خبرنامہ

گلگت بلتستان، وزیر اعظم کا ایک اور چھکا…اسد اللہ غالب

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

گلگت بلتستان، وزیر اعظم کا ایک اور چھکا…اسد اللہ غالب

یہ کیسا وزیر اعظم ہے جسے حکومت کے آخری دنوں میں لمبی تان کے سو جانا چاہئے تھا مگر وہ تو ہر روز نئے سے نیاا علان کر رہا ہے، یہ اعلانات نہیں ، انقلابات ہیں،تبدیلی کا نعرہ تو کسی اور نے لگایا ہے مگر تبدیلی در حقیقت کوئی اور لا رہا ہے۔ تبدیلی کا نعرہ لگانے والے بھول گئے ہیں کہ پچھلے الیکشن میں ایک نعرہ بڑا پاپولر ہوا تھا کہ بدلا ہے پنجاب بدلیں گے پاکستان، اور اب انہوںنے پاکستان کو بدل کر دکھا دیا ہے، دوسروں کوبلی کی طرح چھیچھڑوں کے خواب ہی آتے ہیں اور وہ مستقبل کی حکومت ملنے پرسو دنوں کے پروگراموں کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں ،انہیں کیا پتہ تھا کہ ان کا پالا ایک گھاگ سیاست دان سے پڑ گیا ہے جو نااہل ہونے کے باجود اپنی اہلیت ثابت کرتا چلا جا رہا ہے ا ور اپنی پارٹی کی حکومت کے آخری لمحے تک عوام کو ششدر کئے چلے جا رہا ہے، خیبر پی کے میں فاٹا کاانضمام کوئی معمولی بات نہیں تھی، انگریز سرکار ایسا سوچ بھی نہیں سکتی تھی، ہماری ستر برس تک کی حکومتیں یہ سوچ کر کانپ جاتی تھیں مگر مسلم لیگ ن نے یہ کارنامہ ایسے انجام دیا ہے کہ پوری دنیا سے واہ واہ ہو رہی ہے ، فاٹا کے عوام کو ان کے بنیادی حقوق دینا عالمی رائے عامہ کے لئے بڑی اہمیت رکھتا ہے،یہ کام پہلے قومی ا سمبلی نے کیا اور ایک روز کے اندر کیا، پھر سینیٹ نے کیا اور ایک روز کے اندر کیا ، اب خیبر پی کے اسمبلی نے ا سکی منظوری دی اور ایک روز کے اندر دی، اسے کہتے ہیں مدبرانہ سیاست، اس کا سبق کوئی میاںنوا شریف سے سیکھے،شاہد خاقان عباسی بھی چھپے رستم نکلے ہیں مگر وہ ایک بڑے باپ کے بیٹے ہیں ، ان کے والد اوجڑی کیمپ کے حادثے میں شہید ہوئے،شاہد خاقان عباسی اب جا رہے ہیں تو میں بتاتا ہوں کہ ان کے والد میرے گہرے دوست تھے، یہ دوستوں کا ایک حلقہ تھا جس میں محمود ہارون، خاقان عباسی، میر ظفراللہ جمالی، شیخ اصغر شامل تھے اور لاہور میں ان کی بیٹھک طارق رحیم کے گھر لگتی تھی۔ آپ مجھے بھی ان میں شامل سمجھئے،مرحوم سیدانور قدوائی اور یوسف صلی بھی اس کہکشاں کا حصہ تھے۔اس ٹولے سے ہٹ کر چمبہ ہاﺅس بھی سیاست کا مرکز تھا جہاں راجہ ظفرالحق اور غلام دستگیر خاں۔ سرادر عبدالقیوم ،سردار اسکندر حیات خان اور سلطان محمود چودھری کا جمگھٹا لگتا تھا۔ اس دور میں بلیم گیم نہیں ہوتی تھی ، بہر حال شاہد خاقان عباسی کی رگوں میں ایک عظیم باپ کا خون دوڑ رہا ہے، اور وہ اپنی حکومت کے آخری دنوںمیں خوب دوڑ بھاگ کر رہے ہیں، گزشتہ روز گلگت جا پہنچے اور وہاں کی اسمبلی سے خطاب کر ڈالا، یہ خطاب کیا تھا ایک نئے دور کی نوید تھی ، وہی جو فاٹا کے عوام کو ایک روز پہلے ملی، گلگت والے ایک دن بعد سہی مگر انہیں بھی اپنے حقوق مل گئے ، اب ان کا اپنا گورنر ہو گا، اپنا وزیر اعظم ہو گا، اپنا چیف جسٹس ہو گا۔ اپنا چیف سیکرٹری ہوگا اور سب کے سب بااختیا ہوں گے، کوئی تخت اسلام ا ٓباد کا باجگزار نہیں ہو گا۔
گلگت بلتستان کے ا س انقلاب کے پیچھے کہتے ہیں کہ آرمی چیف کی سوچ بھی شامل ہے ، وہ اپنی ملازمت کا کچھ عرصہ وہاں گزار چکے ہیں ، آج کل میرے ایک دوست اس علاقے میں اعلی فوجی افسر ہیں ، وہ فوجی افسر ہونے کے ساتھ ساتھ مسلمہ دانشور ہیں اور زمانے کے ہیر پھیر پر ان کی گہری نظر ہے، انہوںنے اپنی ایک کتاب مجھے بھیج رکھی ہے جسے سمجھنے اور پھرا س سے کچھ اخذ کرنے کے لئے مجھے اپنا ان کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کرنا پڑے گا، بات ہورہی تھی کہ آرمی چیف بھی گلگت کی اس تبدیلی کے حامی تھے ، میں سمجھتا ہوں کہ فوج کا ادارہ فاٹا کے، خیبر پی کے میں انضمام کے پیچھے بھی تن کر کھڑا تھا۔پتہ نہیں کون لوگ یہ شرلی چھوڑتے ہیں کہ حکومت اور فوج ایک صفحے پر نہیں ہیں ، ان میں ہم آہنگی نہ ہوتی تو سی پیک، فاٹا ،اور اب گلگت والی پیش رفت نہ ہوتی۔ کہنے والوں کو کہنے دیجیئے کہ حکومت اور فوج میں دوریاں ہیں ، اگر یہ کہہ کر انہیں آسودگی میسر ہوتی ہے تو ہمیں دل جلانے سے کیا حاصل ، ہمیں پیڑ گننے سے غرض نہیں ، پھل کھانے سے غرض ہے اور پھل اگر شیریں اور ذائقے دار ہو تو کیا کہنے۔پتہ نہیں شاہد خاقان عباسی کی گتھلی میں ابھی اور کیا کچھ پنہاں ہے۔ وزیر اعظم کی اسپیڈ کے پیش نظر باقی ماندہ چار دنوں میں چار صدیوں کاسفر طے ہو سکتا ہے۔اسپیڈ تو میاں شہباز شریف کی بھی مشہور ہے بلکہ چین والے اسے محاورے کے طور پر استعمال کرتے ہیں مگر وزیر اعظم تو زقندیں بھرتے چلے جا رہے ہیں۔
اب شور تو مچے گا کہ گلگت بلتستان متنازعہ علاقہ ہے مگر یہ شور پاکستان کے بجائے بھارت میں مچنا چاہیئے، نئی دلی کے پیٹ میں مروڑ تو اٹھے گا ہی ، ہمارے ہاں فکر مندی کاہے کی، کشمیر ہمارا ہے اور سارے کا سارا ہے کشمیریوں کا نعرہ ہے کشمیر بنے ¿گا پاکستان اور اگر گلگت بلتستان بھی پاکستان کا عکس بن جائے تو مضائقہ کیا ہے۔
کہتے تو یہ ہیں کہ جس نے لاہور نہیں دیکھا اس نے کچھ نہیں دیکھا مگر میں کہتا ہوں کہ جس نے گلگت اور بلتستان نہیں دیکھا، ا س نے قدرت کو نہیں دیکھا۔ ہمارے دوست ڈاکٹر شفیق جالندھری خوش قسمت ہیں کہ پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ صحافت سے ریٹائر ہوئے تو گلگت یونیورسٹی میں تین سال کے لئے شعبہ صحافت کے سربراہ بن گئے، وہ کہتے ہی رہے کہ ادھر آکر دیکھو ، یہ ایک نرالی دنیا ہے، ان سے پہلے ایئر مارشل اصغر خان کے بھائی نے گلگت میں ایک جدید ہوٹل تعمیر کیا تھا، ان کی بھی دعوت تھی کہ آﺅ اور فطرت کا مشاہدہ کرو ۔ مگر یہ نصیب میں نہ تھا۔ فیس بک پر ایک دوست کے بارے میں پتہ چلا کہ وہ گلگت کا رہنے والا ہے اور پنجاب یونیورسٹی کا طالب علم ہے ، میں نے فرمائش کر کے اس سے گلگتی سفید اون کی ٹوپی ، اس پر خوش رنگ پر لگے ہوئے اور ایک چوغہ منگوایا۔ یہ نوادرات میرے پاس محفوظ ہیں اور میںشاد کام ہوں کہ میرے گھر میں چھوٹا سا گلگت آباد ہے۔ مگر وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کے تازہ اعلان کے بعد گلگت میرے دل میں آن بسا ہے کہ اسے پاکستان سے جوڑ دیا گیا ہے اور گلگت والوں کو وہی حقوق مل گئے ہیں جو ہم پاکستانیوں کو حاصل ہیں۔
بھارت نے مقبوضہ کشمیر کو ایک عرصے سے اپنے جغرافیئے کا حصہ بنایا ہوا ہے ، وہ کشمیر کو اپناا ٹوٹ انگ کہتا ہے تو ہم بھی قائد اعظم کے الفاظ میں کشمیر کو اپنی شہہ رگ کہتے ہیں ۔ کون ہے جو ہماری شہہ رگ پر ہاتھ ڈالنے کی ہمت رکھتا ہے۔