور ہمارا نشانہ آئی ایس آئی کے سربراہ بن گئے ہیں۔ ان پر پہلا نشانہ اچکزئی صاحب نے لیا تھا جب کوئٹہ میں وکیل شہید ہوئے، اچکزئی صاحب نے مطالبہ کیا تھا کہ ملک کے سیکورٹی چیف کو سیٹ سے ہٹا دوا ور اب خبریں گرم ہیں کہ جنرل رضوان اختر کو پنجاب کے چیف منسٹر نے ایک میٹنگ میں بے نقط سنائیں اور انہیں عہدے سے ہٹا نے کی تیاری کی جا رہی ہے اور کراچی کے کور کمانڈر کو یہاں لایا جا رہا ہے، کیااس نئے سربراہ کے ساتھ نباہ ہو پائے گا، یہ وقت بتائے گا۔ پہلے جنرل پاشا کوایک ٹی وی نے نشانہ بنایا تھا، ان کے پیچھے قوم کھڑی ہوگئی تھی، ایک مرتبہ بے نظیر صاحبہ نے اپنے کسی چہیتے سویلین کو آئی ایس آئی کا ہیڈ لگا دیا تھا۔ آئی ایس آئی کے خلاف دنیا ہے مگر اس کے خلاف ایکشن ہم لیتے ہیں۔جنرل رضوان اختر کی ممکنہ تبدیلی کی خبریں بھارتی میڈیا میں اچھالی جا رہی ہیں اور بھارتی لالے خوشی سے پاگل ہو کر ناچ رہے ہیں کہ ا ن کاایک تیر تو نشانے پر لگا۔اب ان کی نظریں حافظ سعید اور مسعود اظہر پر جمی ہیں کہ پاکستان کب انہیں ٹھکانے لگاتا ہے۔مگر بھارت کی حرص یہیں پر ختم نہیں ہو گی، وہ پاک فوج کے ایٹمی دانت نکلوانے کے چکر میں ہے، ا سکی خواہش ہے کہ پاک فوج کے جرنیل پٹواریوں اور تھانیداروں کی طرح ارکان اسمبلی کے ڈیروں پر روزانہ حاضری لگوایا کریں۔ اور یہ ارکان اسمبلی جس جرنیل سے ناخوش ہوں ، اسے کلرکوں اور اسکول ٹیچروں کی طرح تبدیل کرو ادیا کریں۔
ہم نے بھارت کی ریاستی دہشت گردی سے آنکھیں کیوں بند کر لی ہیں ، کیا اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم بھارت کی اس دہشت گردی کے ساتھ ہیں۔ایک ایسے موقع پر جب ھارتی عوام اپنی حکومت اور فوج کی دہشت گردی پر سراپا احتجاج ہیں اور اوم پوری جیسے بوڑھے بھی جوانوں کی طرح حکومت کو للکار رہے ہیں،ا سوقت ہم بھیگی بلی کیوں بن گئے ہیں۔
کوئی اس بات کے ثبوت مہیا کرے کہ سرینگر میں جس معصوم بچے کو شہید کیا گیا اور پھر جو لوگ اس کے جنازے میں شریک ہو کر بھارتی فوج کی گولیوں سے زخمی ہوئے، کیا وہ سب کے سب پاکستان سے گئے تھے، کیا وہ در انداز تھے، کیا وہ انتہا پسند تھے، کیا وہ دہشت گرد تھے، اگر وہ دہشت گرد تھے تو حریت پسندی کس چڑیا کا نام ہے۔تو پھر بھگت سنگھ شہید حریت لیڈر کیسے ہو گیا۔ہمارے وزیر اعظم نے وانی شہید کو حریت لیڈر کہا ہے تو ان کے سیکرٹریوں اور پارلیمانی لیڈروں کو ان سے چڑ ہے۔
بھارتی فوج نے کنٹرول لائن اور انٹر نیشنل بارڈر پر دوہری باڑ لگا رکھی ہے،ا س باڑ میں بجلی کا کرنٹ دوڑتا ہے، باڑ کے دونوں طرف باردوی سرنگیں ہیں، زمین پر ایسی تاریں بچھی ہیں جو کیڑی کی سرسراہٹ کو بھی نوٹ کرتی ہیں، باڑ کے ساتھ ساتھ واچ ٹاور ہیں جن پر مشین گنوں کے ٹریگر پر بھارتی فوج کی انگلیاں ہیں ، ایسی سخت سیکورٹی میں پاکستان کے مجاہدین کیسے پار جا سکتے ہیں مگر بھارت کہتا ہے تو ہم آنکھیں بند کرکے ا س پریقین کر لیتے ہیں، کیا ستم ہے یہ، ستم نہیں، قیامت کا عالم ہے ۔
پچھلی چھوٹی عید کے بعد بھارتی فوج نے سوشل میڈیا پر آزادی کا مطالبہ کرنے والے برہان وانی کو بے رحمی سے شہید کیا، اس شہادت پر کشمیریوں کا خون کھول اٹھا، اب نوے دن سے اوپر ہو چلے ہیں، کشمیری احتجاج کر رہے ہیں ، وہ بالکل نہتے ہیں اور بھارتی فوج کے مقابل سینہ تان کر کھڑے ہیں، ہمیں یہ توفیق نہیں کہ ہم ان کے مطالبہ آزادی کی حمائت کر سکیں، ہم وہ ہیں جنہوں نے مشرقی پاکستان کے لوگوں کے مطالبہ آزادی کی حمائت کے عوض تمغے لئے، ہم نے وہاں فوجی آ پریشن پر دہائی دی مگرکشمیر میں انہتر برس سے فوجی آپریشن پھنکار رہا ہے مگر ہمیں توفیق نہیں کہ بھارتی فوج کے آپریشن کے خلاف زبان کھولیں ، الٹا اگر کوئی کشمیریوں کے لئے ہمدردی کااظہار کرتا ہے تو ہم اسے بھی مطعون کرتے ہیں کہ وہ پاکستان کی عالمی سطح پر تنہائی کا باعث بن رہا ہے، سو اے کشمیری شہیدو! تمہار اللہ ہی حافظ و ناصر ہو،ہم تو تمہارے معصوموں کی شہادت پر آنسوبہانے کی جسارت بھی نہیں کر سکتے مباداکوئی ہمیں دہشت گردی کی لسٹ میں نہ ڈال دے ۔