خبرنامہ

کیا پیپلز پارٹی ستتر کا انتقام لینے کی پوزیشن میں ہے…اسد اللہ غالب

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

کیا پیپلز پارٹی ستتر کا انتقام لینے کی پوزیشن میں ہے…اسد اللہ غالب

ستتر میں الیکشن کے پہلے مرحلے پر قومی اسمبلی کی اکثریتی سیٹیں پیپلز پارٹی نے جیت لی تھیں مگر راتوں رات بننے والے پاکستان قومی اتحاد، پی این اے نے شور مچا دیا کہ اس الیکشن میں دھاندلی کی گئی ہے، اس لئے اس نے صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کا بائیکاٹ کر دیا۔
اس الیکشن کی قانونی حیثیت جو بھی ہو، اخلاقی حیثیت کوئی نہ تھی پیپلز پارٹی اعتماد کے ساتھ وفاقی اور صوبائی حکومتیں بنانے کی پوزیشن میں نہ تھی۔ پی این اے کی احتجاجی تحریک رکنے میں نہ آئی۔ اس پر ایک دن تو فوج نے گولی چلائی اور چند بپھرے ہوئے نوجوان شہید ہو گئے مگر دوسرے روز فوج نے ہجوم پرگولی چلانے سے انکار کر دیا، حکم عدولی کرنے والوں کا فوجی کمان نے اپنے قوانین کے تحت محاسبہ تو کیا مگر پی این والے شیر ہو گئے کہ اب ان کو کوئی ہاتھ نہیں لگا سکتا۔ یوں بھٹو کی حکومت فوج کے ہاتھوں غتربود ہو گئی اور پھر اسے ایک قتل کے مقدمے میں پھانسی بھی دے دی گئی، بھٹو پر جو چارج شیٹ عائد کی گئی، اس کے تحت نہ دنیا میں پہلے کسی کو پھانسی ہوئی، نہ بعد میں بلکہ اب تک بھٹو کو سزا سنانے والے بنچ کے اکثر ارکان قوم سے معافی بھی مانگ چکے ہیں مگر جو ہونا تھا، وہ ہو چکا تھا۔ پیپلز پارٹی سے حکومت چھن گئی تھی، اس کے لیڈر کو لٹکا دیا گیا تھا اور اس کے ورکروںکو قید و بند میں ڈال دیا گیا، کوڑے مارے گئے، ٹکٹکیوں پر چڑھایا گیا اور آگے چل کر سینکڑوں لوگوں کو ایک ہائی جیکنگ کی آڑ میں ملک بدر کر دیا گیا۔ بے نظیر بھٹو اور نصرت بھٹو بھی مقدمے جھیلتی رہیں اور جلاوطنی کی سزا بھی پاتی رہیں۔
مجھے ڈر ہے کہ آج پیپلز پارٹی اپنے ستتر کے مخالفین سے انتقام لینے کی پوزیشن میں ہے اور وہ اگر صرف قومی اسمبلی کے انتخابات کا ہی بائیکاٹ کر دے تو اس کے سارے مخالفین اس کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو جائیں گے۔ صوبائی اسمبلی کے انتخابات کے نتیجے میں صوبوں کی حکومتیں تو بن ہی جائیں گی اور ظاہر ہے کہ سندھ پیپلز پارٹی ہی کے ہاتھ میں رہے گا، مگر وفاق کی حکومت اکیلے ن لیگ نے الیکشن لڑ کر بنانے کی کوشش کی تو اس کی کوئی اخلاقی ساکھ نہ ہو گی۔ اس کے لئے پیلز پارٹی، کوئٹہ اسمبلی اور سینیٹ کے الیکشن کاری پلے کر سکتی ہے کہ کم از کم ایک بڑی پارٹی جو کہ اس وقت تحریک انصاف ہی ہے، اسے بھی قومی اسمبلی کے الیکشن کے بائیکاٹ کے لئے آمادہ کر لے۔ اب منظر یہ ہو گا کہ ملک کی دو بڑی اور مو¿ثر پارٹیاںجو کہ سندھ اور خیبر پی کے میں حکومت بنا چکی ہوں گی، وہ وفاق کی سطح پر نظر نہیں آ رہی ہوں گی، ان حالات میں کوئی بھی ایسی پارٹی جو اکیلی قومی اسمبلی کا الیکشن لڑ کر وفاقی حکومت بنانے کی کوشش کرے گی، پورا ملک اس حکومت کو تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ہو گا۔ اور ستتر کی پی این اے سے بھی بڑی تحریک ابھرے گی، لوگ سڑکوں پر ہوں گے۔ بھٹو نے ستتر کے الیکشن کے بعد یہ اعلان کیا تھا کہ جو کوئی ڈھاکہ میں قومی اسمبلی کے اجلاس میں شریک ہو گا، اس کی ٹانگیں توڑ دی جائیں گی، یہی دھمکی جناب زرداری بھی دے سکتے ہیں کہ اگر کوئی شخص اسلام آباد میں قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کرے گا تو اس کا معاشرتی، سیاسی مقاطعہ کر دیا جائے گا، اور دھمکیاں دی جا سکتی ہیں کہ ان کا منہ کالا کیا جائے گا، ان کے گھروں کا گھیراﺅ کیا جائے گا۔ سڑکوں پر ان کی گاڑیوں کو حرکت نہیں کرنے دیں گے۔ دھمکیوں کی کوئی حد نہیں، زرداری نے جنرل راحیل شریف کو دھمکی دے ڈالی تھی کہ تم تین سال کے لئے ہو، میں ہمیشہ کے لئے ہوں تو ایسے شخص سے کچھ بعید نہیں کہ وہ کیا کیا اور کس کس کو دھمکی نہ دے ڈالے، آخر اسے بھی تو دھمکیاں سننے کو ملتی ہیں کہ زرداری کو سڑکوں پر گھسیٹیں گے۔ اسی زرداری کو گیارہ برس تک تین حکومتیں انتقام کا نشانہ بنا چکی ہیں۔ اس زرداری کو کوئی بھی سیدھے سبھاﺅ اقتدار میں نہیں آنے دے گا تو زرداری بھی اس اصول پر چل سکتا ہے کہ نہ کھیلیں گے، نہ کھیلنے دیں گے، بھٹو نے کہا تھا، ادھر ہم، ادھر تم، یہی اعلان زرداری بھی کر سکتا ہے کہ فلاں جگہ تمہاری حکومت، فلاں جگہ میری حکومت اور مجھے خدشہ ہے کہ اس صورت حال میں وفاق کی چولیں ہل سکتی ہیں۔ اور ملک کی سلامتی، وحدت کو بچانے کی اسی طرح ہر تدبیر ناکام ہو سکتی ہے جیسے مشرقی پاکستان کے ساتھ اکٹھے رہنا مشکل ہو گیا تھا اور ملک ٹوٹ گیا۔ اس ملک کو تب کسی نے مقدس نہیں مانا تو آج بھی ایسی ہی حرکت کوئی بھی کر سکتا ہے اور خدانخواستہ نتیجہ بھی وہی ہو گا، خاکم بدہن۔ خدا ایسے حشر سے محفوظ رکھے۔
ایسی صورت حال سے بچنے کے لئے ہم سب کو سیاسی بساط احتیاط سے بچھانی ہو گی، کوئی کسی کا لاڈلا نہ ہو، کوئی ادارہ کسی دوسرے ادارے میں مداخلت نہ کرے، جنرل کیانی جس طرح الیکشن کمیشن میں جا پہنچے تھے، وہ منظر نہ دہرایا جائے، نہ جنرل احتشام ضمیر والی حرکتیں کی جائیں، نہ الیکشن انجینئرڈ ہو، نہ نتائج کو کمپیوٹر میں من مرضی سے مرتب کیا جائے۔ جو ادارے مردم شماری کی فائلوں پر سانپ بن کر بیٹھ گئے ہیں، وہ انسان بنیں۔ اور مردم شماری کو جھرلو پھیرنے کے لئے استعمال نہ کریں۔ احتساب کا جو عمل جاری ہے، اس کے فیصلے سرعت سے کئے جائیں اور احتساب ہر کسی کا کیا جائے، صرف ایک شخص کا ہو گا تو وہ اسی طرح شور مچاتا رہے گا اور پانی گدلا ہوتا رہے گا۔
نجانے میرے ذہن میں یہ وہم کیوں ہے کہ یہ پاکستان کا نازک ترین الیکشن ہے۔ ایسا وہم ہر الیکشن کے وقت ہوتا ہے اس لئے کہ ہر الیکشن سے پہلے احتساب کا نعرہ لگتا ہے اور اس کے لئے کسی معین قریشی کو امریکہ سے درآمد کیا جاتا ہے، کبھی ٹیکنوکریٹ کی حکومت کے شوشے چھوڑے جاتے ہیں، جو طویل مدت کے لئے اقتدار پر قابض رہ سکتی ہے مگر بھائی کس قانون کے تحت۔ انہونی ہونی ہو تو وہ قانون کی محتاج نہیں ہوتی، اس کے لئے نظریہ ضرورت، الہ دین کے جن کی شکل میں موجود ہوتا ہے۔ یہی الہ دین کا جن ایوب خاں کے لئے مبارک سلامت کا شور مچاتا رہا، اسی نے یحییٰ خان اور ضیا کا سواگت کیا اور مشرف کے گلے میں پھولوں کے ہار پہنائے۔
اصل میں پاکستان کا وجود اس کے دشمنوں اور اس کے ایجنٹوں کے لئے ناقابل برداشت ہوتا جا رہا ہے۔ دشمن افواج ہمارے چاروں طرف مورچہ زن ہیں۔ اور اس کے شردھالو، ایران سے آنے والے را کے افسر کل بھوشن یادیو سے ہدایات لیتے ہیں۔
ہمیں پوری چوکسی کا مظاہرہ کرنا ہو گا، سورج سوا نیزے پر ہے، سامنے پل صراط ہے۔ بس وقت دعا ہے۔
اس وقت سینیٹ کے الیکشن کو حکومتی سطح پر وائنڈ اَپ نشو کرنے کی کوشش جاری ہے، یہ کوشش آگے بڑھائی گئی تو زرداری اور عمران کے پاس کوئی اور آپشن نہیں ہو گا کہ وہ اگلے قومی اسمبلی کے الیکشن کا بائیکاٹ کر دیں اور پھر دما دم مست قلندر!!