خبرنامہ

کیا پاکستان کو نئے شیخ مجیب سے واسطہ پڑ گیا ہے

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

کیا پاکستان کو نئے شیخ مجیب سے واسطہ پڑ گیا ہے
میں کبھی بد گمانی کا شکار نہیں ہوا، نہ میں کسی کی نیت کو بھانپ سکتا ہوں مگر نواز زشریف نے خود کہا ہے کہ انہیں شیخ مجیب بنایا جا رہا ہے۔
اللہ اللہ! کیا نیک ارادے ہیں۔ میرے خون پر پاکستان کی مہر نہ لگی ہوتی تو میں نواز شریف کے ارادوں کے صدقے واری جاتا۔
سارے پاکستانی سمجھتے ہیں کہ شیخ مجیب ایک غدار تھا مگر نواز شریف نے اسے محب وطن کہا۔ شیخ مجیب کو خود اس کی قوم نے غدار سمجھاا وراسے گولیوں سے بھون ڈالا۔
شیخ مجیب کو کس نے غداری کی طرف دھکیلا۔ کیا بانی پاکستان نے ڈھاکہ میں یہ کہہ کر اسے غداری کی طرف دھکیلا کہ پاکستان کی سرکاری زبان اردو ہو گی۔
مگر بانی پاکستان نے یہ اعلان تو کابینہ اور دستور ساز اسمبلی کی منظوری سے کیا تھا جہاں مشرقی پاکستان کے نمائندے بھی موجود تھے۔
اردو کسی صوبے کی زبان نہ تھی۔ پھر بھی مشرقی صوبے کے نوجوانوں کو یہ فیصلہ پسند نہ آیا، انہوں نے بانی پاکستان کی وفات کے کئی برس بعد ایک جلوس نکالا جس پر مشرقی پاکستا ن ہی سے تعلق رکھنے والے خواجہ ناظم الدین نے گولی چلانے کا حکم دیا اور یوں ڈھاکہ میں شہید مینار بن گیا۔
بھارت نے اس لسانی جھگڑے کو خوب اچھالا۔ نواز شریف تحقیق فرما لیں کہ لسانی فساد کھڑا کرنے میں بھارت کا ہاتھ تھا اور اسی نے شیخ مجیب ہی کو نہیں، اس کے ساتھ لاکھوں بنگالیوں کو غدار بننے پر مائل کیا، مکتی باہنی کھڑی کی، اسے کلکتہ کے دہشت گرد کیمپوں میں ٹریننگ دی اور مشرقی صوبے میں آگن جالو! آگن جالو! کے جذبات بھڑ کائے۔
بہر حال وہی شیخ مجیب جو نواز شریف کے فتوے کے مطابق ایک محب وطن تھا، غدار بن گیا۔
نواز شریف کو معلوم ہونا چاہئے کہ ا س غدار وطن کو پاکستان توڑنے میں کامیابی کیسے ملی۔
بنگلہ دیش بننے کے کئی عوامل تھے۔ غداروں کو سب سے زیادہ کامیابی اس وجہ سے ملی کہ مشرقی صوبہ ایک ہزار میل کی مسافت پر تھاا ور درمیان میں دشمن بھارت۔
آج پاکستان نانگا پربت کی سفید چوٹیوں سے لے کر گوادر کے نیلے ساحلوں تک ایک جغرافیائی یونٹ ہے۔ اس کے کئی صوبے ضرور ہیں مگر کسی میں کوئی جغرافیائی بعد نہیں۔
نواز شریف آنکھوں سے دیکھ چکے کہ لال مسجد کا قضیہ ہو یا سوات کی شورش یا فاٹا میں دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہیں، انہیں پاک فوج نے روند کر رکھ دیا۔ کراچی کا برا حال تھا۔ یہاں ابھی صرف رینجرز نے ہی ایکشن کیا ہے، پاک فوج کو حرکت میں آنے کی ضرورت نہیں پڑی۔ کراچی میں راوی ہر سو چین لکھتا ہے۔
بلوچستان میں کتنے ہی کل بھوشن یادیو بھارتی دہشت گرد ادارے را کی طرف سے بر سر پیکار ہیں مگر ایک کل بھوشن گرفت میں آیا تو بلوچستان کی شاہراہوں پر دن یا رات کو کسی بھی وقت سفر کرتے کسی کو خوف لاحق نہیں۔
یہ ہے وہ منظر نامہ جس میں کسی نئے شیخ مجیب کو مکمل ناکامی کا منہ دیکھنا پڑے گا۔
پاکستان کے لئے نئے شیخ مجیب بننے کی ایک دوڑ لگی ہوئی ہے۔ کوئی کابل میں بیٹھا مناسب موقعے کے انتظار میں ہے اور کوئی نئی دہلی میں غداری کی پی ایچ ڈی کا کورس کر رہا ہے۔
نواز شریف نے اپنے آپ کو شیخ مجیب سے کیوں تشبیہ دی۔ یہ نکتہ ناقابل فہم نہیں، نواز شریف کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ فائٹر طبیعت کے مالک ہیں۔وہ ہار ماننے والے انسان نہیں۔ ان کا پہلا یدھ ہی اپنے محسن گورنر جیلانی سے پڑا جس میں انہوں نے جنرل کو چت کر دیا۔ دوسرا دنگل وزیر اعظم جونیجو سے پڑا۔ اسے بھی شکست دی۔ درمیان میں چودھری پرویز الہیٰ نے ان سے پنجے لڑانے کی کوشش کی مگر وہ بھی ہار گئے۔ ایک چیف جسٹس نے انہیں آنکھیں دکھائیں تو انہوں نے ان کی عدالت پر عوامی ہلہ بول دیا۔ ایک آ ٓرمی چیف نے اپنی مرضی سے کشمیر کے کارگل سیکٹر میں بھارت کی ٹھکائی کی تو انہوں نے اسے ہٹا کر اپنی مرضی کا چیف مقرر کر دیا، مگر یہ چال ناکام رہی اور نواز شریف نے قلعوں اور سیف ہاؤسوں کی نظر بندی دیکھی اور پھر جلا وطنی بھگتی۔ اب نواز شریف شاید فائنل کھیلنے کے موڈ میں ہیں، ایک عدالتی فیصلے پر اس قدر سیخ پا ہیں کہ آسمان سرپہ اٹھا لیا ہے اور ججوں کو للکارے چلے جا رہے ہیں۔لوگوں کا خیال ہے کہ وہ شیخ مجیب کی طرح جیل جانا چاہتے ہیں۔
نواز شریف کے ساتھ ان کی بیٹی مریم بھی عدلیہ پر بر ہم ہے۔دونوں نے ڈان لیکس میں دیکھ لیا کہ فوج نے اپنی تضحیک برداشت نہیں کی۔ اور دونوں کو خبر ہونی چاہئے کہ عدلیہ بھی اپنی تذلیل،تضحیک اور تنقیص برداشت نہیں کرے گی۔نہال ہاشمی کے قصے میں یہی ثابت ہوا، اب سب باری باری توہین عدالت کے نوٹس بھگتیں گے۔ اور میگاکرپشن کا کیس الگ چل رہا ہے۔
بڑا سوال یہ ہے کہ بنگلہ بندھو شیخ مجیب کی حمایت میں تو اندرا گاندھی میدان میں اترا ٓئی تھی، کیا نواز شریف کے لیے نریندر مودی تن کر کھڑا ہو گا۔ قرائن سے اندازہ ہوتا ہے کہ مودی تو اندرا سے دو قدم آگے جانے کو تیار ہے، اندرا نے صرف مشرقی پاکستان میں مداخلت کی مگر مودی کہتا ہے کہ وہ بلوچستان، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے عوام کو ان کے حقوق دلوا کر دم لے گا۔ مودی کے ان مذموم ارادوں کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں کون ہے جو شیخ مجیب کاکردار ادا کرے۔ نواز شریف نے خود ہی اپنے آپ کو شیخ مجیب سے تشبیہہ دے ڈالی ہے مگر وہ نہیں جانتے کہ مشرقی پاکستان اور آج کے پاکستان میں کوئی نیا شیخ مجیب بھارت کے مذموم ارادوں کی تکمیل میں کامیاب نہیں ہو سکتا۔خدا نواز شریف کو بھی ہدایت دے اور وہ شیخ مجیب بننے کا خیال دل سے نکال دیں، جو کچھ انہیں پاکستان نے دیا ہے، اس کا عشر عشیر بھی بھارت انہیں نہیں دے سکتا۔
ویسے بھی پاکستان آج ایٹمی قوت ہے۔ کروز میزائلوں سے لیس ہے۔ پاک فوج میں کوئی جنرل یحییٰ اور جنرل نیازی نہیں۔ اور پاکستان پر اللہ کا سایہ ہے۔
نواز شریف پھر بھی اپنا فیصلہ خود کر نے میں آزاد ہیں۔ وہ کبھی اپنے آپ کو قائداعظم ثا نی کہتے ہیں اور دوسرے سانس میں شیخ مجیب بننے کی خواہش کااظہار کرتے ہیں۔ قائد اعظم ثانی بن کر وہ تین بار پاکستان کے وزیر اعظم بنے۔ شیخ مجیب بن کر ان کے ہاتھ کیالگے گا، پہلے والے شیخ مجیب کو تو کچھ نہ ملا سوائے تاریخ میں رسوائی کے۔