خبرنامہ

کشمیر کا یوم سیاہ اور پاکستان کا یوم سیاہ۔۔اسداللہ غالب۔۔انداز جہاں

کشمیریوں کے لئے ستائیس اکتوبر کا دن یوم سیاہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ ایک رسم بن گئی ہے جبکہ کشمیریوں کی زندگی کا تو ہر دن یوم سیاہ ہے۔
ادھر پاکستان بھی کئی بار یوم سیاہ سے دو چار ہو چکا ہے، سولہ دسمبر کے یوم سیاہ کا ہم ماتم کرنا ہی بھول گئے، ایک یوم سیاہ وہ تھا جب ایبٹ آباد میں امریکی فورسز نے ہمارے اقتدار اعلی کی دھجیاں بکھیر کر رکھ دیں۔ایک یوم سیاہ وہ تھا جب ریمنڈ ڈیوس اڑنچھو ہو گیا، ا س سے پہلے ایک یوم سیاہ اورآیا جب ایمل کانسی کو فروخت کیا گیا، ایک یوم سیاہ بھٹو کی پھانسی کا دن ہے ا ور ایک یوم سیاہ ضیاالحق کے طیارے کے حادثے کا بھی ہے، محترمہ بے نظیر کی شہادت بھی ہمارے لئے یوم سیاہ ہی تھا ۔ایوب خان، یحی خان ، ضیا الحق اور مشرف نے مارشل لا نافذ کیا تو یہ ہمارے مقدر کی سیاہیوں کو اور گہرا کر گیا۔لیاقت علی کی شہادت کے یوم سیاہ کو ہم کیسے بھول سکتے ہیں ، اس دبنگ شخص نے بھارت کو مکہ دکھایا تھا ، پھر کسی حکمران کو یہ حوصلہ نہیں ہوسکا۔جونیجو، نواز شریف اور بے نظیر کی منتخب حکومتوں کو توڑا گیا تو ہماری تاریخ کے سیاہ اوراق میں اضافہ ہو تا چلا گیا۔
اب کشمیریوں کی طرح ہمارا ہر روز ، روز سیاہ بن چکا ہے ، کبھی لاشیں گرتی ہیں،معصوموں کا خون ہوتا ہے، ننھے پھول جیسے بچوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے کامرہ پر د ومرتبہ حملہ ہوا، جی ایچ کیو پر حملہ ہوا، نیول بیس پر حملہ ہوا، کراچی ایئر پورٹ پر حملہ ہوا۔اور کہاں حملہ نہیں ہوا، ہم ہر سیاہ لمحے کی تاریکی میں ڈوبتے چلے گئے۔
کوئی کسر باقی تھی تو کرپشن الزامات اور جوابی الزامات نے پوری کر دی، ابھی پانامہ کا قصہ تمام نہیں ہو پایاتھا کہ میاں شہباز شریف کے خلاف سنگین الزاما ت سامنے آ گئے۔ اب تک وہی حکمران خاندان میں پاک صاف خیال کئے جاتے تھے مگر ان کے دامن پر چھینٹے اڑائے گئے ہیں، میاں صاحب نے پر زور الفاظ میں تردید کر دی ہے اور عدالت میں ہرجانے کے لئے جانے کا عندیہ بھی دے دیا ہے مگر چھوڑیں کرپشن کی ان کہانیوں کو، اس پاکستان میں الا ماشاللہ کوئی ہو گا جو کرپشن سے لتھڑا نہیں ہے۔ کلرک، پٹواری، تھانہ منشی، سیکشن افسر، پنشن کا چیک بنانے والا ہر کوئی مخلوق خدا کی بے بسی کا فائدہ اٹھا رہا ہے اور آج سے نہیں ، قیام پاکستان کی پہلی اینٹ رکھی گئی تو اسی روز سے الاٹ منٹوں کی لو ٹ مار عام ہو گئی ، جو مہاجر جاگیریں اور حویلیاں چھوڑ کر آئے تھے، وہ کنگال ہو گئے ارو جو کنگال تھے انہوں نے متروکہ املاک پر ہاتھ صاف کرنے کا فرض عین سمجھ لیا۔
ہم کشمیریوں کے یوم سیاہ کا ماتم کریں یا اپنے ہر لمحے اور ہر قدم پر کرپشن اور لوٹ مارکے مقدر کو روئیں۔
خلیفہ اول سے کہا گیا کہ ا پنی کپڑے کی دکان بند کر دیں،ا س دکان کے ہوتے ہوئے کس کی مجال ہے کہ اپنی دکان چلا سکے، خلیفہ نے بلا چون و چرا حکم مان لیا۔ ایک خلیفہ وہ تھا جو ذاتی کام کرتا تھ اتو اپنا دیا جلاتا تھا اور سرکاری کام کرتا تھ اتو حکومتی خزانے سے خریدا گیا دیا جلاتا تھا۔ مثالیں تاریخ میں بھری ہوئی ہیں،مگر ان پر عمل نہ کرنا ہم نے شیوہ بنا لیاا ور یہ دن آن پہنچا کہ ہر کوئی دسرے کو کرپٹ کہتا ہے، پہلے شور مچا تھا کہ الیکشن میں دھاندلی ہوئی ہے ،یہ بھی کرپشن ہی کی ایک قسم ہے ، اور ہر جیتنے اور ہارنے والی پارٹی نے شور مچایا کہ ہاں ! دھاندلی ہوئی ہے، اب ہانامہ کا قصہ کھلا تو ایک دوسرے کو مطعون کر کے پورا سال گزار لیا گیا ہے، اور الزامات اور دھرنوں کا سلسلہ ہے کہ رکتا ہی نہیں ، ایک زمانے میں من ترا حاجی بگوئیم ، تو مرا حاجی بگو سے کام چلایا جاتا تھا، اب ایک دوسرے کو گناہ گار ہونے کا الزام دیا جا رہا ہے، ایک فریق اگر کرپٹ ہے تو دوسرے کوکیسے جواز مل گیا کہ وہ بھی کرپشن کی راہ پر چل پڑے اور یہ دلیل دے کہ اس حمام میں سب ننگے ہیں۔
مجھے معلوم ہے کہ میں ایک آزاد ملک کا شہری نہیں ، یہ ملک ہم سب کے لئے آزار بنا دیا گیا ہے،کسی بھی بہانے میرے قلم کو بیڑیاں پہنائی جا سکتی ہیں، میں ان بیڑیوں سے نہیں ڈرتا، ڈرتا اس وجہ سے ہوں کی میری آوازخاموش کرائی جا سکتی ہے۔ جس اخباری سورس نے شہباز شریف پر الزامات لگائے ، اور ان کو عمران خاں نے تو صرف دہرا دیا،اس سورس تک پاکستان میں رسائی بند کر دی گئی ہے مگر باقی دنیا کو یہ سورس بدستور میسر ہے ۔تو پاکستان میں بند کرنے کا کیا فائدہ، سب کچھ تو ہر اخبارا ور ہر ٹی وی چینل نے نشر کر دیا، خواہ یہ سب کچھ غلط ہے تو پھر بھی آزادی صحافت پر تو وار نہیں ہونا چاہئے تھا، قومی سلامتی کونسل کے اجلاس کی خبر پر تو آزادی صحافت کا علم بلند کیا گیا مگر ایک غیر معروف اخباری سورس کے حق میں کون بولے گا،ا س نے غلط الزامات لگائے تھے تو اسے بھی چھبیس ارب ہرجانے کا نوٹس چلا جانا چاہئے تھا،ا س کے ہوش ٹھکانے آ جاتے۔یا پھر وہ بھی اپنے الزامات کے ثبوت کسی عدالت میں پیش کرنے پر مجبور ہوتا۔
چلیئے چھوڑیں ا س کتھا کو ، اس کے پرت آنے والے دنوںؓمیں کھلتے چلے جائیں گے ، آیئے، آج کشمیریوں کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہو کر بھارتی جبر ، تسلط اور استحصال کے خلاف احتجاج کریں۔ اس قدر بلند آواز سے کریں کہ دنیا کو پتہ چل جائے کہ پاکستانی قوم اپنے مجبور و مقہور کشمیری بھائیوں کے ساتھ کھڑی ہے۔ اللہ کرے ہمیں یہ توفیق نصیب ہیو اور ہم باہمی مناقشوں کو ایک طرف رکھتے ہوئے کوئی ایک ایسااحتجاجی جلسہ کریں جس سے نواز شریف، عمران خان، سراج الحق، خورشید شاہ، اچکزئی سبھی راہنما شامل ہو کر بیک آواز کشمیریوں پر بھارتی تسلط کی مذمت کریں اور کشمیر کی آزادی کا مطالبہ کریں ، ا سکے لئے اقوام متحدہ کی قراردادیں موجود ہیں جن کے تحت کشمیری اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کر سکتے ہیں۔یہ ہو جائے توکشمیر کی سیاہ رات کا خاتمہ ہو جائے ، ڈل جھیل پر وہ سورج چمکے جس کی شعائیں بھارتی فوج کی سنگینوں سے زخمی نہ ہوں۔
اور آیئے دعا کریں کہ کشمیر کو روتے روتے ہم اپنا حشر بھی کشمیر جیسا نہ کر بیٹھیں، بھارت بڑی تیزی سے جارحانہ کھیل آگے بڑھا رہا ہے اور ہم آپس میں ایک دوسرے کا گریبان تار تار کر ر ہے ہیں، اس کا نتیجہ آپ جانتے ہیں، کیا نکلے گا، وہی جو خدا نے ایسی قوموں کے مقدر میں لکھ لکھ رکھا ہے، فاعتبرو یاا ولی الابصار !