خبرنامہ

کشمیر ، اب نہیں توکبھی نہیں۔۔اسداللہ غالب

دیوار برلن ٹوٹی تو کشمیریوں کے حوصلے بھی جوان ہوئے، وہ سڑکوں پہ نکلے، بھارتی فوج ہر روز گولیاں چلاتی، کشمیری ہر روز شہادتیں دیتے، یہ سلسلہ کئی برس تک جاری رہا، ایک لاکھ کشمیری نوجوان قبروں میں سو گئے، ان کے کتبوں پر ان کے نام پتے درج ہیں۔نوے میں بھارتی فوج کی تعداد ستر ہزار تھی جو آج بڑھتے بڑھتے آٹھ لاکھ تک جا پہنچی ہے، پاکستان کی کل افواج سے بھی دو لاکھ زیادہ اور وہ بھی ایک مختصر سی وادی میں۔ہر کشمیری کے سر پہ بھارتی سنگین تنی ہوئی ہے مگر کشمیری ہار ماننے والے نہیں، وہ قربانیاں دے رہے ہیں اور احتجاج جاری رکھے ہوئے ہیں، وانی کی شہادت سے قربانیوں کاایک نیا سلسلہ شروع ہوا، وادی کشمیر لہو لہان ہے۔ہرسو پاکستان زندہ باد کے نعرے گونج رہے ہیں ، پاکستان کے سبز ہلالی پرچم لہرا رہے ہیں اور بھارتی فوج کے جبر کا سلسلہ بھی بڑھتا جا رہا ہے،کشمیریوں کو سوائے پاکستان کے کہیں سے اخلاقی اور سفارتی مدد اور حمائت کی کوئی امید نہیں مگر وہ مایوس ہو سکتے ہیں، پاکستان میں تین پارٹیاں حکمران ہیں۔ مسلم لیگ ن، تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی، تینوں کی طرف سے کشمیریوں کے حق میں توانا آواز بلند نہیں کی گئی۔مسلم لیگ کے سربراہ، وزیر اعظم بھی ہیں، انہوں نے ٹھوس بیان دیا مگر پنجاب جہاں کشمیری مہاجرین کی سب سے بڑی تعداد ہے، ا سکے وزیر اعلی کو فکر ہے تو اورنج لائن کی، اس کا مقدمہ وہ سپریم کورٹ میں لے جا رہے ہیں مگر کشمیریوں کا مقدمہ کون اقوام متحدہ میں اٹھائے گا، وزیر اعلی کشمیری النسل ہیں، ان کے وزرا کی بڑی تعداد کشمیری ہے مگر یہ سب کے سب مظلوم کشمیریوں کے لئے کیوں خاموش ہیں، سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت ہے، اس پارٹی کے سربراہ آصف علی زرداری خود ساختہ جلا وطنی اختیار کر کے دبئی کے قیام کے مزے لوٹ رہے ہیں، ان کا بیٹا بلاول کم سن ہے،اسے کیا سمجھ کہ ا سکی والدہ اورنانا نے کشمیریوں کے لئے کیا بیانات دیئے تھے، بھٹو نے کہا تھا کہ کشمیر کے لئے ایک ہزار سال تک لڑیں گے، اور جب نوے کے عشرے میں کشمیریوں نے قربانیاں دینا شروع کیں تو بے نظیر نے کنٹرول لائن پر جا کر دوپٹہ لہراتے ہوئے نعرہ لگایا تھا، آزادی، آزادی!خیبر پی کے میں تحریک انصاف کی حکومت ہے جس کی باگ ڈور عمران خان کے ہاتھ میں ہے،ا س شخص کو نت نئی شادی رچانے کی فکر ضرور ہے مگرا س کے منہ سے کشمیریوں کے لئے ہمدردی کا ایک لفظ تک سننے کو کان ترس گئے ہیں۔اور اپوزیشن میں ایک امپوٹڈمال ہے، طاہرالقادری جو سال بہ سال دھرنوں کے لئے آتے ہیں، انہیں سانحہ ماڈل ٹاؤن کا قصاص یاد ہے مگر سری نگر، پلوامہ، شوپیاں، بڈ گام کے شہیدوں کے قصاص کا مطالبہ ان کی زبان پر کبھی نہیں آیا۔
تو کیا کشمیری شہیدوں کو رونے دھونے کے لئے جماعت الدعوہ، دٖفاع پاکستان کونسل اور جماعت اسلامی ہی رہ گئی ہے۔
میں تو حافظ سعید کو مشورہ دوں گا کہ وہ کشمیریوں کے حق میں بول کر برا کیوں بنتے ہیں، دہشت گرد کیوں کہلاتے ہیں ، جو جماعتیں پاکستان پر حکومت کر رہی ہیں ، انہیں موقع دیں کہ وہ قائد اعظم کے اس قول کو نبھائیں کہ کشمیر پاکستان کی شہہ رگ ہے، وہ ا س شہہ رگ کی حفاظت کریں، کیا احسن اقبال کا فرض صرف یہ کمنٹری کرنا ہے کہ فلاں سن تک پاکستان بنجر ہو جائے گا، پانی کی ایک ایک بوند کو ترسے گا،ا سلئے کہ سارے دریا بھارت کے قبضے میں چلے گئے ہیں۔سندھ طاس کے معاہدے نے چند دریا پاکستان کو دیئے تھے مگر اس کمیشن میں شامل پاکستانی نمائندوں نے بھارت سے مال کھایا اور پاکستان کے حصے کے دریاؤں پر بھارت کی طرف سے ڈیم اور بجلی گھر تعمیر کرنے پر مجرمانہ خاموشی اختیار کئے رکھی۔
بھارت نے پاکستان کے خلاف جارحیت کاہر حربہ آزمایا، اب وہ آبی دہشت گردی کا ارتکاب کر رہا ہے، پاکستان کے حصے کا پانی اپنے ڈیموں میں ذخیرہ کر کے ہمیں ریگستان میں تبدیل کر رہا ہے اور جب برسات کا موسم آتا ہے تو پاکستان کی طرف سیلاب چھوڑ دیتا ہے۔اس طرح یا تو ہمارے لہلہاتے کھیتوں میں خاک اڑنے لگتی ہے یا پھر یہ دلدل میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔
آگے بڑھنے سے پہلے مجھے پاکستان کے ان نام نہاد سیاستدانوں کی پر زور الفاظ میں مذمت کرنی ہے جو چیئر مین واپڈا ظفر محمود کے تحقیقی مضامین پر بر افروختہ ہو گئے ا ور انہیں کالا باغ ڈیم کا حامی ہونے کی سزا دینے پر تل گئے۔چیئر مین واپڈا کے مضامین کا مطالعہ کئے بغیر انہیں چارج شیٹ کر دیا گیا، رضا ربانی نے انہیں برا بھلاکہا، اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ ان پر برس پڑے، سندھ کے دوسرے لیڈر بھی ان سے پیچھے رہنے والے کہاں تھے ، انہوں نے کہا کہ ایک سرکاری ملازم ہے مگر کالا باغ ڈیم کے حق میں لابی کر رہا ہے۔ اگر یہ لابی ہی تھی تو کالا باغ ڈیم نے پاکستان میں بننا ہے، بھارت یا افغانستان میں تو نہیں، آخر غصہ کیوں۔ کشمیر میں بھارت نے پاکستان کے دریاؤں کو ہتھیا لیا اور اگر کشمیر سے باہر کے دریائے سندھ کا پانی ابھی ہمیں میسر ہے اور ہم اس سے کوئی فائدہ حاصل کر سکتے ہیں تو تین صوبوں کی لیڈر شپ پاکستان سے وہی سلوک کر رہی ہے جو بھارت ہمارے ساتھ کشمیر میں روا رکھے ہوئے ہے، وہ کشمیر کے دریاؤں کی بوند بوند پر قبضہ جما چکا اور ادھر ہمارے تین صوبے پاکستان کو سندھ کے دریائی پانی سے محروم رکھنے کی قسم کھا چکے ہیں۔چلئے میں مان لیتا ہوں کہ دریائے سندھ کے پانی پر پاکستان کا نہیں، ان تین صوبوں کا حق ہے تو ان تین صوبوں کی قیادت پاکستان کے ہتھیائے ہوئے کشمیری دریاؤں کا قبضہ تو بھارت سے واپس دلادے۔
چیئر مین واپڈا ظفر محمود نے بھارتی آبی دہشت گردی کے ازالے کی کوشش میں اپنا قلم استعمال کیا، انہیں نوکری سے مستعفی وہنے پر مجبور کردیا گیا، سری نگر کے شہیدوں کے ساتھ ساتھ واپڈا کے چیئر مین بھی اپنے منصب سے شہید کر دیئے گئے۔ وہ شہید کالا باغ ڈیم کہلانے کے حقدار ٹھہرے۔یرے مرشد محترم مجید نظامی آخری سانس تک کالا باغ ڈیم کے حق میں تھے، ان کی روح بھی تڑپ اٹھی ہو گی۔مجھے ظفر محمود پرا سلئے بھی فخرہے کہ وہ میرا راوین دوست تھا۔اور وہ کالا باغ ڈیم کے حق میں تھا۔
کیا میں توقع کروں کہ کشمیریوں کی آزادی کے لئے ایک جلوس ایسا بھی نکلے گا جس میں رضا ربانی ، خورشید شاہ، نفیسہ شاہ، اسفند یا ر اورمیر زہری پیش پیش ہوں۔ کیا وہ بھارت کے مظالم کے خلاف �آواز اٹھائیں گے، کیا وہ مظلوم کشمیریوں سے ہمدردی کے دو بول بولنا پسند فرمائیں گے، اگر ایسانہیں ہوتا تو کشمیر میں بھارتی فوج کے مظالم اور پاکستان میں ان تین صوبوں کے تعصبات میں کیا فرق رہ جاتا ہے۔عمران خان ا ور قادری دھرنے کے بڑے شوقین ہیں، ایک دھرنا تین ماہ کے لئے چکوٹھی جا کر دیں، وادی نیلم میں دھرنادیں تاکہ بھارت کو احساس ہو کہ پاکستان کا اکیلا وزیر اعظم ہی کشمیر بنے گا پاکستان کا نعرہ نہیں لگاتا، بلکہ پوری پاکستانی قیادت بھارت کو کشمیر بد ر کرنے کے حق میں ہے۔
مودی کے وزیر اعظم بننے کے بعد سے بھارت نے پاکستان کے خلاف ہر طرح کی جارحیت میں اضافہ کر دیا ہے، بلوچستان ہو، فاٹا ہو، کراچی ہو، ہر جگہ ا س کے دہشت گرد، بے گناہ انسانی خون بہا رہے ہیں۔مودی کے تازہ بیانات اس امر کی چغلی کھا رہے ہیں کہ وہ آئندہ آزاد کشمیر اور گلگت کو بھی دہشت گردی کانشانہ بنانے پر تلا ہوا ہے۔
مودی کو اصل پریشانی کشمیر سے ہے جہاں دو ماہ سے کرفیو نافذ ہے ا ور کشمیریوں کے حوصلے نہیں ٹوٹ سکے۔ مگر مودی کے اعصاب جواب دے گئے ا ور وہ بھنا کر بلوچستان اور گلگت کے نئے محاذ کھولنے کی تیاری میں ہے۔ رن آف کچھ کے بعد شاستری نے بھی کہا تھا کہ اب وہ مرضی کا محاذ چنے گا، شاستری نے تو نئے محاذ کی نشاندہی نہیں کی تھی مگر مودی نے کر دی ہے، کیا ہم پینسٹھ کی طرح بھارت کے سامنے ڈٹ جانے کے لئے تیار ہیں۔اگر جواب نہ میں ہے تو پھر سمجھ لیجئے کہ کشمیر ہمارے ہاتھ سے گیا، یہ اب نہیں تو کبھی نہیں والا معاملہ ہے۔