خبرنامہ

کیا محاذ آرائی سے معیشت ترقی کر سکتی ہے…..اسداللہ غالب

کیا محاذ آرائی سے معیشت ترقی کر سکتی ہے…..اسداللہ غالب

اگر جواب ہاں میں ہے تو بسم اللہ یہ نیک اور پاکیزہ سلسلہ شدو مد سے جاری رہنا چاہئے مگر میرا خیال ہے کہ محاذ آرائی سے معیشت تو چھوٹی بات ہے، ملک کی سلا متی خطرے میں پڑ جائے گی ۔
وزیر داخلہ احسن اقبال نے کہا ہے کہ فوج معیشت پر تبصروں سے گریز کرے، اس سے عالمی سطح پر پاکستان کے کاز کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔میںنے بھی کل لکھا تھا کہ پاکستان کے یوم سیاہ بارہ اکتوبر کو فوج کو کراچی میں ملکی معیشت پر سیمینار کے انعقاد سے گریز کرنا چاہئے تھا۔ معیشت فوج کے دائرہ کار میں نہیں، صرف ملک کو داخلی اور بیرونی خطرات سے تحفظ فراہم کرنا اس کی اصل اور واحد ذمے داری ہے، سول پاور کی امداد کے لئے اسے بلایا جائے تو تب بھی وہ مطلوبہ ٹاسک ادا کر سکتی ہے، سیلاب، زلزلے، دیگر قدرتی آفات یا فرقہ وارانہ یا سیاسی کشیدگی کو دور کرنے کے لئے بھی اسے ڈیوٹی دی جا سکتی ہے۔دہشت گردی کے خاتمے کی ڈیوٹی بھی فوج نبھا رہی ہے۔ اس فریضے کی ادائیگی پر ہر کوئی فوج کی تحسین اور ستائش کر رہا ہے۔ سوائے معدودے چند لوگوں کے جو ٹارگٹ بنتے ہیں، ان کا شور سننے میں ضرور آتا ہے مگر من حیث القوم فوج کی کاوشوں کو بنظر تحسین ہی دیکھا جاتا ہے۔
ملک میں محاذ آرائی صرف فوج اور حکومت کے مابین ہی نہیں سرکاری ملازمین، پنشنرز، نابینا افراد، ینگ ڈاکٹرز، واپڈا لیبریونین وغیرہ بھی بسا اوقات تلواریں سونت لیتی ہیں، کلرک بادشاہ بھی اپنی طاقت دکھاتے ہیں اور سیاسی پارٹیاں بھی ایک دوسرے سے خوب الجھتی ہیں مگر ان میں سے کسی کا اثر ملک پر مثبت طور پر مرتب نہیں ہوتا۔
میں پرانی تاریخ کو نہیں کھنگالنا چاہتا، مشرف کے بعد جمہوریت بحال ہوئی تو زرداری حکومت اور فوج کا بار بار ٹکراﺅ ہوا۔ ریمنڈ ڈیوس کے مسئلے پر، کیری لوگر بل کے مسئلے پر، ایبٹ آباد میں امریکی حملے پر اور میمو گیٹ پر مگر شکر یہ ہے کہ زرداری حکومت نے پانچ سال پورے کئے۔ نواز شریف دور میں عمران خان نے شروع ہی سے ٹف ٹائم دیا اور جب آئی ایس آئی کے ایک سربراہ کی ٹرم ختم ہوئی تو صحافیوںنے وزیر داخلہ چودھری نثار سے اس پر رد عمل پوچھا، ان کا کہنا تھا کہ وہ فوجی افسرکی ریٹائر منٹ پر تو کوئی تبصرہ نہیں کرتے مگر انہیں ایک پارٹی کے ساتھ اظہار ہمدردی ضرور کرنا ہے جو فوجی اہل کار کی ریٹائر منٹ سے یتیم ہو گئی ہے۔ اس کا واضح مطلب یہ تھا کہ نواز حکومت نے عمران خان کے دھرنے کے پیچھے آئی ایس آئی کا ہاتھ دیکھا ۔دھرنے کے دوران آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے عمران خان اور طاہرالقادری سے آدھی رات کو ملاقات کے لئے وقت نکالا، فوج کا کہنا تھا کہ یہ ملاقات اس نے حکومت کے کہنے پر کی ہے۔ مگر اصولی طور پر یہ ملاقات نہیں ہونی چاہیے تھی۔ فوج کو سیاسی معاملات میں ثالث بالخیر کا کردار زیب نہیں دیتا۔ پشاور کے بچوں کے اسکول کے سانحے نے ساری قوم کو متحد کر دیا، ضرب عضب پہلے سے شروع ہو چکا تھا مگر پوری قوم اس کی پشت پناہی نہیں کر رہی تھی، پشاور میں ڈیڑھ سو بچوں کے خون ناحق نے کٹھور دلوں کو بھی موم کر دیا۔ قوم کے اس اتحاد نے فوج کو بھی نیا حوصلہ بخشا اور ضرب عضب میں ناقابل یقین کامیابیاں ملیں ۔یہاں سے فوج نے کراچی کا رخ کیا مگر اس آپریشن میں پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم دل سے فوج اور وفاقی حکومت کے ساتھ نہیں تھیں۔ ایم کیو ایم کے کئی ٹکڑے ہو گئے ، ظاہر ہے یہ ایجنسیوں کا کیا دھرا تھا۔ ایم کیو ایم کے برسوں سے چلے
آنے والے گورنر کی بھی چھٹی کر ا دی گئی۔ زرداری صاحب نے تلخ لہجے میں کہا کہ تم تین سال کے لئے آتے ہو، ہم نے مستقل سیاست کرنی ہے، وہ اس قدر دباﺅ میں آ گئے کہ انہیں جنرل راحیل کی ریٹائر منٹ تک ملک چھوڑنا پڑا، یہ ایک افسوسناک صورت حال تھی کہ کسی پاکستانی کو اس کی وطنیت ہی سے محروم ہونا پڑے، خواہ وقتی طور پر سہی، یہ کام نواز شریف کے ساتھ بھی کیا گیا تھا اور یہ لمبے عرصے کے لئے تھا،اب مکافات عمل کا دور ہے اور جنرل مشرف کو وطن چھوڑنا پڑا ہے ۔جنرل راحیل کی ٹرم کے آخری دنوں میںڈان لیکس کا شاخسانہ سامنے آیا۔وہ تو اسکی تحقیقات کے دوران ریٹائر ہو گئے مگر اگلے آرمی چیف کے دور میں اس کی تحقیقات کی جو پریس ریلیز جاری ہوئی، اسے فوج کے ترجمان نے مسترد کر دیا، یہاں سے حکومت اور فوج کے مابین تناﺅ میں مزید اضافہ ہوا، حکومت نے مطالبہ کیا کہ یہ بیان واپس لیا جائے، فوج اس پر مان گئی ۔حکومت نے اس دوران فوج کومطمئن کرنے کےلئے وزیر اطلاعات، مشیر خارجہ ا ور پی آئی او کو گھر بٹھاد یا، لگتا تھا یہ معاملہ سلجھ گیا ہے۔
اسی دور کے آس پاس میاںنوازشریف اور ان کی فیملی کے خلاف سپریم کورٹ میں مقدمے شروع ہو گئے، پھر ایک جے آئی ٹی بن گئی، آج تک جے آئی ٹی میں ایم آئی اورا ٓئی ایس آئی کے نمائندے نہیں بٹھائے گئے تھے مگر اس میں انہیں شامل کیا گیا۔ اس مقدمے میں نوازشریف کو نااہل قرار دے کر منصب سے ہٹا دیا گیا۔ پھر نواز شریف کی زبان پر ہر وہ شکوہ تھا جو انہیں ایک زمانے سے فوج سے لاحق تھا یا فوج نے سیاستدانوں سے ایسا ہی کیا تھا یا عدالتوںنے فوج کو رعائتیں دیں مگر سیاستدانوں کے لئے پھانسی کے فیصلے کئے۔ جی ٹی روڈ مارچ میں بھی انہوںنے احتجاجی سیاست کی، وہ فوج کا
نام تو نہیں لیتے تھے مگر ان کے سبھی اشارے فوج کی طرف تھے ۔
فوج اس دوران خاموش رہی۔ اس پر ایک ایڈیٹر اور تجزیہ کار ضیا شاہد نے سوال اٹھایا کہ لوگ کہہ ر ہے ہیں، نواز شریف کے خلاف سارے فیصلے فوج اور ججوں نے مل کر کئے، ضیا شاہد نے آئی ایس پی آر کے سربراہ سے وضاحت کے لئے کہا۔ یہ وضاحت تو آئی مگر ان الفاظ میں کہ خاموشی بھی ایک زبان ہوتی ہے۔ حقیقت میں فوج کبھی خاموش نہیں رہی، اس نے عدالتی فیصلے سے قبل کہا کہ وہ کسی بھی فیصلے پر آئین کے مطابق کام کرے گی۔ اسی ترجمان نے خواجہ آصف کے بیان پر خاموشی کی زبان استعمال کرنے کے بجائے کہا کہ امریکہ کے ساتھ مشترکہ آپریشن نہیںہو سکتے، حالانکہ جس روز یہ بیان چھپا، اسی روز ایک مشترکہ آپریشن میں فاٹا سے برسوں کے غیر ملکی مغوی برآمد کئے گئے تھے۔
مجھے یہاں فوج پر کوئی چارج شیٹ عائد نہیں کرنی بلکہ ایک محاذ آرائی کی طرف توجہ دلا نی ہے جو بدقسمتی سے سول اور ملٹری کے مابین عروج پر ہے۔
آئیے تصویر کا دوسرا رخ دیکھتے ہیں۔ جن دنوں سپریم کورٹ کی سماعت چل رہی تھی حکمران جماعت کے حامی قلم کار اور تجزیہ کار یہ دعوے کر رہے تھے کہ کسی غیر جمہوری تبدیلی کا مقابلہ عوام کی طاقت سے کیا جائے گا۔ اس کے لئے ترکی کی مثالیں دی گئیں جہاں عوام، باغی فوج کے ٹینکوں کے سامنے سڑکوں پر لیٹ گئے اور باغی فوجیوں کی مرمت انہی کی پیٹیاں اتار کر کی۔ میں داد دیتا ہوں نوازشریف کو انہوں نے اس پروپیگنڈے کی رو سے ردعمل کا اظہار نہیں کیا اور عدالتی فیصلے کو بلا چون و چرا قبول کر لیا، ہو سکتا ہے، اس میں شہباز شریف اور چودھری نثار کا مشورہ شامل ہو مگر سوائے جی ٹی روڈ مارچ ا ور زبانی کلامی احتجاج کے کوئی ناگوار ردعمل سامنے نہیں آیا۔ اس سے امید پیدا ہوئی کہ چلئے جو ہوا، سو ہوا اب سسٹم تو چلتا رہے گا مگر پچھلے کچھ دنوں سے یو ں لگتا ہے کہ حکومت ا ور فوج کے درمیان فاصلے بڑھ گئے ہیں، جلتی پر تیل کا کام عمران خان ا ور شیخ رشیدپہلے سے کر رہے تھے، اس کام میں زرداری صاحب بھی شامل ہو گئے۔ اب صورت یہ ہو گئی ہے کہ حکومت ایک فیصلہ کرتی ہے یا تجویز دیتی ہے تو فوج اسے مسترد کر دیتی ہے۔ میں مانتا ہوں کہ فوج اس ملک کی ایک بڑی اسٹیک ہولڈر ہے مگر مجھے یہ معلوم نہیں کہ فوج کس اصول کے تحت ویٹو استعمال کر رہی ہے۔ اسے حکومت کی رائے سننی چاہیے۔ اپنی رائے دینی چاہیے اور فیصلہ اتفاق رائے سے کرنا چاہیے۔ فوج کو ان تجزیہ کاروں کو بھی لگام ڈالنی چاہیے جو ٹی وی چینل پر بیٹھ کر علا نیہ طور پر مارشل لا لگنے کی خوش خبری سنا رہے ہیں اور کوئی ڈیڑھ ماہ کی تاریخ دے رہا ہے، کوئی تین ماہ کی۔ مارشل لا یا تو لگتا ہے یا نہیں لگتا، اس کی کوئی تاریخ تو طے نہیں کی جا سکتی اور یہ بھی سوچنا ہو گا کہ کیا موجودہ مسائل کا حل مارشل لا میں مضمر ہے اور کیا ماضی کے مارشل لاﺅں نے کوئی مثبت کردارا دا کیا۔
اس وقت ہر ایک کو نظر آ رہا ہے کہ جمہوریت لنگڑی لولی ہو چکی ہے مگر محاورے کے مطابق لنگڑی لولی جمہوریت بہترین مارشل لا سے بہتر سمجھی جاتی ہے۔
بجلی کے منصوبے تو اس حکومت نے مکمل کر دیئے، یہی ایک سرطان تھا جس نے قومی معیشت کو جکڑ رکھا تھا، اب پھل کھانے کا وقت آیا ہے تو اسی جمہوریت کا حق فائق ہے۔ مگر خلق خدا کی زبان پر ہے کہ شریف فیملی کا ایک ایک فرد جیل میں ہو گا اور جیلوں میں تو لوگ جاتے ہی رہتے ہیں، ہتھکڑیاں سیاست دانوں کا زیور ہوتی ہیں ، مگر باتیں تو یہ ہو رہی ہیں کہ چند ہزار گردنیں اڑا دی جائیں۔ اگر تقدیر میں یہی لکھا ہے تو اسے خوش آمدیدکہنا ہماری مجبوری ہے۔ مگر تدبر، فہم و فراست، حکمت عملی، دانش مندی بھی قوموں کا جوہر ہوتی ہے، ہمیں پہلے اسے آزما کر دیکھ لینا چاہیے۔ معیشت اسی سے بہتر ہو گی۔