خبرنامہ

گورنر ہاؤس میں آئین شکنی کی برسوں پرانی روائت…..اسد اللہ غالب

گورنر ہاؤس میں آئین شکنی کی برسوں پرانی روائت…..اسد اللہ غالب

چند بد روحیں ہیں جن کاپنجاب کے گورنر ہاؤس پر قبضہ ہے۔ وہ ہر نئے گورنر کی روح میں حلول کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔گورنر آڈوائر کے زیر سایہ کرنل ڈائر نے امرتسر کے جلیاں والاباغ میں قتل عام کیا۔ یہاں ڈاکٹر ستیہ پال اور سیف الدین کچلو کے خلاف انگریز حکومت کی انتقامی کاروائی پر احتجاج کے لئے مسلم اور غیر مسلم سبھی ایک پر امن مظاہرے کے لئے اکٹھے ہوئے مگر انہیں لاشوں کے ڈھیر میں تبدیل کر دیا گیا۔
پاکستان بننے کے بعد یہاں امیر محمد خاں نے بسیرا کیا جو گورنر کالا باغ کے نام سے مشہور ہیں، ان کے بعد جو بھی گورنر بنا، اس کے ذہن میں یہ فتور آ گیا کہ وہ بھی گورنر آڈوائر اور گورنر کالا باغ کی طاقت سے لیس ہے۔ حالانکہ گورنری کا منصب محض آئینی ہوتا ہے۔ یہ ایک رسمی سا عہدہ ہے اور فیڈریشن کی علامت کے طور پر ایک فیشنی منصب سمجھا جاتا ہے جیسے برطانہ کی ملکہ اور جاپان اور یورپ کے کئی بادشاہ اور ملکائیں۔ ان بادشاہوں اور ملکاہوں نے کبھی اپنے آئین کو توڑنے کی جرات نہیں کی۔لاہور کے گورنر ہاؤس میں مصطفی کھر آئے تو آئین شکنی کے ساتھ انہوں نے بستر شکنی کی رسم بھی ڈالی۔ سمن آباد سے دو طالبات کو اغوا کیا گیا جن کے بارے میں طالب علم لیڈر جاوید ہاشمی کا الزام تھا کہ انہیں گورنر ہاؤس میں رکھا گیا ہے۔گورنر غلام جیلانی نے بھی چام کے دام چلائے اور ایک انتہائی شتریف النفس انسان میاں اظہر گورنر بنے تو انہوں نے آئین پر کلہاڑا چلایا اور وزیراعلی کے کچھ اختیارات سلب کر لئے۔ کہا یہ گیا کہ یہ سب باہمی رضامندی سے ہو رہا ہے مگر ایک کمزور سے وزیر اعلی غلام حیدر وائیں نے گورنر اظہر کو اپنی چادر میں پاؤں سکیڑنے پر مجبور کر دیا۔ مسلم لیگ ن ہی نے چودھری سرور کو گورنر لگایا تو ایک بار پھر آئین سے انحراف کیا گیاا ور گورنر نے بعض نیک کام اپنے ہاتھ میں لے لئے۔ وہ سمجھتے تھے کہ قوم پر احسان فرما رہے ہیں مگر ا س بار گورنر کے سامنے کوئی غلام حیدرو ائیں نہیں ، ایک مرد آہن شہباز شریف وزیر اعلی تھا جس نے گورنر کو اپنی حد میں رہنے پر مجبور کیا تو چودھری سرور یہ منصب ہی چھوڑ گئے اور پی ٹی آئی کو پیارے ہو گئے جہاں سے سینیٹ کے لئے منتخب ہوئے، سنا یہ جا رہا تھا کہ وہ پنجاب کے وزیر اعلی بننا چاہتے ہیں مگر جہانگیر تریں، علیم خان، شاہ محمود قریشی ، اعجاز چودھری اور محمود الرشید کے ہوتے ہوئے ان کی دال نہ گلی ،اسی لئے انہیں ایک بار پھر پنجاب کا گورنر بنا دیا گیا۔ میراخیال یہ تھا کہ وہ اپنے ماضی کے انجام سے سبق سیکھیں گے اور اپنا عرصہ خاموشی سے گزارنے پر اکتفا کریں گے۔مگر ان کا کہنا ہے کہ انہیں وزیر اعظم عمران خان نے صاف پانی کی فراہمی اور تعلیم کا نظام درست کرنے کا ٹاسک دیا ہے۔ انہیں وفاقی کابینہ کے اجلاس میں شرکت کی اجازت بھی ہے۔ مجھے یقین نہیں آتا کہ عمران خان جو میرٹ کی بات کرتے ہیں، آئینی روایات کی پابندی کی بات کرتے ہیں،وہ کس طرح کے آئین سے بالاتر نظام کے حق میں بھی ہو سکتے ہیں۔ میں پھر کہتا ہوں کہ میرا ذہن اس بات کو قبول نہیں کرتا لیکن عمران خان ہی نے گورنر سرور کو صحت اور تعلیم کے امور چلانے کی اجازت بخشی ہے تو انہیں اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرنی چاہئے۔پاکستان ایک فیڈریشن ہے۔ وفاقی روح کو پامال کر نے کی پاداش میں ہم آدھے ملک سے محروم ہو چکے ہیں اور باقی پاکستان کے تین صوبے محرمیوں کا رونا روتے رہتے ہیں اور پنجاب کی بالا دستی کے خلاف آواز اٹھاتے رہتے ہیں۔ پاکستان کا موجودہ آئین اٹھارویں ترمیم کے بعد تعلیم اور صحت کا شعبہ صوبوں کے سپرد کرچکا ہے ، اسی طرح بلدیاتی نظام بھی صوبوں کے ہاتھ میں دیا گیا ہے اور صوبوں میں بھی یہ محکمے وزرائے ا علی کی راہنمائی میں متعلقہ وزرا کے مکمل اختیار میں ہونے چاہئیں، یہ کوئی دلیل نہیں کہ جب ایک ہی پارٹی کی حکومت ہے تو افہام و تفہیم سے حکومت چلائی جا سکتی ہے،۔ آئین میں اس افہام و تفہیم کی گنجائش نہیں جس میں وفاقی حکومت صوبائی لسٹ پر ہاتھ صاف کرے یا صوبے کا گورنر اپنے وزیر اعلی اور ان کی کابینہ کے اختیارات سنبھلانے کی کوشش کرے۔ یہ بھی کوئی دلیل نہیں کہ گورنر صاحب اور صوبے کے وزیر تعلیم ایک پیج پر ہیں۔ یہ بھی کوئی دلیل نہیں کہ کبھی گورنر صاحب مشاورت کے لیے وزیر اعلی کے پاس چلے جائیں گے اور کبھی وزیر اعلی صاحب مشورہ لینے گورنر ہاؤس چلے آئیں گے۔ آئین میں گورنر اور وزیر اعلی کی مشاورت کی کوئی گنجائش نہیں بلکہ آئین تو گورنر کو وزیر اعلی پر چیک اینڈ بیلنس رکھنے کا پابند بناتا ہے۔
گورنر سرور کی دسترس میں براؤن صاحب کاا ینڈو منٹ فنڈ ہے تو انہیں وزیر اعظم سے کہنا چاہئے کہ وہ براؤن صاحب سے بات کریں ۔اوور سیز پاکستانی اگر اپنے ملک میں کچھ منصوبے لگانے کے خوہاں ہیں تواس کے لئے اوور سیز پاکستانیوں کے وزیر صاحب کو متحرک ہونا چاہئے، ہسپتالوں کا نظام ٹھیک کرنا ہے تواس کے لے ہر صوبے کی کابینہ میں وزیر صحت موجود ہے۔پنجاب میں بیگم یاسمین راشد اس کے لئے سرگرم عملی ہیں۔ اگر گورنر نے یہ کام کرنے ہیں تو ان محکموں کے وزرا کا خرچہ برداشت کرنے کی ضرورت کیا ہے اور اگر گورنر سرور کو ان محکموں کے معاملات پر عبور حاصل ہے تووہ وہ سیدھے سبھاؤ پنجاب اسمبلی کی کسی خالی نشست پر الیکشن لڑیں اور اپنی پسند کے محکمے سنبھال لیں، کسی کو ان پر کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔ مگر یہ سوال ضرور اٹھایا جائے گا کہ چودھری سرور کے پاس تعلیم ، صحت اور بلدیات کو چلانے کا تجربہ کہاں سے آیا۔ میری معلومات کے مطابق وہ برٹش پارلیمنٹ کے رکن ضرور منتخب ہوتے رہے مگر انہیں کبھی کسی محکمے کا چارج نہیں ملا۔ وہ کہتے ہیں کہ انہون نے برطانیہ میں صحت اور تعلیم میں بہت کام کیا تو کس حیثیت میں کیا اور اگر کیا تو ان کا بیٹا اپنی نشست پر شکست کیوں کھا بیٹھا، اگر گورنر سرور نے مخیر پاکستانوں کی مدد سے پاکستان میں کوئی ڈسپنسری قائم کی ہو، یا آنکھوں کے لئے کبھی کیمپ لگایا ہو تو یہ کارنامے ایسے نہیں کہ ان کی بنا پر انہیں پنجاب اور ملک بھر میں تعلیم، صحت اور بلدیات کا مکمل چارج سونپ دیا جائے۔
مجھے تو بزدار صاحب کے وزیر اعلی بننے پر کوئی ا عتراض نہیں ، پنجاب تحریک انصاف کی پالیمانی پارٹی نے جسے مناسب سمجھا،اسے یہ منصب دے دیا مگر ملک میں ہرشخص باتیں بناتا ہے کہ بظاہر ایک کمزور اور غیر معروف شخص کو ڈمی وزیر اعلی بنا دیا گیا، ورا صل اختیار کچھ اور لوگوں کو دے دئے گئے ہیں، صوبے میں پہلا پولیس تبادلہ احسن اقبال گجر کے حکم سے ہوا جو کہ نہ رکن اسمبلی ہیں ، نہ تحریک انصاف میں بلکہ اس کی مخالف ن لیگ کے ساتھ ہیں۔ ایک زمانے میں غلام حیدر وائیں کی وزرات ا علی انہی کے دفتر میں بیٹھ کر شہباز شریف چلاتے تھے۔ یہ انتظام اس قدر بوگس ثابت ہوا کہ منظور وٹو نے لاہور کے ڈی آئی جی رانامقبول کی مدد سے بے چارے وائیں صاحب کا تختہ الٹ دیا۔ اب بھی پنجاب میں جو صورت بن گئی ہے اس پر رنا مشہود کو کہنے کا موقع مل گیا ہے کہ تین ماہ میں پنجاب کی حکومت ن لیگ کے پاس ہو گی۔ یہ بحث ایک طوفان کی شکل ا ختیار کر سکتی ہے۔ میڈیا کو ایک شرلی یا در فنطنی کی ضرورت ہئے،۔وہ رائی کا پہاڑ بنا دیتا ہے ۔ اوپر سے گورنر سرور نے آئین سے بالاتر نظام کی بات کر کے اس بحث پر پٹرول چھڑک دیا ہے اور میرے جیسا چودھری سرور کا مخلص تریں دوست بھی اس انتظام یا نظام کی مخالفت پر مجبور ہو گیا ہے۔
میری چودھری سرور یا پی ٹی آئی سے کوئی دشمنی نہیں، اگر وہ اس آئین کو کارآمد نہیں سمجھتے تو ان کے پاس آئین ہی کا دیا ہو ایہ اختیار موجود ہے کہ وہ اسے بدل ڈالیں۔ اور وفاقی کے بجائے وحدانی نظام کو اپنا لیں مگر اس سے پاکستان کی اکائیوں کو متحد رکھنا مشکل ہو جائے گا۔ ویسے میں پی ٹی آئی کو یقین دلاتا ہوں کہ وہ ن لیگ اور پی پی پی سے بات کریں۔ دونوں کو اختیارات کے ارتکاز پر کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔ بھٹو نے بھی بادشاہت کی طرح حکومت چلائی بلکہ حکومت کا ڈنڈا چلایا، نواز شریف بھی کہتے رہے کہ یہ آئین میرے راسے میں رکاوٹ ہے، اس ذہنیت والی پارٹی توسرے سے آئین کے وجود کوختم کرنے کے لئے تیار ہو گی۔ آخر برطانیہ میں بھی تو کوئی تحریری آئین نہیں، سب نظام روایات کے سہارے چل رہا ہے۔ امریکہ کاآئین ا س قدر مختصر ہے کہ ایک پمفلٹ میں سما گیا ہے۔ لیکن اگر پاکستان میں موجودہ آئین کا حلف لیا گیا ہے تو پھر اس حلف کو توڑنے کی سزا بڑی مہنگی ہے۔ یہ بہانہ کام نہیں آئے گا کہ کسی فوجی ڈکٹیٹر کو آئین شکنی کی سزا نہیں ملی۔ یہاں تو ایک و زیر اعظم نے اپنے گوشوارے میں بیٹے سے لی جانیو الی تنخواہ کا ذکر نہیں کیا تو اسے جھوٹا، کاذب اور خائن قرار دے کر وزارت عظمی سے الگ کرد یا گیا، وہ بے چارہ پوچھتا ہی رہ گیا کہ مجھے کیوں نکالا کہ اسے ا ڈیالہ میں لا ڈالا۔
موجودہ حکومت اگر صوبوں کے معاملات جو کہ تعیم صاف پانی، صحت اور بلدیات سے تعلق رکھتے ہیں ، انہیں آئین سے ہٹ کر بعض من پسبد شخصیات کے حوالے کرنا چاہتی ہے تو میرا مشورہ پھر یہی ہے کہ وہ آئین میں ترمیم کر لے اور پھر جوچاہے کز گزرے، اسے کوئی پوچھنے والا نہیں ہو گا مگر موجودہ آئین کے ہوتے ہوئے اس سے بالاتر، یا اس سے ہٹ کر کوئی انتظام یا نظام چلایا گیا تو اس سے ملک کی وحدت، یک جہتی اور سلامتی کو خطرہ درپیش ہو گا۔ یہاں تو کوئی کالا باغ ڈیم نہیں بننے دیتابھائی!