خبرنامہ

کشمیر کے بغیر آزادی ادھوری ہے … اسد اللہ غالب

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

کشمیر کے بغیر آزادی ادھوری ہے … اسد اللہ غالب

14 اگست کو ہم نے آزادی کی خوشیاں منائیں، قومی پرچم چھتوں پر لہرائے ، یہ کام ہم چھہتر برس سے کرتے چلے آ رہے ہیں ۔یہ درست ہے کہ ایک آزادقوم کو اپنی امنگوںکے اظہار کا حق حاصل ہے لیکن ہمیں یہ بھی سوچنا ہے ،کیا ہم مکمل طور پر آزاد ہو چکے ہیں ۔ابھی تو ایک سیاسی لیڈر حقیقی آزادی کا نعرہ لگاتے لگاتے اقتدار سے رخصت ہو گئے ۔انھوں نے حقیقی آزادی کا مطلب واضح نہیں کیا ۔ ایک بے معنی اور مبہم نعرے کو رواج دیا اور نئی نسل کے نا پختہ ذہنوں کو بگاڑ کر رکھ دیا۔دوسری طرف ہمیں نہیں بھولنا چاہیے کہ 71ء میں پاکستان دولخت ہو گیا تھا، اور اب ہم 1947ء کو آزاد ہونے والے پاکستان کے ایک حصہ پر گزارا کر رہے ہیں ۔
تقسیم ہند کے طے شدہ فارمولے کے مطابق پاکستان سے ملحقہ مسلمان اکثریتی ریاست کشمیر کو ہمارے ساتھ شامل ہونے کا حق حاصل تھا لیکن ریڈ کلف ایوارڈ کے متنازعہ فیصلے کے تحت گورداسپور کا علاقہ بھارت کو دان کر دیا گیا جس کی وجہ سے بھارت کا کشمیر سے زمینی راستہ بحال ہو گیا اور بھارت نے اس راستے سے کشمیر میں فوجیں داخل کرکے اس کے بڑے حصے پر جارحانہ قبضہ جما لیا۔ ریڈ کلف ایوارڈ در اصل ہماری آزادی کے سینے میں چھڑا گھونپنے کے مترادف تھا۔ اس ایوارڈ نے دنیا کی نظروں میں کس طرح دھول جھونکی اس کی تمام تر تفصیلات سید افضل حیدر نے اپنی کتاب ’آخری گواہی‘ میں قلم بند کیں۔ میں نے اس کتاب کا مسودہ دیکھا ہے اور اس کے متن کی بنیاد پر میں کئی کالم تحریر کر چکا ہوں ۔
ریڈ کلف ایوارڈ میں دو بنیادی نقائص ہیں، ایک تو یہ اس کا اعلان 14 اگست سے پہلے تمام فریقوں کے وکلاء کے سامنے کمرہ عدالت میں نہیں کیا گیا جو کہ انصاف کا ایک بنیادی تقاضا ہے ۔دوسرے، اس کا اعلان بھارت کے گورنر جنرل نے 17 اگست کو کیا ۔عالمی قوانین کے مطابق، بھارت کاکوئی گورنر جنرل پاکستان کی سرحدیں طے کرنے کا مجاز نہیں تھا ۔انھی دو نقائص کے پیش نظر سید افضل حیدر نے یہ رائے قائم کی کہ ریڈ کلف ایوارڈ کے اعلان کو عالمی عدالت انصاف کے سامنے چیلنج کیا جائے ۔افسوس کہ افضل حیدر کی ناگہانی وفات کی وجہ سے یہ کتاب منظر عام پر نہ آسکی ۔میری تجویز ہے کہ حکومت پاکستان سکالرز کا ایک بورڈ تجویز دے جو سید افضل حیدر کی زیر ترتیب کتاب کو مکمل جانچ پڑتال کے بعد شائع کرے ۔حکومت اس تجویز کا بھی جائزہ لے کہ ریڈ کلف ایوارڈ کو عالمی عدالت انصاف کے سامنے رکھا جا سکے ۔سید افضل حیدر کی کتاب ٹھوس دستاویزات پر مبنی ہے ۔ انھوں نے بڑی عرق ریزی سے کام لیا ہے اور تحقیق کا حق ادا کر دکھایا ۔وہ ایک فاضل قانون دار اور باوقار جج تھے ،ان کی تحقیق کو ضائع نہیں جانے دینا چاہیے۔
کشمیر پر بھارت کا جارحانہ قبضہ تقسیم ہند کے فارمولے کے منہ پر تھپڑ کے مترادف ہے۔کشمیر زمینی طور پر پاکستان سے جڑا ہوا ہے اور اکثریتی مسلمان ریاست کے طور پر اسے پاکستان میں شامل ہونا چاہیے تھا ۔کشمیر کے بغیر پاکستان کی آزادی ادھوری ہے ۔نہ صرف کشمیر کے نوے لاکھ مسلمان بھارتی غلامی میں جکڑے ہوئے ہیں بلکہ پاکستان کے پچیس کروڑ عوام بھارت کی آبی جارحیت کی وجہ سے آزادی کے حقیقی فائدے سے محروم ہیں ۔کشمیر کے مسئلے کی وجہ سے بھارت اور پاکستان بار بار روایتی جنگ میں الجھتے چلے آئے ہیں ۔کنٹرول لائن پر جنگ کا ماحول طاری ہے اور آئے روز ورکنگ بائونڈری اور کنٹرول لائن پر پاکستان اور آزاد کشمیر کے دیہات بھارتی توپوں کا نشانہ بنتے ہیں جن کی وجہ سے نہتے اور معصوم مسلمان شہادت سے ہمکنار ہوتے ہیں ۔کشمیر کے سیاچین محاذ پر بھارت اور پاکستان کی فوجیں آمنے سامنے مورچہ زن ہیں ۔یہ دنیا کا بلند ترین محاذ جنگ ہے یہاں بھی بھارت نے 1984ء چوروں کی طرح پاکستانی علاقے پر قبضہ کیا ۔
مسئلہ کشمیر کو طے کرنے کے لیے بھارتی وزیر اعظم پنڈت نہرو نے خود سلامتی کونسل سے رجوع کیا جہاں سے بار بار ایک ہی قرار داد منظور ہوتی رہی ہے کہ اس مسئلے کو اقوام متحدہ کی زیر نگرانی ایک آزادانہ اور غیر جانبدارانہ استصواب کے ذریعے طے کیا جائے۔ بھارت نے ان قرار دادوں کو پس پشت ڈال رکھا ہے اور 5 اگست 2019کو آج سے ٹھیک چار سال قبل اپنے ہی آئین کو بلڈوز کرتے ہوئے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کردی ،اسے تین حصو ں میں تقسیم کر دیا اور غیر کشمیریوں کو ریاست میں کاروبار اور ملازمت کا حق دیدیا گیا ۔اس فیصلے کو جبری طور پر نافذ کرنے کے لیے بھارت جبر کے تمام ہتھکنڈے آزما چکا ہے ،اس نے کشمیر میں کرفیو نافذ کرکے اسے دنیا کی ایک بہت بڑی جیل بنا دیا ہے ۔گلی گلی خاردار تاریں نصب ہیں اور گھر سے باہر قدم رکھنے والے معصوم بچوں اور ضعیف افراد کو گولیوں سے چھلنی کر دیا جاتا ہے ۔ہزاروں نو جوانوں کو گھروں سے غائب کر دیا گیا ہے ۔سرچ آپریشن کی عار میں کشمیری خواتین کی اجتماعی آبرو ریزی کی جاتی ہے ۔کشمیر کو دنیا سے کاٹنے کے لیے وائی فائی ، انٹرنیٹ اور ٹیلی فون کے راستے بند کیے جا چکے ہیں ۔انسانی حقوق کی تنظیموں کا کشمیر میں داخلہ بند ہے ۔بھارت کی اپوزیشن قیاد ت کو بھی کشمیر میں داخلے کا حق نہیں ملتا ۔پوری کشمیری قیادت جیلوں میں یا گھروں میں نظر بند ہے ۔کشمیریوں کی اس غلامی کے پیش نظر ہمیں اپنی آزادی کا جشن منانے کا حق ہمیں سیاسی ،سفارتی ،اخلاقی اور قانونی طور پر حاصل نہیں ہے۔ جسد کشمیر سے لہو رس رہا ہے ۔ اس پس منظر میں ہم آزادی کا جشن منائیں بھی تو کیسے؟ ہمارے جشن کا دن وہ ہوگا جب کشمیر بنے گا پاکستان کے خواب کی عملی تعبیر مل جائے اور تقسیم ہند کے ادھورے ایجنڈے کی تکمیل ہو جائے