خبرنامہ

کیا لیکشن کو سیلاب بہا کر لے جائے گا…اسداللہ غاب

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

کیا لیکشن کو سیلاب بہا کر لے جائے گا…اسداللہ غاب

نرل درانی کی کتاب کی طرف میری توجہ اسلم خاں نے یہ کہہ کر مبذول کروائی کہ اس پر ان کا ایک کالم چھپا ہے جس میںمیرا بھی ذکر ہے۔ میں چونکا کہ میرا جنرل درانی سے کیا واسطہ۔ان کے کالم پر ایک نظر ڈالی۔ پتہ چلا کہ انہوںنے یہ کالم میر اتمسخر اڑانے کے لئے لکھا ہے۔مجھے ان کے رویئے پر چنداں حیرت نہ ہوئی کہ ان کے ہاتھ تو ایک عرصہ پہلے ہی کھل گئے تھے جب انہوںنے ڈیلی پاکستان کے ایڈیٹر اظہر سہیل کی دفتر کے اندر پٹائی کی تھی۔ ایسے ہتھ چھٹ نوجوان سے کسی طرز عمل کی بھی توقع کی جا سکتی ہے، مجھے انہوںنے جگت چچا کہہ دیا تو کونسی نرالی بات ہوئی، مگر میں ان پر واضح کرنا چاہتا ہوں کہ میرا نام اظہر سہیل نہیں اور میں بھی وہی لغت اٹھا کر اسلم خان کے لئے نئے نئے القابات استعمال شروع کر دوں گا جہاں سے انہوںنے میرے لئے ایک لقب تلاش کیا ہے، شیسے کے گھر میں بیٹھ کر دوسروں پر پتھر پھینکنے والا خود بھی پتھر کھانے کے لئے تیار رہے۔ جہاں تک انہوںنے مجھ سے یہ بات منسوب کی ہے کہ انہوںنے کوئی تصویر مجھے بھیجی اور میںنے اسے ملت آن لائن پر اپ لوڈ کیا ،پھر کسی پرائیویٹ نمبر والے فون کی دھمکی پر یہ تصویر اتار دی تو میںواضح کرنا چاہتا ہوں کہ میں مرشد مجید نظامی کا شاگرد ہوں ، میرے سامنے کوئی جابر سلطان بھی کھڑا ہو تو میں کلمہ حق کہنے سے گریز نہیں کروں گا۔ میں نے آج تک کوئی تحریر لکھ کر واپس نہیں لی اور ملت آن لائن پر اگر کوئی معلومات اپ لوڈ کی ہوں تو انہیں ڈیلیٹ نہیں کیا۔ مجھ سے ایسا کرانے کا کوئی سوچ بھی نہیں سکتا ، باقی ا سلم خان جو کہانیاں تراشنا چاہیں تو انہیں اس کی مکمل آ زادی ہے مگر وہ کوئی غلط بات مجھ سے منسوب کریں گے تو میں یہی کہوں گا کہ یہ سب جھوٹ ہے۔
جنرل درانی کی کتاب پر میرا بنیادی اعتراض یہ ہے کہ انہوںنے اسے ایک بھارتی جنرل کے ساتھ مل کر لکھی یہ نکتہ میری سمجھ سے بالا تر ہے کہ واہگہ کے محاذ پر میجر جنرل سرفراز خان ا ور میجر جنرل نرنجن پرشاد مل کر جنگ کیسے لڑ سکتے تھے۔ اور لڑتے بھی تو کس کے خلاف۔ اور شکست کس کے حصے میں آتی۔ اسی طرح جنرل رومیل اور جنرل منٹگمری ایک ساتھ ٹینکوں کی عظیم ترین صحرائی جنگ کیسے لڑ سکتے تھے۔ اور لڑتے بھی تو کس کے خلاف۔فتح کس کو ہوتی اور شکست کس کے حصے میں آتی۔جنرل نصیر اختر کراچی میں ایک کامیاب فو جی ا ٓپریشن کے ہیرو ہیں، ریٹائر ہوئے تو پاک بھارت فوجیوں کی ایک تنظیم میں شامل ہو گئے ا ور ا سکے سب سے بڑے عہدیدار۔ میںنے ان سے پوچھا کہ جب تک آپ وردی میں تھے تو آپ ہمیں یہ درس دیتے تھے کہ بھارت ہمارا سب سے بڑا دشمن ہے اور ادھر وردی اتری تو آپ کانظریہ بدل گیا۔ آپ نے پاک بھارت دوستی کے لئے کام شروع کر دیا۔
جنرل درانی نے کتاب میں لکھا کیا ہے، اس کا جائزہ لینا جی ایچ کیو کا فریضہ ہے۔ اور وہاںکوئی کارروائی شروع تو ہوئی ہے مگر اسے پاکستان کی سول کورٹ کی طرح طول نہ دیا جائے ، فوجی عدالت لگائی جائے اور سمری ٹرائل کر کے فیصلہ کیا جائے۔ اگرا یسا نہیں ہوتا تو یہ انصاف نہیں ہو گا۔ پھر پاکستان کی سپریم کورٹ آزادہوگی کہ ا س کتاب کے مندرجات اور ا س پر ایک بھارتی جنرل کا نام شائع ہونے کی تحقیق کرے ا ور کوئی فیصلہ صادر کرے۔اگر یہاں سے بھی کوئی فیصلہ نہیں ہوتا تو تاریخ بڑی بے رحم ہے اورا س کے فیصلے بھی بڑے بے رحمانہ ہوتے ہیں۔
پاکستان میں ریٹائرڈ فوجی حضرات اور حاضر سروس افسران بھی کتابیں لکھتے رہے ہیں۔ جنرل چشتی نے بھی کتاب لکھی اورا سے پاکستان سے باہر سے چھپوایا ۔میری ان کی دوستی تھی ۔ مجھے انہوںنے کہا کہ لاہور کسٹمز سے کتاب کی تیار پلیٹیں وصول کر لوں اورا سے پاکستان میں شائع کر دوں۔ میں نے صاف انکار کر دیا کہ بیرون ملک پہلے چھپنے والی کتاب کو میں پاکستان میں شائع کرنے کے جرم کاا رتکاب نہیں کرسکتا۔
خورشید قصوری نے چند برس قبل ایک کتا ب لکھی۔ میں صرف اس بات پر بڑھک اٹھا کہ ا سکا ایک ایڈیشن بھارت میں بھی شائع ہوا ہے، میں نے خورشید قصوری سے ذاتی تعلقات کو خاطر میں لائے بغیر اس کتاب کی خوب خبر لی۔
جنرل نیازی نے ڈھاکہ میں سرنڈر کیا، اس پر بھارتی حاضر سروس جرنیلوںنے بھی کتابیں لکھیں اور پاکستان میں ہمارے دوست صدیق سالک سے بھی ایک کتاب لکھوائی گئی جسے جی ایچ کیو کی منظوری کے بعد شائع کیا گیا۔کہا جاتا ہے کہ یہ کتاب جنرل نیازی کی کردار کشی کے مقصد سے لکھی گئی۔ آج کل ریحام خان کی ایک کتاب کی دھوم مچی ہے کہ ا س میں میاں بیوی کے تعلقات کی جھلکیاں ہیں، میاں بیوی کے درمیان جو تعلقات ہوتے ہیں ، ان پر کوئی انگلی نہیں اٹھا سکتا مگر صدیق سالک نے اپنی کتاب میں لکھا کہ ایک غیر ملکی خاتون صحافی جنرل نیازی کا انٹرویو کرنے آئی، جنرل نیازی اسے ایکسکلو سو انٹریو دینے کے لئے بنکرمیں لے گئے۔ یہاں تک بھی بات قابل برداشت ہے اور امر واقعہ کہی جا سکتی ہے۔ مگر صدیق سالک نے ایکسکلو سو پر نشان لگا کر فٹ نوٹ میں لکھا کہ ایکسکلوسو ملاقات میں دو افراد تن تنہا ہوتے ہیں۔ اس فقرے سے ا ٓپ کیا مطلب نکالتے ہیں ،ذرا مجھے بھی بتا دیجئے کہ یہ فقرہ کس اخلاقیات کی ذیل میں آتا ہے اور کیا اسے جنگی وقائع نگاری کا لازمہ کہا جاسکتا ہے۔
فوجی معاملات پر اب تک کئی کتابیں لکھی جا چکی ہیں، جنرل فضل مقیم، جنرل موسی ، راﺅفرمان علی، جنرل صاحب زادہ یعقوب علی، جنرل خادم حسین راجہ، جنرل حکیم ارشد قریشی‘ جنرل کے ایم عارف، بریگیڈیئر صولت رضا، بریگیڈیئر گلزار احمد، جنرل محمدامجد، بریگیڈیئر امجد علی، جنرل ایوب خان، جنرل اکبر خان رنگروٹ، جنرل پرویز مشرف کے علاوہ بیسیوں اور فوجیوںنے کتابیں لکھیں مگر کسی پر اتنا بڑاتنازعہ کھڑا نہیں ہوا۔ڈاکٹر قدیر کا ایک انٹرویو پاک بھارت دو صحافیوںنے مل کر لیا اور یہ دونوں ملکوں کے اخبارات میں شائع ہوا۔اس انٹرویو کی وجہ سے پاکستان کو فائدہ ہواا ور بھارتی افواج پاکستانی سرحدوں سے واپس چلی گئیں مگر ا سکے باوجود مجھے ذاتی طور پر پاک بھارت صحافیوں کے مشترکہ انٹرویو کا آئیڈیا پسند نہیں آیا ۔ ایسا ہی ایک انٹریو صرف ایک پاکستانی صحافی نے ڈاکٹر قدیر کا کیا تھا اور یہ مشترکہ انٹرویو سے زیادہ مﺅثر تھا۔ دونوںانٹرویونوائے وقت میں شائع ہوئے تھے۔
میرا یہ کالم شاید ہی جنرل درانی پڑھنے کی زحمت کریں لیکن ا سے ا ٓئی ایس پی ا ٓر ضرور مانیٹر کرتا ہے ، میں توقع رکھتا ہوں کہ یہ ادارہ مجھے جنرل درانی سے ا س سوال کا جواب لے کر دے گا کہ اس نے ایک بھارتی جنرل کو کتاب لکھنے کے عمل میں کیوں شریک کیا۔ ایک پاکستانی کی حیثیت سے میرا استحقاق مجروح ہوا، خود میں پاک فوج پر تین کتب اور کوئی ایک ہزار سے زائدا ٓرٹیکل لکھ چکا ہوں۔ اس لئے میرے سوال سے اغماض نہ برتا جائے۔